Loading
دنیا کے اندر ترقی میں ذرائع آمد و رفت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یوں کہنا بے جا نا ہوگا کہ دنیا میں جدید ترقی کے پیچھے بڑی حد تک پہئے کی ایجاد اور ذرائع رسل و رسائل ہی کارفرما ہیں۔ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کے لئے اندون ملک اور بیرون ملک نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لئے بہترین سڑکوں کے نظام سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو اپ گریڈ کرتے ہیں۔ یہ سسٹم جہاں ملکی انفراسٹکچرکو بہتر بنانے کے لئے متعارف کروایا جاتا ہے وہیں اس کے پییچھے عوام کی سہولت اور آسانی کا خیال کارفرما ہوتا ہے۔جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لئے باقاعدہ پلاننگ ڈیپارٹمنٹس اور بورڈز تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ کیونکہ حکومتوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام نے روزگار، تعلیم اور دیگر ضرورتوں کے پیش نظر اندونِ شہر اور اندورن ملک روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنا ہی ہے۔ اولین ترجیع تو یہی ہوتی ہے کہ سب پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہی مینج ہو لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور لوگوںکی معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی متوازی چلتا ہے۔لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا کہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو کھلی چھٹی دے دی جائے۔اور وہ عوام کا خون چوس لیں جیسا کہ عموماً پاکستان میں ہوتا ہے۔ یہاں جس کے ہاتھ ذرہ سا اختیار آجائے وہ خود کو مختارِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ ٹیکسیاں ہوں ، لوکل ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع جیسے بسیں، ویگنیں، رکشے ، چنگچی رکشے یا پھر آن لائن ایپلی کیشنز سے چلنے والی رائڈز سب من مانے دام لیتے ہیں ۔ خاص طور پر جب کوئی خاص موقع ہو ، تہوار ہو یا کسی کی مجبوری میں جانا پڑے ایسے میں پرائیویٹ ٹرانسپور ٹ مافیاسرگرم ہو جاتا ہے اور منہ مانگے دام لے کر عوام کو اذیت میں مبتلا کرتاہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی اس وقت ساڑھے پچیس کرورڑ ہے۔ جس میں آبادی کا بڑا حصہ معاشی ضرورتوں اور سرگرمیوں کے لئے میٹرو پولیٹن سٹیز اور بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے۔پاکستان میں پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور تقریبا ایک سو پینتیس ملین آبادی یہاں پناں گزین ہے۔اسی طرح صوبہ سندھ کے مرکز کراچی کی آبادی 20.3ملین ہے ۔ اور اس آبادی کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے کی سکت کئی گنا کم۔ پبلک ٹرانسپوٹ کیوں ضروری ؟ یوں تو حکومت نے بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ اتھارٹی اور دیگر ٹرانسپورٹر باڈیز کے ساتھ مل کر پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام چلا رکھا ہے جو کہ تاحال آبادی کے لئے ناکافی ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز لاہور کی ہی مثال لے لی جائے تو یہاں سپیڈو بس ، میٹرو بس، گرین بسس اور اورینج ٹرین جیسے منصوبوں کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ کو متعارف کروایا گیا ہے جو مختلف روٹس پہ عوام الناس کی نقل و حمل میں معاونت کرتی ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد اور کراچی میںبھی سرخ بسز، پنک بسسز جیسے منصوبے موجود ہیں لیکن بڑے شہروں میں آبادی کا تناسب بھی بڑا ہوتا ہے جس کے لئے سروسز کو وسیع کرنا ناگزیر ہے ۔ اب لاہور میں چلنے والی میٹرو یا سپیڈو بس کی ہی مثال لے لی جائے تو اعداد و شمار کے مطابق 64میڑو بسیں جبکہ مختلف روٹس پہ چلنے والی 200سپیڈو بسیں موجود ہیں لیکن ان میں مردو زن کا رش اس قدر ہوتا ہے کہ پیر دھرنے کی جگہ تک نہیں ملتی۔ کیونکہ بیٹھنے کے لئے تو بمشکل اٹھارہ سے بیس سیٹیں ہی موجود ہوتی ہیںاس کے علاوہ کھڑ ے افرادکے درمیان فاصلہ رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچتی۔لاہور کی تقتیباً ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کی یہ سہولیات تاحال ناکافی ہیں۔روزانہ ہزاروں افراد جاب پہ جانے یا طلباء سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو جانے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ ایک بڑا طبقہ معاشی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث مسلسل پس رہا ہے۔ ایسے اوقات میں سروسز کی تعداد بڑھانا بہترین اقدام ہوگا۔ جیسے سکول کالج جانے اور چھٹی کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ کہ پوائنٹس میں اضافہ کر دیا جائے جہاں ایک بس اس وقت آتی ہے وہاں مختصر وقفے کے دوران دوسری آجائے۔ تاکہ طلباء کے لئے آسانی ہو اور انھیں بس میں سوار ہونے کی خاطر دھکے نا کھانے پڑیں۔ موٹر سائیکل اورسکوٹی کابڑھتا رحجان پاکستان میںا س وقت 30لاکھ رجسٹرڈ موٹر گاڑیاں ہیں جس میں 23لاکھ موٹر سائیکل اور 70لاکھ موٹر کاریں ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 2.77فیصد گاڑیاں ہی انشورڈ ہیں جن کا تناسب پڑوسی ملکوں بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور یوگنڈا کے مقابلے میں کم ہے۔ محدود وسائل کے پیش نظر لوگ اپنی سواری کے لئے موٹر سائیکل کو ترجیع دیتے ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے سے خواتین میں بھی سکوٹیز استعمال کرنے کارجحان بلواسطہ اور بلاواسطہ بڑھا ہے۔ اس رجحان کو تقویت دینے میں حکومتی پالیسیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔گو یہ ایک اچھی چیز ہے کہ خواتین اب آنے جانے کے لئے خود مختار ہیںلیکن اس میںایک حساس امر یہ ہے کہ مرد ہوں یا خواتین دونوں ہی کے لئے موٹر سائیکل کوئی محفوظ سورای نہیںہے۔ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھے جائیں تو گاڑیوںکی نسبت روڈ ٹریفک حادثات میں موٹربائیکس سواروں کی اموات کی شرح دالخراش حد تک زیادہ ہے ۔ ہیلمٹ کے استعمال کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں لوگوں میں سنجیدہ رویوںکی کمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں موٹر سائیکل کو لوگ شوق اور مشغلے کے نقطہ نظر سے استعمال کرتے ہیں اور ان کے لئے الگ ٹریکس موجود ہوتے ہیں ۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں اسے معمول کی سواری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور استعمال پر شعور و آگاہی کے فقدان کے باعث حادثات میں سنگین نتائج سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایک محنت کش مزدور جسے روز دور دارز علاقے میں ملازمت پہ پہنچنا ہے اور اس کے قریب کوئی پبلک ٹرانسپورٹ کا ذریعہ بھی نہیں تو بائیک کا استعمال کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں اور کم آمدنی کے باعث اپنی فیملی کے ساتھ پرائیویٹ رکشہ ٹیکسی کے کرایوں سے بچنے کے لئے بھی موٹر سائیکل کو ہی ترجیع دیتا ہے۔ جس سے اکثر موٹرسائیکلوں پہ گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہوتے ہیں جن سے حادثات کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔دوسری جانب والدین اپنے کم عمر بچوں کو بھی موٹر سائیکلوں کو گلیوں اور سڑکوں میں لے جانے سے نہیں روکتے جو کہ خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین جرم بھی ہے۔ لاہور میں گرین لین متعارف کروائی گئی لیکن تاحال تمام بائیکس اس کو فالو کرنے سے گریزاں ہیں اور اس میں بڑا ہاتھ انتظامیہ کا بھی ہے کیونکہ جب تک بائیکرز لین کی پابندی نا کرنے پر قوانین اور ان کی پاسداری نہیں ہوگی سب محنت بے کار جائے گی۔ کیا چھوٹے شہروں کے باسیوں کا حق نہیں؟ پاکستان کے دیگر بڑے اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے باسیوں کا بھی پبلک ٹرانسپورٹ پہ اتنا ہی حق ہے جتنا کے دیگر کا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومتی ادارے پلاننگ کے وقت سوچ سمجھ کر چھوٹے شہروں میں پبلک ٹراسپورٹ کی بابت پالیسیاں بنانے سے گرہیز کرتے ہیںیا ایسا غیر ارادی طور پر ہو جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں نقصان عوام کا ہوتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے کئی گنا چھوٹا ملک ہے لیکن وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید اور تمام ذرائع موجود ہیں جو ملک کے چپے چپے اور کونے کونے میں موجود ہیں۔ ٹرین، بس، ٹرام ، کشتیاںاور پہاڑوں سے گزرتی ریلوے لائنز عوام کو ملک کے اندر نقل و حمل بآسانی فراہم کرنے کے لئے موجود ہیں۔پاکستان کے چھوٹے شہروں اور خصوصا گاؤں میں جہاں آبادی کا بڑا حصہ بستا ہے وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کوئی حساسیت دکھنے میں نہیں آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں سے سفر کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یوں ٹرانسپوٹرز کے لئے ان مسافروں کی مجبوریاں استحصال کا محرک بن جاتی ہیں جس کی بنا پر وہ منہ مانگے کرائے اور بدترین سروس دینے سے بھی گریزنہیں کرتے۔ اگر تمام شہروں میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کر لیا جائے تو اس سے ناصرف عوام کو آسانی ہوگی بلکہ حکومت کو فضائی آلودگی،بین الصوبائی ہجرت کی بڑھتی ہوئی سطح اور شہری آبادی کے بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کی خاطر زیادہ تگ و دو نہیںکرنی پڑے گی۔ ریاست جب شہریوں کو بڑے یا چھوٹے شہر کے باسی ہونے سے بالاتر ہو کر سہولیات فراہم کرے گی تب ہی ملک میں ترقی اور خوشحالی ممکن ہوگی۔ حل کیا ہے؟ سوال یہ اٹھتاہے کہ آخر مسائل سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں جو عوام کی آسانی کے ساتھ دیگر مسائل پہ قابو پانے میں مدد دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک جامع پالیسی بنائے جس میں چھوٹے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپوٹ کو فروغ دیا جاسکے ۔ ایسا کرنے سے لوگ کم سے کم ذاتی گاڑیوں اور موٹر بائیکس کا استعمال کریں گے جس سے بے ہنگم ٹریفک کے مسئلے پہ قابو پایا جاسکے گا اور ماحولیاتیاتی آلودگی کے جن کو بھی قابو کرنے میں مدد ملے گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا رجحان اور دستیابی اتنی عام ہو جانی چاہیئے کے لوگوں کو محلوں اور مین سڑکوں تک پیدل پوائینٹس تک جانا مشکل نہ لگے۔ سوائے کسی اہم ضرورت کے وہ اپنی ذاتی سواریوں کو سڑک پہ لانے سے گرہیز کریں۔ساٹپس طے کرتے ہوئے کسی بھی جگہ کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیئے تاکہ سب کے لئے سہولت ہو۔خواتین کے لئے سپیشل بسیں خصوصاً کالجوں یونیورسٹیوںکے چھٹی کے اوقات میں چلائی جائیں تاکہ ان کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ٹرینوں مناسب کرائے رکھے جائیں اور خصوصی مواقع جیسے عید اور تعطیلات کے دوران ذیادہ ٹرینیں چلائی جائیں تاکہ لوگ بآسانی ملک کے اندر سفر کر سکیں۔حادثات اورکسی بھی قسم کے ناخوشگوار حالات سے بچنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ ہی اتنی بڑی آبادی کو ابتدائی طور پر سہولت فراہم نہیں کر سکتی ایسے میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کو شفاف اور موثر بنانے کے لئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں تاکہ چیک اینڈ بیلنس قائم رہے۔بس اڈوں اور پارکنگ سٹینڈز پہ موجود غیر قانونی معافیاکا قلع قمع کیا جائے۔ اگر عوام دوستی اور احتساب کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جائیں گے تو یقیناً معاشر ے میں پبلک ٹراسپورٹ کا مثبت تصور اجاگر ہوگا اور بہتری آئے گی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل