Monday, August 18, 2025
 

مجھے   ’’رُک‘‘ جانا ہے۔۔۔

 



رُک جانا ہے۔۔۔۔ مجھے رُک جانا تھا۔۔۔۔  مجھے رُک ہی تو جانا تھا۔۔۔۔  جب سے رضا علی عابدی کی کتاب ’’ریل کہانی‘‘ پڑھی تھی، مجھے رُک ریلوے اسٹیشن دیکھنے کا شوق چڑھ گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ کوئٹہ سے لے کر کلکتہ تک کے سفر میں ایک چھوٹے سے گم نام ریلوے اسٹیشن اوپر ایک پورا باب لکھ دینا کوئی عام بات نہ تھی۔ اس اسٹیشن میں کچھ تو خاص ہوگا اور وہی خاص دیکھنے کے لیے میں رک جانا چاہتا تھا۔  رُک جانے کا موقع تو کئی دفعہ ملا لیکن میں وہ مواقع استعمال نہ کرسکا۔ گذشتہ سال بھی سندھ کے ٹور میں جب شکارپور جانے کا پلان بنا تو ہم رک دیکھ سکتے تھی لیکن علاقے کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے میں نے وہ علاقہ سفر کے پلان سے نکال دیا کہ میں اپنی وجہ سے اپنے دوستوں کی جان کو مشکل میں نہیں ڈال سکتا تھا۔  پھر اس سال ایک اور موقع ملا جب ہمارے دوست خواجہ احمد حفیظ کا جنم دن آیا اور اس نے مجھے کہا کہ مجھے کہیں لے چلو، کہیں بھی اور میرا ذہن سیدھا رک جا پہنچا۔ اگرچہ یہاں تک کا راستہ اب بھی کچھ زیادہ محفوظ نہ تھا لیکن، اس دفعہ میں نے ٹھان لیا تھا کہ کچھ بھی ہو، میں نے رک جانا ہی جانا ہے۔ اگرچہ تھوڑا بہت رسک تو تھا، اور وہی رسک کیلکولیٹ کر کے میں نے سب سے پہلے سکھر میں موجود اپنے دوست سمیع کو برقی پیغام بھیجا کہ مجھے رک دکھا دیں۔  وہ حیران پریشان ہو کر بولے رک کہاں ہے؟  میں نے کہا آپ کے پاس ہی تو ہے، شکارپور اور سکھر کے بیچ میں، لیکن وہ سمجھ نہ سکے، کیوںکہ وہ بھی یہاں پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔ میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ویسے بھی میں اپنے دوستوں میں اس حوالے سے جانا جاتا ہوں کہ ’’شاہ جی آتے ہیں تو ہمیں بھی اپنا شہر تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘  سمیع بھائی نے اس جگہ کو تلاش کیا اور مجھے کہا کہ شاہ جی اس کے راستے میں ایک دو ایسے گاؤں پڑتے ہیں جہاں پر چوری ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں ہوتی ہیں اور تھوڑا سا آگے کچے کا علاقہ ہے۔ میں نے کہا سمیع بھائی اس دفعہ مجھے یہ اسٹیشن دکھا دیں قدرت اور اللّہ تعالٰی کے فیصلے بھی ہمارے ساتھ تھے وہاں پر ان اور قدرت کو ہم پہ رحم آ گیا۔ انہیں وہاں ایک مقامی دوست مل گیا جس نے ساتھ چلنے کی حامی بھری اور انہوں نے مجھے کہا کہ اپ اب آ جائیں ہم رک چلیں گے۔  بس یہ سننا تھا کہ میں نے ہفتے کی شالیمار کی ٹکٹ کرائی اور احمد کو لے کر شالیمار پہ چڑھ بیٹھا جو کہ رحیم یار خان اور گھوٹکی سے ہو کر رات کو روہڑی پہنچی۔ رات کو روہڑی جنکشن اتر کے ہم سکھر پہنچے۔ اپنے ہوٹل میں چیک ان کیا رات کا کھانا کھایا اور سکھر کی سوغاتیں لینے گھنٹہ گھر جا پہنچے۔ پہلے منے کا کلچہ کھایا، پھر دربار سوئیٹس کی امرتی لی اور سکھر کے مشہور ڈوکے لے کر ہوٹل آگئے۔   اس رات بارش برسی اور اچھی خاصی برسی، بجلی کی آنکھ مچولی نے بھی سونے نہ دیا۔ صبح سویرے ہم اٹھے تو سمیع بھائی کے پہنچنے کا پیغام ملا۔ ہم نے بھی جلدی جلدی تیاری کی اور سمیع بھائی اور ان کے ایک دوست کے ساتھ دو عدد موٹر بائیکس ہر ہم چار لوگ شکارپور کی جانب روا۔  پہلی بریک چائے کے لیے ایک ہوٹل پر لگی اور دوسری لکھی غلام شاہ جہاں سے ہم نے مزمل کو لیا جو سمیع الرحمان کا مقامی سندھی دوست تھا۔ مزمل ہی وہ بندہ تھا جو ہمیں رک کے ریلوے اسٹیشن تک صحیح سلامت لے کر جا سکتا تھا۔ بادلوں کے ساتھ ہلکی بارش ہورہی تھی اور اندرون سندھ کے ہم گمنام علاقوں میں، دھان کے کھیتوں کے بیچ سے گزر رہے تھے۔ پھر سکھر بیراج سے نکالی گئی تین نہروں دادو، رائس و کیرتھر کینال کو پار کیا جن کی چوڑائی کسی بھی چھوٹے ملک کے سب سے بڑے بڑے دریا جتنی تھی۔ تمام نہریں لبالب تھیں اور یہاں سے مجھے ایک خوب صورت ریلوے کیبن نظر آیا جس پر وہی الفاظ لکھے تھے جس کی مجھے تلاش تھی۔۔۔۔۔رُک۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں اس خوب صورت ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے باہر کھڑا ہوا تھا جو بڑے عرصے سے میرے حواس پر طاری تھا۔ اس عمارت کو جانے والی سڑک کے چاروں طرف دھان کے کھیت تھے اور وہاں کچھ دیر پہلے ہونے والی بارش کا پانی کھڑا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں کسی جزیرے پر ہوں۔۔۔۔ میرے سامنے ایک بڑی سی عمارت اور اس پر لکھے تین الفاظ، آر یو کے، رک۔  میں اسٹیشن کے اندر داخل ہوا تو عمارت کے مرکزی ہال میں ٹکٹ گھر کے ساتھ پتھر کے دو بورڈ لگے نظر آئے، ایک پر یہاں رکنے والی موئنجودڑو پسنجر، اپ اور ڈاؤن کے اوقات لکھے تھے جب کہ دوسرے بورڈ پر یہاں سے لے کر کوٹری تک کے تمام اسٹیشنوں (حبیب کوٹ، سکھر، لاڑکانہ، دادو، سیہون اور کوٹری) کے نام تھے۔ چلو شکر ہے کہ دوردراز کے اس  اسٹیشن پر ایک گاڑی تو  رکتی تھی۔ اسی پسنجر ٹرین نے اس ریلوے اسٹیشن کی عزت نفس کو اب تک بحال رکھا ہوا ہے۔  موئن جوداڑو پسنجر کی بھی کیا بات ہے جو اب تک ان پس ماندہ علاقوں کو جوڑے ہوئے ہے اور جیسے تیسے چل رہی ہے۔ اسٹیشن کی مرکزی عمارت دیکھتے ہوئے میں خیالات میں گم ہوگیا اور میرے ذہن میں اس اسٹیشن کا درخشاں ماضی گھومنے لگا۔ سکھر سے کوئی بیس بائیس کلومیٹر مغرب میں سرکار انگلشیہ نے 1898 میں یہ ریلوے اسٹیشن یہ سوچ کر تعمیر کیا تھا کہ اسی ریلوے لائن کو آگے بڑھا کر کوئٹہ کے راستے قندھار تک لے جایا جائے گا ، لیکن ان کا یہ خواب خواب ہی رہا۔ گوروں کو جب ہندوستان کی طرف، گرم پانیوں کی لالچ میں روس کی پیش قدمی کا خطرہ لاحق ہوا تو انہوں نے مرکزی ریل نیٹ ورک کو کوئٹہ کے ذریعے قندھار تک ملانے کا منصوبہ بنایا جسے ’’قندھار اسٹیٹ ریلوے‘‘ کا نام دیا گیا۔ 1879 میں کابل میں ہوئے قتلِ عام (جس میں کئی انگریز بھی مارے گئے تھے) کی وجہ سے حکم جاری ہوا کہ رُک کو فوراً سبی سے بذریعہ ریل ملایا جائے اور  انگریز انجنیئروں کی نگرانی میں برصغیر کے تمام محنت کش یہاں پہنچا دیے گئے۔ لوٹا ہوا مال وافر تھا، افرادی قوت بھی تھی اور ٹیکنالوجی بھی۔ اکتوبر 1879 میں ہی رُک سے سبی تک ٹریک تیار تھا لیکن حالات  پلٹنے کی وجہ سے یہ چمن سے آگے نا بڑھ سکا اور قندھار اسٹیٹ ریلوے کا خواب پورا نا ہوا۔  رُک، جہاں ایک بڑے جنکشن کو مدِنظر رکھ کے اسٹیشن اور عملے کی رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں، اب ایک ویران اسٹیشن ہے جہاں صرف عملے کے چند لوگ ہیں۔ علی رضا عابدی صاحب اپنی کتاب ریل کہانی میں اس کے بارے یوں رقم طراز ہیں؛ ’’اگر انگریزوں کا خواب پورا ہوجاتا اور قدرت کو منظور ہوتا تو اس جگہ ایشیا کا ایک عظیم الشان اسٹیشن ہوتا، رک جنکشن۔ پورے بر صغیر کے مسافر یہاں آیا کرتے اور ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر اندرون سندھ کے اسٹیشن سے قندھار، کابُل، وسطی ایشیا اور یورپ جایا کرتے۔ مگر یہ خواب ادھورا ہی رہا۔ رک جنکشن سکڑ کر چھوٹا سا بھولا بسرا  اسٹیشن رہ گیا۔ اب وہاں سست رفتار پیسنجر گاڑیاں رکتی ہیں جن کے مسافر کھڑکیوں سے باہر دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ اسٹیشن کی اتنی بڑی اور دل کش عمارت اتنے لمبے لمبے پلیٹ فارم اور دھوپ سے بچانے والے خوش نما سائبان اس ویرانے میں کھڑے کیا کر رہے ہیں؟؟ دوردور تک دھان کے کھیت تھے، جوہڑ اور تالاب تھے، درخت تھے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تھیں، چھوٹے بڑے گاؤں تھے اور زمین سے پھٹے پڑنے والے سبزے کے درمیان ایک بڑی عمارت کھڑی تھی (اس جگہ کا اب بھی یہی نقشہ ہے)۔ اونچے اونچے در، بڑی بڑی محرابیں، ستون، برآمدے، دریچے، عمارت کے اوپر تاج نما پیشانی جس پر کبھی بڑا سا آہنی گھنٹہ آویزاں ہوگا اور وہ کل جسے کھینچ کر راتوں کو گیس کا بڑا سا ہنڈا اونچا کیا جاتا ہوگا تو سارا علاقہ منور ہو جاتا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ وہیں رک میں ایک بڑا بازار بھی تھا۔ کوئٹہ جانے والے ہندوستان بھر کے مسافر یہاں خریدوفروخت کیا کرتے تھے۔ سامنے فوج کا ڈیری فارم ہے۔ کوئٹہ چھاؤنی کے لیے سارا دودھ مکھن یہاں سے جاتا تھا۔ اور سبی سے پہلے جو ریگستانی علاقہ ہے اس کے باشندوں کے لیے پینے کا میٹھا پانی اب بھی یہیں رک سے جاتا ہے۔ اس کے لیے ہر ایک ہفتے خصوصی ٹرین چلتی ہے۔ تو پھر کیا ہوا۔ اس اسٹیشن کو کس کی نظر کھا گئی؟؟ کتابوں میں تو لکھا ہے کہ ریلوے لائن چمن سے آگے نہ بڑھ سکی، قندھار تک پہنچنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ اس کے علاوہ زلزلوں، بارشوں اور سیلابوں نے اس لائن کو اپنی ٹھوکروں میں رکھا۔ یہاں تک کہ سبی سے اترنے والی لائن کو موڑ کر رک سے ہٹا دیا گیا اور براہ راست سکھر سے ملا دیا گیا۔ بس اس کے بعد رک کی رونق رخصت ہوگئی۔‘‘ میں حیران ہوں کہ عابدی صاحب نے دہائیوں پہلے رک اور اس کے آس پاس کے علاقوں کا جو نقشہ  کھینچا تھا، یہ جگہ آج بھی ویسی کی ویسی ہے۔ ہاں بس سڑکیں اور پُل قدرے بہتر حالت میں ہیں۔ نہ جانے سندھ کی کایا کب پلٹے گی؟ دوبارہ حال کی طرف چلتے ہیں۔ اسٹیشن کے داخلی ہال کو پار کر کے جب میں اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے سامنے کھڑا ہوا، تو مجھے وہی دو لفظ لکھے نظر آئے جن میں اس اسٹیشن کی پوری تاریخ پنہاں ہے۔ رک کے ایک طرف ’’انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوےIVSR‘‘ اور دوسری طرف ’’قندھار اسٹیٹ ریلوےKSR‘‘ آج بھی لکھا ہوا ہے۔ ساتھ ہی اس کا تعمیر کا سال 1898 بھی اس کی پیشانی پر جگمگا رہا ہے۔ عمارت کے سامنے والا حصہ کسی قدیمی چرچ سے مماثلت رکھتا ہے، گول محراب نما اوپری حصہ جس پر ایک گھنٹی کی جگہ بنی ہوئی ہے (یہاں کبھی گھنٹہ لگایا گیا تھا)، نیچے تین چھوٹی محرابیں اور ایک محرابی دروازہ۔ یقیناً یہ طرزتعمیر سوچ سمجھ کے بنایا گیا ہوگا جس سے انگریز سرکار کے لیے اس اسٹیشن کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ اینٹوں سے بنے لمبے پلیٹ فارم جن کے اندرونی حصوں پر محرابیں بنی دکھائی دیں۔ مجھے اس قسم کا طرزِتعمیر اور کسی اسٹیشن پر نظر نہیں آیا۔ اس اداس سے اسٹیشن پر لگے گھنے  درختوں کو دیکھنے پر ہی معلوم چلتا ہے کہ یہ جگہ کتنی قدیم ہے۔ ایک مال گاڑی بھی یہاں کھڑی تھی جس سے آگے اسٹیشن کا خوب صورت سا چھجے نما کیبن تھا۔ چاروں طرف رُک کے بورڈ لگے تھے جیسے ہمیں جا بجا رکنے کا کہا جا رہا ہو۔ پلیٹ فارم اور یہاں بنا پُل کافی جگہوں سے ٹوٹا ہوا تھا۔ بیچ کی دو پٹریاں پرانی لگ رہی تھیں جب کہ سائیڈ والی  پٹری کی حالت سے لگ رہا تھا کہ آج کل یہ استعمال میں ہے۔ پورے اسٹیشن پر ایک چیز جو سب سے زیادہ واضح تھی وہ ہلکے نیلے رنگ کے ٹائلوں سے بنی وہ یادگار تھی جس پر سندھی میں لکھا تھا: ’’یادگار امر شہید بھگت کنو رام‘‘ اس کی بھی اپنی ایک کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ بھگت کنو رام ایک فقیر تھا جس کی آواز بہت سریلی تھی۔ وہ جب گاتا تو لوگ کسی ٹرانس میں آ کر اسے سنتے اور  اس کے سامنے بچھی چادر پر پیسے پھینکتے جاتے جسے وہ دان کردیتا۔ اس کی بڑھتی ہوئی شہرت اور عزت کی وجہ ے یہیں، اسی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک دن  حاسدین نے اسے گولی مار کے قتل کر دیا اور کئی دن اس کی لاش یہاں پڑی رہی۔ تب اس کی یاد میں اس یادگار کو بنایا گیا۔  یہاں کے بڑے بوڑھے اب بھی یہی مانتے ہیں کہ ’’رُک‘‘ ریلوے اسٹیشن کو بھگت کنو رام کا شراپ لگا ہے تبھی یہاں کوئی رونق نہیں۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا کیمرا ایجاد ہوجائے، جو کسی بھی جگہ کا ماضی دکھا سکے۔ میں دوبارہ رُک جاؤں اور اس کیمرے پر اس اسٹیشن کا ماضی دیکھوں۔ یہاں بڑی بڑی گاڑیوں کو آتا جاتا دیکھوں، کوئٹہ کے لیے دودھ مکھن جاتا دیکھوں، انگریزوں اور مقامیوں کی چہل پہل اور بازار کی رونق دیکھوں، اسٹیشن کا وہ قدیم گھنٹہ دیکھوں جو کوئی افسر یہاں سے نکال لے گیا تھا۔ لیکن یہ سب شاید خواہش ہی رہ جائے۔ آج رُک کیا ہے؟ دھان کے کھیتوں میں گھرا ایک شان دار پرانا ریلوے اسٹیشن، جہاں لمبے لمبے اداسی میں لپٹے پلیٹ فارم ہیں، ایک لوہے کا پرانا پل ہے، بھگت کنو رام کی نیلی یادگار ہے، پرانی مشینوں اور آلاتوں سے بھرے کچھ دفاتر ہیں، پانی کی بڑی ٹینکی، دو کیبن اور چند انسان ہیں۔۔۔۔ نہیں ہے تو وہ رونق جو کسی اسٹیشن پر ہونی چاہیے۔ میں نے جاتے جاتے ایک آخری سلام اس اسٹیشن کو کیا اور یہ سوچتے ہوئے بائیک پر بیٹھ گیا کہ شاید کسی کو پھر قندھار تک پہنچنے کا خیال آجائے اور رک کی قسمت جاگ جائے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل