Tuesday, July 29, 2025
 

بہادر مگر تنہا!

 



’’یہ تو بہادر ہے، سمجھ دار ہے، اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں‘‘ یہ جملہ بہ ظاہر تعریف لگتا ہے، لیکن دراصل یہ ایک تلخ حقیقت کی علامت ہے۔ ایک ایسی حقیقت، جو ہمارے معاشرے کی سوچ کو بے نقاب کرتی ہے، جہاں کسی عورت کا بہادر اور خودمختار ہونا اس کے لیے سزا بن جاتا ہے۔ اسے سراہنے کے بہ جائے اُسے سہارا دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے، جیسے بہادری کے ساتھ اس کا انسان ہونا ختم ہو جاتا ہو اور یہی بہادری کبھی کبھی ان کی موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔ معاشرے کی وہ ’بہادر عورت‘ جو ہر دن ایک جنگ لڑتی ہے، کسی کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہوتی ہے، مگر اس کی بہادری ہی اس کے لیے تنہائی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اسے تو کسی مدد کی ضرورت ہی نہیں۔ مگر کیا بہادری، درد کو مٹا دیتی ہے؟ کیا سمجھ داری، آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو روک لیتی ہے؟ کیا خودمختاری، دل کی تنہائی کو ختم کر دیتی ہے؟ نہیں! مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں یہ عورت صرف ایک ’کردار‘ بن جاتی ہے، جو ہر وقت مضبوط دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ کمزور ہونا اس کے کردار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ یہی بہادر عورت جب اندر سے ٹوٹنے لگتی ہے، تو کوئی اس کے اَشک نہیں دیکھتا، نہ ہی اس کی سسکیوں کو سنتا ہے۔ کیوں کہ وہ تو ’بہادر‘ ہے۔ وہ دن رات کام کرتی ہے، گھر بھی سنبھالتی ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت بھی، اور اگر نوکری کرتی ہے، تو سوسائٹی کی طنزیہ نظروں کا بھی سامنا کرتی ہے۔ اس کی ہر کام یابی پر سوال اٹھتا ہے ’اس نے کیا کیا ہوگا؟ اس کے پاس کس کا سہارا ہے؟ اس نے اتنی ترقی کیسے کر لی؟‘ مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ اپنی نیند، اپنی خوشیاں، اپنے خواب اور اپنا سکون قربان کر کے وہاں تک پہنچی ہے اور پھر ایک دن، وہ تھک جاتی ہے! یہ تھکن صرف جسمانی نہیں ہوتی، یہ ذہنی، جذباتی اور روحانی تھکن ہوتی ہے۔ وہ تھکن جو اس کی ہڈیوں تک میں بس جاتی ہے، اس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے، مگر سامنے والوں کو شاید نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ وہ سب کے لیے ’مضبوط عورت‘ ہے، ’بہادر عورت‘ ہے، ’پراعتماد عورت‘ ہے۔ اس ’بہادر عورت‘ کی مثالیں ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہیں، اور حالیہ دنوں میں ’سوشل میڈیا‘ پر جو خواتین کے خلاف دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں، وہ اسی تنہا بہادری کا نوحہ ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں ماڈل حمیرا اصغر کی موت ہوئی، وہ ایک خودمختارعورت تھیں۔ اپنے خواب پورے کرنے کے لیے نہ صرف تنہائی کو گلے لگایا، بلکہ گھروالوں کی طرف سے اپنے بائیکاٹ بھی برداشت کیا۔ اور یہ ہی اکیلا پن اور تنہائی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ وہ لڑکی جو سالوں سے تنِ تنہا زندگی کی تلخیوں کا سامنا کر رہی تھی، ایک دن خاموشی سے چلی گئی۔ نہ کوئی شور، نہ کوئی فریاد بس ایک اور خودمختار عورت، خاموشی سے معاشرتی بے حسی اور سرد مہری کا شکار ہو گئی۔ ایک اور واقعہ بلوچستان میں پیش آیا جہاں بانو بی بی غیرت کے نام پر مار دی گئی۔ غیرت، جس کا مفہوم ہمارے مردوں نے اپنی مرضی کے مطابق متعین کر لیا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں اور بدقسمتی یہ ے کہ نہ ہی یہ آخری ہوگا۔  ہم سب جانتے ہیں پاکستان میں ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اس نام نہاد ’ناموسی قتل‘ کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک پرانی اور جاہلانہ روایت ہے، جو بدقسمتی سے آج بھی نہ صرف قبائل میں بلکہ پاکستان کے کئی علاقوں میں زندہ ہے۔ اس عمل کو مختلف ثقافتی و علاقائی نام دیے گئے ہیں۔ سندھ میں اسے ’کاروکاری‘، پنجاب میں ’کالا کالی‘، خیبر پختونخوا میں ’طور طورہ‘ اور بلوچستان میں ’سیاہ کاری‘ کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی عورت پر بے وفائی یا بدچلنی کا شبہ ہو، تو اسے اور اس کے ساتھ مبیّنہ طور پر ملوث مرد کو قتل کر دینا ’غیرت‘ کے نام پر جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ افسوس ناک روایت صرف شک یا الزام کی بنیاد پر انسانی جانیں لینے کا بہانہ بن چکی ہے۔ اکثر اوقات، یہ ’غیرت‘ محض ایک آڑ ہوتا ہے، جس کے پیچھے ذاتی دشمنیاں، جائیداد کے جھگڑے یا خاندان کی مرضی کے خلاف شادی جیسے عوامل چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں دشمنی نبھانے کے لیے مخالف شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے، اور پھر الزام سے بچنے کے لیے خاندان کی کسی عورت کو، چاہے وہ معمر ہو یا کم عمر بچی ہو ، اُسے بھی قتل کر کے دونوں لاشوں کو ایک جگہ پھینک دیتے ہیں۔ ان مقتولین پر جو جی میں آتا ہے الزام لگا دیا جاتا ہیِ، خود ہی مدعیِ، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن جاتے ہیں۔ کہیں بیٹے کی پیدائش نہ ہونے پر بنت حوّا زندگی سے محروم کردی جاتی ہے، مگر معاشرہ خاموش بہادری کو نہیں سمجھتا۔ وہ عورت جو چیخ کر مدد مانگے، جو آنسو بہائے، جو کمزور دکھائی دے، اسے تو سب دلاسا دیتے ہیں، مگر جو اپنے آنسو چھپا لے، جو ہنستے چہرے کے پیچھے اپنے درد چھپائے، اس کے لیے سب سمجھتے ہیں کہ ’یہ تو سنبھال لے گی خود ہی!‘ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب وہ عورت خود کو اندر سے کھو دیتی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان ’خاموش بہادر عورتوں‘ کو پہچانیں، ان کا ہاتھ تھامیں، انھیں احساس دلائیں کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ معاشرتی کرداروں سے ہٹ کر انھیں بھی جینے کا حق ہے۔ وہ بھی محبت، عزت، اور تحفظ کی مستحق ہیں۔ اب ہمیں خود سے بھی یہ سوال کرنا ہو گا کہ آخر کیوں ہر خودمختار عورت کو ’مشکوک‘ نظروں سے دیکھا جاتا ہے؟ کیوں کسی تنہا عورت کی کام یابی ہمیں تکلیف دیتی ہے؟ کیوں بہادری کو سزا دی جاتی ہے؟ کیوں عورت کی خودمختاری مردوں کے لیے ’خطرہ‘ بن جاتی ہے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان سوالوں کے جواب تلاش کریں، اور معاشرتی سوچ کو بدلیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی بہادر عورتوں کا سہارا بنیں، ان کے ساتھ کھڑے ہوں، بغیر ان سے یہ کہے کہ ’تم تو سب کچھ خود کر لیتی ہو!‘ شاید انھیں بھی کسی مددگار کندھے کی ضرورت ہو، ایک ایسا کندھا جس پر وہ بھی کبھی سر رکھ کر تھوڑا سا سکون حاصل کر سکیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہر بہادر عورت تھک جائے گی، ٹوٹ جائے گی، اور ہم سب صرف ایک اور ’خبری شہ سرخی‘ پڑھ کر آگے بڑھ جائیں گے۔ یاد رکھیں ہر کام یاب اور بہادر عورت کے پیچھے ایک ادھوری کہانی ہوتی ہے، جسے وہ دنیا سے چھپاتی ہے۔ آئیے، ہم اس کہانی کو مکمل ہونے دیں، بغیر کسی المیے کے!

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل