Loading
اگر آپ لبنان کے دارالحکومت بیروت سے سڑک کے راستے دمشق شام کی طرف سفر کریں تو دونوں ممالک کی سرحدی چوکیوں کو عبور کرنے کے بعد صرف 5یا6کلومیٹر کے فاصلے پر سڑک کے بائیں جانب ایک نسبتاً کم اونچائی والی پہاڑی پر ایک مزار ہے۔ شاہراہ کی دائیں جانب پاکستانی سفارتخانے کا بہت اچھا اسکول ہے جب کہ شاہراہ کی بائیں جانب چلیں تو ذرا ہٹ کر یہ مشہور مزار ہے۔یہ مزار سیدنا آدم ؑ کے بیٹے ہابیل سے منسوب ہے۔ مقامی لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ قابیل نے ہابیل کو قتل تو کر دیا لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اپنے بھائی کی میت کا کیا کرے اور اسے کیسے ٹھکانے لگائے۔وہ ہابیل کی میت کو کاندھے پر اُٹھائے سرگرداں تھا کہ ایک جگہ اسے ایک کوا زمین کھودتا نظر آیا۔اس پر وہ جان گیا کہ یہ اسے اشارہ ہے کہ زمین کو کھود کر بھائی کی میت کو چھپا دے۔اسی مزار کے احاطے میں ایک درخت ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں کوا زمین کھود رہا تھا۔اگر آپ مزار کے اندر جائیں تو دیکھیں گے کہ یہ ایک بہت لمبا مزار ہے۔ اس مزار کی لمبائی کم و بیش 25فٹ ہے۔اس کے اوپر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کالا سنگِ مر مر لگا ہوا ہے۔یہاں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ہابیل کا قد 60فٹ تھا۔حیرت کی بات ہے کہ ساٹھ فٹ قد والے انسان کو 25فٹ لمبی قبر میں کیسے دفن کیا گیا۔ جنوبی بھارت کے قصبے رامیش ورم میں بھی ہابیل اور قابیل کی ساتھ ساتھ لمبی قبریں موجود ہیں۔اگر آپ اسلام آباد سے ترنول کے راستے فتح جنگ کی طرف سفر کریں تو ایک آبادی سے گزریں گے جو نو گزی کہلاتی ہے۔اس آبادی کا نام بھی یہاں ایک ایسی ہی قبر کی وجہ سے پڑا جس کی لمبائی 9گز یعنی کوئی 27فٹ ہے۔ برِ صغیر پاک و ہند میں 9گزی قبور جا بجا مل جاتی ہیں،صوبہ پنجاب میں گوجرانوالہ،گجرات ،سیالکوٹ چنیوٹ اور چکوال و پنڈ دادنخان میں ایسی کئی قبور ہیں۔ان میں سے ہر قبر اپنی لمبائی کے طفیل کسی بزرگ، کسی بہت پاکباز ہستی سے منسوب ہے گویا کہ قبر کی لمبائی اور نیکوکار ہونا لازم و ملزوم ہے۔ان قبروں پر غلاف چڑھائے جاتے ہیں،مقبرے تعمیر کیے گئے ہیں۔قریب کے درختوں پر رنگ برنگے کپڑے باندھے جاتے ہیں۔منتیں مانی جاتی ہیں اور غلے میں نذرانے ڈالے جاتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں سیشن کورٹ کے سامنے قبرستان کے اندر دو الگ احاطوں میں دو ایسی ہی قبریں ہیں،دونوں قبور آلِ سیدنا موسیٰ کے دو انبیاء سلمان اور منجوش کی بتائی جاتی ہیں۔ایک اور قبر سید غازی شاہ نو گزی سرکار کی ہے۔اس کے موجودہ متولی نے قبر کی کرامت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ متولی بننے سے پہلے اس کے پاس مشکل سے ایک وقت کا کھانا ہوتا تھا۔ متولی کے طور پر کام کرتے ہوئے اسے بارہ سال ہو گئے ہیں اور ان بارہ سالوں میں اس نے شہر میں تین پلازے بنا لیے ہیں ۔ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں دھول کے کھیتوں کے بیچوں بیچ اسی طرح کی ایک نو گزی قبر ہے۔نو گزی ہونا ان قبور میں سے اکثریت کے درمیان قدرے مشترک ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہ ایک آدمی کی نہیں بلکہ اجتماعی قبریں ہوں۔ پاکستان میں پائی جانے والی ایسی قبروں میں سے ایک قبر شاید دنیا کی لمبی ترین قبروں میں سے ایک ہے۔یہ قبر گجرات کے ایک گاؤں برالا میں ہے۔مشہور ہے کہ اس قبر میں سیدنا آدمؑ کے ایک بیٹے قنبیط مدفون ہیں۔یہ قبر 70گز سے بھی کچھ لمبی ہے ۔یہ لمبائی دو سو فٹ سے زیادہ بنتی ہے۔ان قبور کے علاوہ سیدنا نوح ؑ کے بیٹے ہام،ہام کے بیٹے کوش،شیخ چوگانی میںطنبوخ ،دریائے چناب کے کنارے صفدان اور گجرات میں ہی موسیٰ حجازی کی لمبی قبریں ہیں۔سیدنا شیث ؑ کو عام طور پر سیدنا آدم ؑ کے بعد دوسرا نبی مانا جاتا ہے۔ان کی ایک قبر فلسطین جب کہ دوسری عراق میں ہے۔ ایسی قبور کا تذکرہ اس لیے آ گیا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدا میں انسانوں کا قد اچھا خاصا لمبا تھا لیکن حوادثِ زمانہ کے طفیل انسانی قد گھٹتا چلا گیا حتیٰ کہ یہ اب5سے6فٹ پر آ گیا ہے۔ابتدائی انسانوں کے لمبے قد کے ثبوت میں انھی معمول سے لمبی قبور کو پیش کیا جاتا ہے۔ہابیل اور قابیل کا قصہ،دونوں کے درمیان قربانی کی قبولیت پر نزاع ،ہابیل کا قتل اور کوے کے زمین کھودنے کا ذکرقرآن میں موجود ہے لیکن اس قصے میں ان کے قد کاٹھ کو بیان نہیں کیا گیا۔بائیبل میں بھی یہ قصہ ایبلAbelاور Cain کین کے ناموں سے ملتا ہے۔ایسی قبور کو دیکھتے ہوئے ایک مخمصہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی قبور صرف مسلمانوں کی آبادیوں میں کیوں ملتی ہیں۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ہماری کائنات 13.8بلین سال پہلے وجود میں آئی۔یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہمارا نظامِ شمسی زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ ارب سال پہلے وجود میں آیا۔اس بات پر سائنس دان اب یقین کیے بیٹھے ہیں کہ یہ کائنات 33.5ارب سال تک قائم رہ سکتی ہے۔ البتہ نیوٹن کے اندازے کے مطابق ہماری کائنات اکیسویں صدی میں اپنے انجام کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ سیدنا آدم ؑ و سیدہ حوا سلام اﷲ علیہا کو خلق کرنے،نِک سُک سے درست کرنے کے بعد کب زمین پر اتارا گیا،یہ معلوم نہیں البتہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو اب تک جو انسانی باقیات ملی ہیں ان سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسان زمین پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سالوں سے موجود اور آباد ہے۔اسپین میں ایک جگہ سے کھدائی کے دوران ایک انسانی جبڑے کی ہڈی ملی۔کاربن ڈیٹنگ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ جبڑے کی یہ ہڈی 14لاکھ سال پرانی ہے۔ایتھوپیا سے ملنے والے ایک انسانی ڈھانچے سے اندازہ ہے کہ یہ انسانی باقیات کم و بیش دو لاکھ تیس ہزار سال پرانی ہیں۔مراکو میں ایک غار سے ایک انسانی دانت،ایک ٹانگ کی ہڈی اور ساتھ میں پتھر کے اوزار ملے ہیں۔ ان پر تجربات ہو رہے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ باقیات اور اوزار دو لاکھ 33ہزار سال پرانے ہیں۔ یہاں سے ملنے والی ٹانگ کی ہڈی کی مدد سے جب اس شخص کا سراپا ری کنسٹرکت کیاگیا تو قد 5فٹ 10انچ کے قریب نکلا۔سوات کی ایک پہاڑی پر ایک قدیمی مدفن دریافت ہوا ہے۔یہاں سے ملنے والی انسانی باقیات کے ابتدائی تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ مدفن کم از کم تین ہزار سال پرانا ہے۔یہاں کی باقیات بھی یہی خبر دیتی ہیں کہ اس وقت انسانی قد ساڑھے پانچ فٹ سے کوئی چھ فٹ رہا ہے۔مصر میں فرعونوں کی ہزاروں سال پرانی حنوط شدہ لاشیں مل جاتی ہیں۔ان باقیات پر کام کرنے والوں نے دریافت کیا کہ فرعونی شاہی خاندان کے مرد حضرات کا قد عام عوام کے عمومی قد سے قدرے زیادہ تھا۔4700سال پہلے حکومت کرنے والے فرعون سان ساخت کی حنوط شدہ لاش سے معلوم پڑا کہ وہ اپنے زمانے کا اچھے قد کاٹھ والا شخص تھا۔ بہرحال اس کا قد 6فٹ ڈیڑھ انچ تھا۔ ہزاروں لاکھوں سال پرانی انسانی باقیات کی تجزیاتی رپورٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی قد کبھی بھی بہت لمبا نہیں تھا۔آج کا انسان بھی کم و بیش وہی قد رکھتا ہے جو ابتدائی انسانوں کا تھا۔انسانی دماغ میں ایک گلینڈ ہے جسے Pitituary گلینڈ کہتے ہیں۔یہ انسانی قد کو ریگولیٹ کرتاہے۔اس پر براہِ راست چوٹ لگنے سے قد ذرا زیادہ لمبا یا غیر معمولی چھوٹا ہو سکتا ہے۔عالم چنہ جیسے افراد کا غالباً یہی کیس ہوگا لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ انسانی قد ہمیشہ سے عمومی طور پر 5سے6فٹ ہی رہا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل