Loading
اس میں تو اب کوئی شک نہیں کہ تعلیم اور صحافت دونوں تجارت بن گئی ہیں، لیکن آج ہم صرف تعلیم پر بات کریں گے۔ گزشتہ ہفتے ایک اسٹوری توجہ کا مرکز بن گئی، سوچا اپنے قارئین کو بھی اس میں شامل کر لوں۔ پہلے کہانی سن لیجیے بعد میں دیگر معلومات پر بات کریں گے۔ ایک گھر میں والدین اور ایک ان کی اکلوتی بیٹی، پیاری سی، خوش شکل، پڑھنے میں تیز اور قابل، ہمیشہ اپنی کلاس میں فرسٹ آتی تھی، میٹرک میں اپنے اسکول میں ٹاپ کیا، کالج گئی تو یہ ایک گرلز کالج تھا، وہاں بھی اس کا تعلیمی سفر کامیابی سے جاری رہا۔ انٹر کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں بیٹی کی خواہش پر اس لیے داخلہ کروا دیا تاکہ اس کے خواب پورے ہوں، اس بچی نے تعلیمی میدان میں کبھی اپنے والدین اور اساتذہ کو مایوس نہیں کیا تھا۔ والدہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی جانے کے دو تین ماہ بعد بیٹی کے مشاغل بدل گئے۔ اب ہر ہفتے کی رات یونیورسٹی کے فنکشن ہونے لگے، وہ ضد کرکے فنکشن میں جاتی اور گھر آ کر زیادہ دیر تک سوتی رہتی، اکثر یونیورسٹی بھی نہ جاتی۔ البتہ یونیورسٹی کے فنکشن میں ضرور جاتی، مڈل کلاس فیملی تھی، پہلے تو فنکشن کے بعد والد اسے لینے جاتے، اس کے بعد وہ اپنی کلاس فیلو لڑکیوں کے ساتھ واپس آنے لگی۔ ماں نے اس کے رویے میں نمایاں فرق محسوس کیا، جب ماں اسے زیادہ سونے پر ٹوکتی تو وہ کہتی کہ’’ اب میں بڑی ہو گئی ہوں، مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا بند کر دیجیے‘‘ جس پر والد نے گھر دیر سے آنے پر جب اس سے باز پرس کی تو اس نے بدتمیزی کی، باپ نے غصے میں آ کر اسے دو تین تھپڑ لگا دیے، جو والدہ کو بہت برے لگے۔ وہ اپنے کمرے میں جا کر بند ہوگئی اور کھانے کے لیے بھی باہر نہ آئی، جب ماں نے دروازہ ماسٹر کی کی مدد سے کھولنا چاہا تو اس نے کرسیاں اور اپنی رائٹنگ ٹیبل دروازے کے ساتھ لگا دیں تاکہ دروازہ نہ کھل سکے۔ ماں نے پیار سے اٹھایا تو وہ بہ مشکل اٹھی لیکن اس نے باہر جانے سے انکار کر دیا۔ ماں نے باپ سے کہا تو انھوں نے غصے سے کہا کہ ’’ جب اسے بھوک لگے گی تو خود کھا لے گی‘‘ ماں نے کھانا کمرے میں پہنچا دیا جسے اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ باپ نے آ کر ماں کو سخت سست سنایا اور کھانے کی ٹرے لے کر لاؤنج میں لے جا کر رکھ دی اور بیوی کو بھی وہاں سے اٹھا کر لے آئے۔ لڑکی نے دوبارہ دروازہ بند کر دیا، رات بھر ماں باپ کو پریشانی کے سبب نیند نہیں آئی، اگلے دن جب وہ یونیورسٹی جانے کے لیے نہ اٹھی تو ماں نے زبردستی دروازہ کھولا تو اندرکا منظر دیکھ کر سہم گئیں۔ لڑکی فرش پہ اوندھے منہ پڑی تھی، دو تین سگریٹ جلے ہوئے پڑے تھے۔ انھوں نے شوہر کو اندر بلایا، پھر بڑی مشکل سے بے ہوش بچی کو لے کر اسپتال بھاگے، ڈاکٹر نے جو بتایا اسے سن کر وہ حیرت زدہ ہو گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی بیٹی خطرناک قسم کا نشہ کرتی ہے، یہ ایسا نشہ ہے جو بہت مہنگا ہے اور آپ کی بیٹی کافی عرصے سے یہ نشہ کر رہی ہے۔ ماں باپ پریشان حال لڑکی کو لے کر گھر آئے اور پھر دونوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملے اور انھیں ساری صورت حال بتائی، تو پتا چلا کہ وہ تو کبھی کبھار یونیورسٹی آتی ہے اور اس کے بعد مزید انکشافات ہوئے۔ پتا چلا کہ کچھ لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک گروپ ہے جو یونیورسٹی میں ہونے والے تمام فنکشن کی نگرانی کرتا ہے۔ ان طلبا و طالبات سے پتا چلا کہ ان کی بیٹی ہر ہفتے ہونے والے مختلف فنکشن میں حصہ لیتی تھی، پھر پتا نہیں کیا ہوا انھیں بھی نہیں پتا، اور یہ بھی پتا چلا کہ ہر ہفتے ہونے والے فنکشن یونیورسٹی کے نہیں تھے بلکہ ان فنکشنز میں باہر کے گروپ بھی شامل تھے جو نئی آنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کو Well Come پارٹی دیتے تھے۔ پھر فنکشن میں جوس اور کولڈ ڈرنک میں نشہ ملا کر انھیں پینے کو دیتے تھے۔ پھر یہ ان لڑکیوں کو کہیں لے جا کر ان کی نازیبا ویڈیوز بھی بناتے تھے اور انھیں نشے کا عادی بنا کر غیر اخلاقی کام کرواتے تھے۔ اگر کوئی لڑکی ان کی بات ماننے سے انکار کرتی تو وہ اسے ان کی نازیبا ویڈیوز بھیج کر بلیک میل کرتے، لڑکیوں کو چونکہ مہنگے نشے کی لت لگ جاتی تھی اس لیے اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے وہ ان لڑکوں کی ہر بات ماننے پر مجبور تھیں، یہ سب باتیں اس متاثرہ لڑکی نے ڈاکٹر کو بتائیں۔ کیوں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھنس چکی تھی، لڑکی متوسط گھرانے کی تھی اس لیے ڈر گئی اور ہر بات بتا دی۔ اگر آزاد خیال گھرانے یا نام نہاد اپر کلاس سے اس کا تعلق ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیوں کہ اپر کلاس میں نشہ کرنا معمول کی بات ہے۔ ڈاکٹر نے ماں باپ کو سب بتایا اور ان سے نرم رویہ رکھنے کی استدعا کی۔ ڈاکٹر صاحب نے لڑکی کو ایک Rehabilitaion Center میں داخل کرانے کا مشورہ دیا کہ کہیں نشے میں وہ اکیلی نہ رہ جائے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ نشے کی اس حد تک عادی ہو چکی تھی کہ اس کا علاج گھر پر ہونا ناممکن تھا۔ ماں باپ بے چارے سکتے کے عالم میں تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو کسی ری ہیب سینٹر میں داخل کرانے کے خلاف تھے، لیکن اور کوئی چارہ نہ تھا۔ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی دل پر پتھر رکھ کر اجازت دے دی۔ آج کل تعلیمی اداروں کا ماحول بہت بگڑ گیا ہے۔ نشے کے سگریٹ پینا یونیورسٹیوں میں اور کالجوں میں عام ہے۔ ارمغان کیس میں بہت کچھ سامنے آ چکا ہے۔ بڑے بڑے مال دار لوگ یہ دھندا کر رہے ہیں۔ اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کے سارے کرتوت سب کے سامنے آ چکے ہیں۔ ’’ایزی منی‘‘ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ایزی منی صرف غلط اور غیر قانونی کاموں میں ہے۔ دراصل صرف پیسے کی عزت ہے، چاہے وہ کسی بھی غلط کام سے کمایا گیا ہو۔ یونیورسٹیاں تعلیم نہیں دے رہیں بلکہ طلبا و طالبات کے درمیان امیری اور غریبی کا ایک فاصلہ پیدا کر رہی ہیں۔ محروم افراد جب اپنے ہی جیسے لوگوں کا لائف اسٹائل دیکھتے ہیں تو ان کے اندر احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہی احساس محرومی کسی کو غنڈا بنا دیتا ہے، کسی کو رشوت خور اور کسی کو چور۔ کیوں کہ سب یہ جانتے ہیں کہ طاقتور بننے کے لیے پیسہ بہت ضروری ہے۔ اسی پیسے کی وجہ سے بااثر افراد کسی کو بھی ’’ دو ٹکے ‘‘ کا کہہ دیتے ہیں۔ یہ پاکستان ہے، امیروں کی جنت اور غریبوں کے لیے دو پاٹن کے بیچ پس جانے والی مخلوق۔ ماحول بہت بدل چکا ہے، بے حیائی عروج پر ہے، احساس محرومی کو بڑھانے میں ٹیلی وژن کے ڈرامے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے گھر، سرسراتے ریشمی پردے، مہنگا فرنیچر، مہنگی گاڑیاں، پہلے دوپٹے عورتوں اور لڑکیوں کے سروں سے اترے، پھر ایک شانے پر ٹک گئے اور اب بالکل غائب ہو گئے۔ پروڈیوسر اور ہدایت کار کی تنبیہ کہ ’’دوپٹہ نہیں چلے گا‘‘ ۔ اگر کسی نے دوپٹہ اتارنے سے منع کیا تو اسے ڈرامے ہی سے نکال دیا گیا۔ سب کچھ ایک پلاننگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اپنی اقدار اور تہذیب کا جنازہ یونیورسٹیاں بھی نکال رہی ہیں۔ پہلے یونیورسٹیوں میں سیاہ گاؤن لازمی ہوتا تھا، لیکن برساتی مینڈکوں کی طرح پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو فیشن گاہ بنا دیا گیا ہے۔ ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ اب طالبات کا پسندیدہ پہناوا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے۔ ان ماؤں پر جن کے سامنے ان کی بیٹیاں غیر مناسب کپڑوں میں باہر جانا پسند کرتی ہیں۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے، آہستہ آہستہ یہ زہر پوری سوسائٹی میں پھیل رہا ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں۔ یہی بات ایک دفعہ ایک سیاستدان نے کہی تھی کہ ’’اگر خواتین غیر مناسب لباس میں باہر نکلیں گی تو وارداتیں تو ہوں گی ہی۔‘‘ یہ بات نام نہاد اپر کلاس کو بہت بری لگی تھی، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خواتین جب دعوت نظارہ دیں گی تو اس قسم کے واقعات ہونا لازمی ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل