Tuesday, July 29, 2025
 

پاکستانی شناخت کا مقدمہ

 



قومیں اپنی پہچان کھودیں تو صرف زمین کا ٹکڑا بچتا ہے اور نظریہ مٹ جائے تو جھنڈا صرف ایک رن گین کپڑا بن کر رہ جاتا ہے۔ کیا ہم بغداد کی تہذیب کے وارث ہیں یا ہمارا آئیڈیل ریاست مدینہ کی خلافت ہے؟ کیا ہمارا رشتہ خلیج کے قبائل سے جُڑا ہے یا ہم چندر گپت موریہ کی نسل سے ہیں؟ کیا محمد بن قاسم ہمارا ہیرو ہے یا ہمارا دل راجا داہر کی مزاحمت پر دھڑکتا ہے؟ کیا ہم ترکوں سے امت کی قیادت کی امید رکھتے ہیں یا مدینہ سے نئی روشنی کے متلاشی ہیں؟ کیا ہم بھگت سنگھ کی قربانیوں کو اپنی تاریخ کا حصہ مانتے ہیں یا ہمارا فخر غازی علم الدین شہید تک محدود ہے؟ کسی بھی قوم کی روزمرہ زندگی میں جب سوال اٹھتے ہیں کہ ’’ہم کون ہیں؟‘‘ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کہاں جانا ہے؟‘‘ تو یہ محض تاریخ یا مذہب کی بحث نہیں ہوتی بلکہ یہ شناخت کا مقدمہ ہوتا ہے اور مستقبل کے نقشے کے خدوخال بھی۔ ایسی بحث دراصل ایک اجتماعی شعور کو جنم دیتی ہے جو کسی بھی قوم کے نظریات، اقدار اور ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ تاریخ صرف فخر کے لیے نہیں، راہ نمائی کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ شناخت صرف ماضی کا تعارف نہیں، حال کی بنیاد اور مستقبل کی سمت ہے اور اگر کوئی قوم اپنی تاریخ بھول جائے یا اپنی شناخت کو خود مشکوک بنانے لگے تو وہ نہ صرف ماضی سے کٹ جاتی ہے بلکہ حال کی دھند میں بھٹکتی ہے اور پھر مستقبل اس کے ہاتھ سے یوں نکل جاتا ہے جیسے بند مٹھی سے ریت۔ شناخت وہ آئینہ ہے جس میں قومیں اپنے مقام، اپنے نظریات اور اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ یہی شناخت ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا ہیرو کون ہے، ہمارا وژن کیا ہے، ہماری اقدار کن بنیادوں پر کھڑی ہیں، اور ہم زندگی کس طرز پر جینا چاہتے ہیں؟ جس قوم کی تاریخ دھندلی ہو، اس کا حال لرزتا ہے اور مستقبل دھند میں گم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے پاکستان جیسے معاشرے میں یہ سوالات جو بظاہر بیزارکن ’’تاریخی بحث‘‘ لگتے ہیں۔ درحقیقت ایک قوم کی بقا کا مقدمہ ہوتے ہیں۔ یہ طے کرتے ہیں کہ ہماری تعلیم، قانون، سیاست، اور اخلاقیات کس نظریے کی بنیاد پر استوار ہوں گے۔ اور اگر یہ مقدمہ ہار گئے تو باقی نظام جیسا ہے ویسے ہی رہے گا یعنی نیم پکا، آدھا سیکولر، آدھا جذباتی، اور تین چوتھائی کنفیوز۔ اب آئیے تھوڑا ماضی کی طرف جھانکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی اسلامی شناخت نے ہی برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا۔ عالمی سیاست میں بھی پاکستان کا رجحان ہمیشہ مسلم امہ کی تہذیب کی طرف رہا۔ یعنی ہمارا دل ترکی، انڈونیشیا، مصر، سعودی عرب، ہر اُس ملک کے لیے دھڑکتا ہے جہاں سے اذان کی آوا ز آتی ہو۔ لیکن یہاں کہانی میں ایک موڑ آتا ہے، جسے ہم ’’دانش ورانہ کٹ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ کچھ مقامی دانش ور ایسے بھی ہیں جنہوں نے تہذیبی شناخت کے میدان میں تھوڑا سا تجربہ کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر ان حضرات کے دلائل ہوتے ہیں کہ ہم ہزاروں سال سے اسی دھرتی پر ہیں، لہٰذا ہم تہذیبی طور پر ہندی ہیں اور صرف ایک سرحد کھینچ دینے سے ہماری تہذیب بدل نہیں گئی یا پاکستان کی کوئی ایک تہذیب نہیں بلکہ یہ مختلف علاقائی تہذیبوں کا مجموعہ ہے، لہٰذا کسی ایک کو حتمی شناخت قرار دینا زیادتی ہوگی۔ مزید پیچیدگی وہاں آتی ہے جہاں کچھ لوگ امت مسلمہ کے تصور کو بھی ایک واحد ریاست کے خواب کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں اور پھر وہ خواب خواب ہی رہ جاتا ہے، کیوںکہ شناخت کی غلط تعریف کا نتیجہ حقیقت میں ترکی کے ڈرامے دیکھ کر جذباتی ہوجانے یا کبھی دبئی میں چھٹیاں گزار کر ترقی سے متاثر ہوجانے تک محدود رہتا ہے۔ لہٰذا ا ن دلائل پر مغزماری سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم خود ’’تہذیب‘‘ کے مفہوم کو سمجھیں اور نہ صرف سمجھیں بلکہ اسے ذرا سنجیدگی سے لینا شروع کردیں، کیوںکہ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے سارا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تہذیب کا مطلب اکثر صرف زبان، لباس، کھانا یا موسیقی تک محدود ہے۔ یعنی اگر قورمہ، بریانی، یا قوالی موجود ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ تہذیب بچ گئی۔ حالاںکہ تہذیب ایک فکری دھارا ہوتی ہے، ایک روحانی و اخلاقی بنیاد جس پر قوم کا نظریۂ زندگی، اس کے ادارے، قوانین اور اقدار قائم ہوتی ہیں۔ جیسے مغربی تہذیب کو دیکھ لیجیے، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا سب الگ الگ ممالک ہیں، لیکن ان کے اندر ایک جیسا اخلاقی ، معاشرتی، اقتصادی، مذہبی اور سائنسی فریم ورک موجود ہے۔ اسی طرح اسلامی تہذیب بھی ایک عالمی تہذیب ہے، جو زبان، نسل یا جغرافیے کی قید سے آزا د ہوکر ستاون سے زائد ممالک کو ایک فکری وحدت میں جوڑتی ہے، چاہے وہاں عربی بولی جائے یا بنگالی، افریقی ڈھول بجے یا ترکش صوفی موسیقی۔ اب آتے ہیں پاکستان کی سرزمین پر کہ جہاں تاریخ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ انڈس ویلی تہذیب، ویدک دور، ایرانی، یونانی، موریہ، بدھ، ہندو، مغل، انگریز، سب نے یہاں اپنے نشان چھوڑے، لیکن تہذیبی لحاظ سے جو سفر ہمارے اجتماعی شعور کو متاثر کرتا ہے، وہ وہی ہے جو محمود غزنوی کے حملوں سے شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ سو سال تک مسلم حکومتیں رہیں۔ پھر انیسویں صدی آئی اور قومیت کے نظریے نے جنم لیا۔ اب معاملہ ’’راجا کون ہوگا؟‘‘ سے نکل کر ’’قوم کون سی ہے؟‘‘ پر آگیا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب برصغیر میں دو واضح نظریے ابھرے۔ ہندوستانی قوم پرستی، جو ہندو اکثریتی شناخت پر قائم تھی، مسلم قوم پرستی، جو اسلامی تہذیب کے تصور پر مبنی تھی۔ برصغیر کی تقسیم ان دونوں تہذیبوں کا تصادم تھی۔ یہ صرف دو قوموں کے درمیان محض مستقبل کے معاشی تحفظ کی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ دو نظریاتِ زندگی کا فیصلہ کن جھگڑا تھا اور یاد رکھیں کہ تہذیب کوئی حکومت یا سیاسی ادارہ نہیں ہوتی، یہ ایک روحانی، فکری اور ثقافتی شناخت ہوتی ہے جیسے مغرب ایک تہذیب ہے، چاہے وہاں بیس ممالک ہوں۔ اسی طرح مسلم دنیا میں بھی اگرچہ سیاسی تقسیم ہے، لیکن تہذیبی وحدت موجود ہے۔ تہذیب کی بنیاد صرف ثقافت یا تاریخ پر نہیں ہوتی، بلکہ اس نظریۂ زندگی پر ہوتی ہے جو ہمیں یہ سوالات سکھاتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور چوںکہ پاکستان کی اکثریت یہ سوالات اسلام سے اخذ کرتی ہے، اس لیے پاکستان کی تہذیبی شناخت اسلام ہے، لہٰذا ہمیں اسلامی تہذیب کو صرف ’’ریاست‘‘ کے طور پر نہیں، بلکہ ایک عالمی ثقافتی شناخت کے طور پر دیکھنا چاہیے، جو فکری، اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر قوموں کو جوڑتی ہے۔ پاکستان صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں یہ اسلامی تہذیب کا فکری نمائندہ ہے۔ اگر ہم اس تہذیب کو اس کی روح کے ساتھ سمجھیں، تو ہمیں نہ صرف اپنی شناخت واضح نظر آئے گی بلکہ مسلم دنیا کے امکانات، مسائل اور وحدت کی منزل بھی سامنے آ جائے گی، لیکن بطور پاکستانی، آج ہماری سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ہم فکر ی طور پر منتشر ہیں۔ دل کہیں اور دھڑکتا ہے، عقل کہیں اور چلتی ہے، اور عمل کسی تیسرے رخ پر کارفرما ہوتا ہے۔ اس فکری انتشار کی سب سے بڑی وجہ ہمارا اجتماعی غیرعملی مزاج ہے۔ ہم نے نہ تو اپنی تہذیب کو عملی طور پر سمجھا نہ اسے اپنایا، نہ اس کی اقدار کو اپنے بچوں کی تربیت یا ملکی سطح پر تعلیمی، قانونی یا معاشی نظام میں نافذ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی دنیا کی مادی ترقی ہمیں ایسے مرعوب کرنے لگی ہے جیسے بچہ کسی کھلونے کی دکان میں کھڑا ہوکر بس سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہو یہ سمجھے بغیر کہ ان چیزوں کے پیچھے ایک نظریہ، ایک طرززندگی، اور ایک مکمل تہذیبی سوچ کارفرما ہے۔ ہم نے اپنی تہذیب سے رشتہ صرف جمعہ کے خطبے، رمضان کی تراویح، او ر کبھی کبھار کے جذباتی نعروں تک محدود کردیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ متبادل سے کوسوں دور رہ گئے اور آہستہ آہستہ پھر اس خلا کو ہم نے مغربی، ہندی، اور سیکولر نظریات سے پر کرنا شروع کردیا۔ کبھی فلموں کے ذریعے، کبھی نصاب کے ذریعے، اور کبھی میڈیا کے توسط سے۔ یوں ہم دلیل اور جذبات کے درمیان الجھ کر اپنی فکری سمت کھو بیٹھے ہیں اور روز بروز مزید تقسیم در تقسیم اور کنفیوژن کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی خود کو پنجابی تہذیب کا نمائندہ کہتا ہے، کوئی بلوچ روایات کا، کوئی جدیدیت کا عاشق ہے، تو کوئی روایتوں کا پاس دار اور اس چکر میں ایک قومی اجتماعی تہذیبی شناخت ہم سے روز بروز دور ہورہی ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ آج بھی مسلم دنیا تہذیبی لحاظ سے ایک وحدت رکھتی ہے۔ یہ وحدت ہماری سب سے بڑی طاقت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس طاقت کو استعمال کرنے کے بجائے صرف نعرے بازی میں لگا دیا ہے۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کیا ہماری نسلیں صرف مغربی کام یابیوں کے قصے سنیں گی؟ یا ہم انہیں ایک ایسا تہذیبی راستہ دے سکیں گے جو علم، کردار، خودی اور عدل پر استوار ہو؟ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ مسئلہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک آئینہ دیکھ کر صرف افسوس کریں گے؟ اگر ہمیں واقعی نئی نسل کو فکری سمت دینی ہے تو تعلیم کو محض ڈگری نہیں، وژن دینا ہوگا، معیشت کو عدل کے اصولوں پر استوار کرنا ہوگا، میڈیا کو تہذیبی بیداری کا ذریعہ بنانا ہوگا، گھر کو کردارسازی کی فیکٹری، اور نوجوان کو سوشل میڈیا مجاہد نہیں، فکری سپاہی بنانا ہوگا، ورنہ ہم ٹک ٹاک پر بیانیہ بناتے رہیں گے، اور دنیا حقیقی تاریخ لکھتی رہے گی۔ اب یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ یا تو ہم تہذیب کو زندہ کر کے مستقبل کی راہوں کو روشن کریں، یا پھر وراثت کے بے جان، بے آواز، بے اثر ماضی کو فریم کر کے صرف دیواروں پر لٹکاتے رہیں گے۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل