Loading
بھارتی عدالت نے مسجد کے قریب ہونے والے خوفناک بم دھماکے کے مقدمے میں بی جے پی کی سابق رکنِ پارلیمنٹ اور انتہا پسند ہندو رہنما سادھوی پرگیہ ٹھاکر سمیت سات افراد کو 17 سال بعد بری کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جج اے کے لاہوتی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے اخلاقیات یا عوامی رائے پر نہیں دیے جا سکتے۔ عدالت میں مدعا علیہان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ استغاثہ اس کیس میں ملزمان کے خلاف کوئی قابلِ قبول ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ یاد رہے کہ 26 ستمبر 2008 کو ریاست مہاراشٹرا کے شہر مالیگاؤں میں ایک مسجد کے قریب نماز جمعہ کے وقت موٹر سائیکل میں نصب بم زوردار دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ اس بم دھماکے میں 6 نمازی شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے کو خود بھارت کے انسداد دہشت گردی اداروں نے فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دیا تھا۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا تھا جس موٹر سائیکل پر بم نصب کیا گیا تھا وہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی ملکیت تھی۔ پرگیہ ٹھاکر پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے بم دھماکے سے قبل دہشت گردی کی اس واردات کی منصوبہ بندی کے لیے ایک اجلاس میں شرکت بھی کی تھی۔ جس پر خاتون انتہاپسند ہندو رہنما پرگیہ ٹھاکر کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور وہ 9 سال تک جیل میں قید بھی رہیں۔ اس دوران پولیس نے تفتیش کو نہایت خراب کیا اور 2017 میں پرگیہ ٹھاکر کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد پرگیہ ٹھاکر نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور 2019 میں بھوپال سے الیکشن جیت کر اسمبلی کی رکن بن گئی تھیں۔ پرگیہ ٹھاکر کی شمولیت پر بی جے پی میں بھی ان کے متشدد خیالات اور انتہاپسندانہ اقدامات کے باعث شدید اختلافات تھے۔ سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے نہ صرف مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ گائے کا پیشاب اور گوبر ملا کر بنائی گئی دوا سے ان کا کینسر ٹھیک ہوا۔ ان کے ان بیانات پر وزیر اعظم نریندر مودی نے محض 'اظہارِ ناپسندیدگی' کیا مگر پارٹی میں پرگیہ کا مقام برقرار رہا جسے بی جے پی کی معتدل رہنماؤں نے انتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ دینا قرار دیا تھا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل