Tuesday, July 29, 2025
 

سیاست میں اب اخلاقیات ناممکن

 



کے پی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ اپوزیشن میں اخلاقی جرأت ہو تو مخصوص نشستیں لینے سے انکار کر دے کیونکہ اخلاقی جرأت 26 ویں آئینی ترمیم سے آزاد ہے اور مخصوص نشستیں صرف پی ٹی آئی کا حق ہے، قانون اور عدالت تو 26 ویں آئینی ترمیم میں جکڑی ہوئی ہے، اس لیے اپوزیشن کو اخلاقی طور پر مخصوص نشستیں نہیں لینی چاہئیں۔ بیرسٹر سیف کے اس بیان میں انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ مخصوص نشستوں کا سپریم کورٹ کا فیصلہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد تو قانونی ہے مگر اپوزیشن کو اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے نشستیں لینے سے انکار کر دینا چاہیے۔ بیرسٹر سیف کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اگر ان کے کہنے پر اپوزیشن مخصوص نشستیں لینے سے انکار بھی کر دے تو کیا ہوا کیونکہ عدالت فیصلہ دے چکی، اگر اپوزیشن اخلاقی طور مخصوص نشستیں نہ لے تو پھر یہ نشستیں کس کو دی جائیں کیونکہ پی ٹی آئی کا تو قانونی طور پر پارلیمنٹ میں وجود ہے نہیں اور سنی اتحاد کونسل جس میں اب پی ٹی آئی کے ارکان شامل ہو چکے اس سنی اتحاد نے بھی اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا ہی نہیں تھا وہ بھی پی ٹی آئی کی طرح قانونی طور مخصوص نشستوں کا حق دار نہیں اور پی ٹی آئی نے عدالت سے یہ مخصوص نشستیں مانگی بھی نہیں تھیں تو ایسی صورت حال میں مخصوص نشستیں کیا خالی رکھی جائیں۔ اس طرح پارلیمنٹ اور اسمبلیاں نامکمل اور ان کے فیصلے غیر قانونی قرار پائیں گے جو ضرور عدلیہ میں چیلنج بھی ہوں گے۔ بیرسٹر سیف جن جماعتوں کو اخلاق کا درس دے رہے ہیں ان میں تین جماعتیں وفاق میں برسر اقتدار ہیں اور تین صوبوں میں، ان کی حکومت بھی ہے صرف کے پی میں یہ جماعتیں اپوزیشن میں ہیں اور کے پی میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) مخصوص نشستیں لینے سے انکار کرتی اس نے تو پشاور ہائی کورٹ سے کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم اس لیے کرا دیا ہے کہ اسے کم نشستیں دی گئی ہیں۔  (ن) لیگ کے اعتراض کے مطابق کے پی اسمبلی میں جے یو آئی اور (ن) لیگ کی سات سات نشستیں ہیں مگر جے یو آئی کو دس اور (ن) لیگ کو صرف 8 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔ اپوزیشن مخصوص نشستیں اخلاقی طور انکار تو کیا کرتی (ن) لیگ نے تو الیکشن کمیشن کی تقسیم ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے جس کے بعد جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) بھی باہم لڑیں گی کہ انھیں مفت میں جو نشستیں مل رہی ہیں وہ اس سے بھی مطمئن نہیں اور زیادہ نشستیں مانگی جا رہی ہیں۔ بیرسٹر سیف کے پی کی اپوزیشن سے جس اخلاقیات کی توقع کر رہے ہیں انھیں پہلے اپنے اخلاق کا بھی جائزہ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ پہلے خود اس اخلاق پر پورے نہیں اترے۔ وہ (ق) لیگ میں رہے، ایم کیو ایم نے انھیں اپنا سینیٹر منتخب کرا کر سیاست میں متعارف کرایا تھا، وہ جنرل پرویز مشرف کابینہ میں شامل رہے اور دو پارٹیوں میں شامل رہنے کے بعد وہ پی ٹی آئی میں آئے تھے اور اب کے پی حکومت کے مشیر اطلاعات ہیں۔ انھوں نے اخلاق کی توقع بھی صرف کے پی کی اپوزیشن سے رکھی ہے باقی قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی کوئی بات نہیں کی۔آج کی سیاست میں اخلاقیات نہیں بلکہ صرف سیاسی اور مالی مفادات اولین ترجیح بن چکے ہیں۔ اس مفاداتی سیاست نے گجرات کے چوہدریوں کو توڑ دیا جو اس سے قبل متحد تھے۔ اس سیاست میں یہ بھی ہوا کہ پی ٹی آئی کی محبت میں بوڑھا باپ جیل بھگتتا رہا اور جوان بیٹا بیرون ملک بیٹھا رہا جس کو باپ کے لیے خود ملک آ جانا چاہیے تھا۔ سیاست میں اخلاق کا تقاضا تھا کہ اپنے قریبی ساتھی شیخ رشید کے خلاف پی ٹی آئی اور چوہدری نثار کے خلاف مسلم لیگ (ن) اپنے امیدوار کھڑے نہ کرتیں۔1992 کے کرکٹ کے قومی ہیرو جب تک سیاست میں نہیں آئے تھے ان کے میاں نواز شریف سے بہت اچھے تعلقات تھے، انھوں نے اپنے کینسر اسپتال کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے اسپتال اور اپنے گھر کا پلاٹ لیا تھا۔ دونوں اچھے دوست تھے مگر 1996 میں بانی پی ٹی آئی سیاست میں آ کر نواز شریف کے سیاسی مخالف بن گئے تھے مگر نواز شریف میں یہ اخلاق تھا کہ وہ بانی کی عیادت کے لیے ان کے اسپتال گئے تھے اور وزیر اعظم بن کر وہ بنی گالا بھی گئے تھے جہاں بانی نے سڑک منظور کرائی تھی مگر جب بانی بالاتروں کی مدد سے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے نواز شریف اور ان کی پوری فیملی کو جیل میں ڈلوایا اور نواز شریف کو موت کے قریب کلثوم نواز سے فون پر بات تک نہیں کرائی تھی اور کلثوم نواز کے انتقال کے بعد رائیونڈ جا کر یا فون پر تعزیت تک نہیں کی تھی۔ آج کی سیاست صرف مفادات کی سیاست ہے جس کا اخلاقی اقدار سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ پی ٹی آئی نے تو سیاست سے اخلاقیات کا مکمل خاتمہ کرا دیا ہے صرف ہاں میں ہاں ملانے والے بہت اچھے اور تنقید، مخالفت یا اچھی تجاویز دینے والے بھی ہر پارٹی میں قابل نفرت قرار پاتے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل