Sunday, September 21, 2025
 

کوچۂ سخن

 



غزل جہاں سے بات چلی تھی وہاں تک آیا ہوں  مرا نہیں ہوں میں اپنے مکاں تک آیا ہوں  جو میرے اپنے تھے میں ان کے ذہن میں ہی رہا  یہ اجنبی ہیں میں جن کی زباں تک آیا ہوں  قدم بھی گھر سے نکالا نہ، سیر بھی کر لی  نہ دل پہ بوجھ ہے کوئی نہ جاں تک آیا ہوں   خدا کی گاڑی ہے دنیا یہ کب رکی ہے مگر کرایہ دے کے ہی آیا جہاں تک آیا ہوں  نہ کوئی دوست ہے میرا نہ کوئی میرا عدو  نہ جانے کون ہوں میں اور کہاں تک آیا ہوں  گمان میں بھی نہیں تھا یقین کر لوں گا  یقین ہی نہیں آتا گماں تک آیا ہوں  مجھے پہاڑ کے شایان کچھ تو کرنا تھا  سو اک چھلانگ لگانے یہاں تک آیا ہوں  ( احسان عبّاس۔ اسلام آباد) غزل غم یہ ہے صبر کا پہلو نہیں ملتا مجھ کو لوگ ملتے ہیں مگر تو نہیں ملتا مجھ کو مجھ کو بے حال کیا رسمِ عزاداری نے آنکھ میں ایک بھی آنسو نہیں ملتا مجھ کو تیرگی ایسی کہ اب خود سے بھی ڈر لگنے لگا  کوئی تارا کوئی جگنو نہیں ملتا مجھ کو اک تعلق کے تعفن میں گھرا رہتا ہوں  کوئی بھی صورتِ خوشبو نہیں ملتا مجھ کو کس طرح تجھ سے ملوں مجھ سے بچھڑنے والے  کوئی منتر کوئی جادو نہیں ملتا مجھ کو میں بھٹکتا ہوں خیالات کے جنگل میں شفیقؔ  وہ تری یاد کا آہو نہیں ملتا مجھ کو (شفیق احمد خان۔ لاہور)  غزل تُو نہیں اور میسر تری خوشبو بھی نہیں  میری آنکھوں میں کوئی یاد کے جگنو بھی نہیں  مجھے رہ رہ کے ترا پھر سے خیال آتا ہے  جز ترے اور کوئی سوچ کا پہلو بھی نہیں  میرا من کرتا ہے اُس بت سے لپٹنے کو مگر دل یہ کہتا ہے خبردار! اُسے چھو بھی نہیں  ٹھیک ہے عشق و محبت تو ہے سب اپنی جگہ  عزتِ نفس سے بڑھ کر تو مجھے تُو بھی نہیں  ہم ہیں ادراکِ غم عشق و جنوں کے مارے دل میں طوفان ہے اور آنکھ میں آنسو بھی نہیں  پھر بھی رس گھولتی رہتی ہے زبانِ اردو  اتنی اچھی کوئی صادق ؔمری اُردو بھی نہیں  (محمد امین صادق ۔مانسہرہ) غزل تری زندگی کا سوال ہوں مجھے چھوڑدے کسی وسوسے کا خیال ہوں مجھے چھوڑ دے ترے ہجر نے مری زندگی کو گھٹا دیا میں کہ ایک لمحے میں سال ہوں مجھے چھوڑدے مرے ہاتھ میں کوئی ہاتھ ہے کسی پیڑ کا میں سرشت میں کوئی جال ہوں مجھے چھوڑدے کوئی وصفِ خاص نہ عام ہے مری ذات میں تری گفتگو کا کمال ہوں مجھے چھوڑدے میں ہوں راستے میں رکا ہوا کوئی اجنبی تری عمر بھر کا ملال ہوں مجھے چھوڑدے کروں فیضیؔ کیسے موازنہ تری ذات سے تُو عروج ہے، میں زوال ہوں، مجھے چھوڑ دے (سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن) غزل میرے ہر ایک خواب کو مر جانا چاہیے الزامِ قتل آپ کے سر جانا چاہیے کتنا حسیں ہے شہرِ نشاطِ خیال بھی کچھ دیر ہم کو واں بھی ٹھہر جانا چاہیے جتنے مرے عزیز تھے دل سے اتر گئے تجھ کو بھی میرے دل سے اتر جانا چاہیے افسردگی نہ بھی ہو یہ رسمِ جدائی ہے دل کو تڑپنا آنکھ کو بھر جانا چاہیے گزرا ہے آج پاس سے وہ اجنبی کی طرح ہم کو بھی بے خبر ہی گزر جانا چاہیے مثلِ چراغ جلتے ہوئے تجھ کو بھی فرازؔ ہے تیرگی جدھر بھی ادھر جانا چاہیے (فراز احمد فراز۔ کنجروڑ، نارووال ) غزل جن کے چہرے مرے آئینے میں گلفام رہے  اپنی پہچان میں وہ آج تلک خام رہے ایک مصرع دمِ آخر کہوں گا قاتل پر  مجھ پہ احسان ہو، اس پر مرا الزام رہے میرے ویران بدن میں کوئی خوشبو جاگے میرے آنگن میں تری خاک کا بھی کام رہے یہ بھی ممکن ہے کہ منزل کبھی مل جائے مجھے پھر بھی رستے میں تری یاد کی اک شام رہے قافلہ چھوڑ گیا، شوق مگر زندہ ہے کبھی منزل، کبھی صحرا مرے ہم نام رہے شب گزاری میں بھی اک شعلۂ امید رہے میرے بستر پہ تری یاد کا احرام رہے (زبیر احد۔فیصل آباد) غزل گماں کے وار سے اس بار ہو گیا ہوگا  محل یقین کا مسمار ہو گیا ہوگا  نظر اٹھی ہے کسی اور کی طرف اس کی  ہمارا ثانوی کردار ہو گیا ہوگا  دیے سے خاص لگاؤ اسے تو ہونا ہے جو روشنی کا طرفدار ہو گیا ہوگا  وہ پیڑ جس سے ہمیں سایہ تک نہ ملتا تھا  کسی کے واسطے پھلدار ہو گیا ہوگا کسی کسی کو غنیمت ہے کار تنہائی کسی کسی کو یہ آزار ہو گیا ہوگا  وہ ایک خواب اجیرن تھی زندگی جس سے  پڑے پڑے یونہی بے کار ہو گیا ہوگا سفر کو نکلے تھے کچھ اور لوگ بھی عاطرؔ کسی مقام پہ انکار ہو گیا ہوگا (عمر عاطر۔میٹروول سائٹ ٹاؤن، کراچی) غزل دور ہو مدت سے لیکن دل یہ بولے آج بھی تم فقط سر ہی نہیں ہو میرے سر کا تاج بھی اب بھی کیا تم کو وفاؤں کا یقیں آیا نہیں؟ رکھ دی قدموں میں تمہارے اب تو شرم و لاج بھی کس قرینے سے محبت روح میں کرتی ہے گھر ہم ہیں کیا، محفوظ رہتے جب نہیں الحاج بھی یہ مرا اقرار ہے بھائی مرے تو یاد رکھ تجھ سے مانگوں گا نہیں گر ہو گیا محتاج بھی باندھ لو پلّے سے اپنے بات ہے یہ کام کی خاکساری آدمیت، عاجزی معراج بھی اے مرے حسرتؔ ترے دل میں وفاؤں کا نگر کر دیا آباد جس نے، خود کرے تاراج بھی (رشید حسرت۔ کوئٹہ) غزل زندگی، جیت کے ہاری ہو تو دھوم مچے عشق کی یا بیماری ہو تو دھوم مچے اس کی زلف سا جگ میں کوئی سیاہ نہیں رات نے ہمت ماری ہو تو دھوم مچے وہ درویش نہیں ہے، بس دکھلاوا ہے اُس پہ وحشت طاری ہو تو دھوم مچے یہ کیا کوئی گزرے لوگ خموش رہیں یہ کیا اس کی لاری ہو تو دھوم مچے وہ جو لکھنے بیٹھے لفظ مہکتے ہیں کسی میں یہ فنکاری ہو تو دھوم مچے اپنے عشق کے بارے گاؤں جانتا ہے صرف یہ وقت گزاری ہو تو دھوم مچے شعر اربابؔ کے اچھے ہیں پر کوئی شعر دل کی بات سے بھاری ہو تو دھوم مچے  (ارباب اقبال بریار ۔واہنڈو ،گوجرانوالہ) غزل اخوّت کے سبھی جذبے گئے پیروں تلے کچلے ہمارے سارے منصوبے گئے پیروں تلے کچلے یہاں پر علم کے دشمن مسلّح بھی تھے وافر بھی جہالت کی طرف حملے گئے پیروں تلے کچلے ہمیں تھے جو میسّر دل کو بہلانے کی خاطر سو مسرّت کے وہی لمحے گئے پیروں تلے کچلے بہاریں جن سے تھیں خنداں چمن جن سے تھاروح افزا وہی بلبل ،وہی نغمے ،گئے پیروں تلے کچلے ابھی تک لاج رکھ لی تھی مگر محبوبؔ سے آخر ہمارے درمیاں وعدے گئے پیروں تلے کچلے (محبوب الرّحمان محبوب۔سینے،میاندم،سوات) غزل درد کی دوڑ میں ہوا تنہا میرا دل ٹوٹتا رہا تنہا خواب کے قافلے کھڑے تھے خموش اور میں صحرا میں دوڑتا تنہا رات کی اوٹ میں چراغِ دل وصل کی خومیں بجھ گیا تنہا بارِ غم تھا ہوا کے ہاتھوں میں یاد کا پھول کھل گیا تنہا یاد کی گرد آنکھ پر چھائی اور میں دیکھتا رہا تنہا خود سے لڑنے کی آرزو میں تھا آئینہ ٹوٹتا رہا تنہا حُسنِ دنیا فریب تھا لیکن دل وفا ڈھونڈتا رہا تنہا زندگی اک سوال سب کے لیے میں اسے بس گزارتا تنہا زخم کی لوح پر لکھا غم سے کچھ نہ کچھ کھوجتا رہا تنہا سیف غم کی مسافری میں تو اک صدا بن کے رہ گیا تنہا (سیف علی عدیل۔ اسلام آباد) غزل یہ جو سینے میں لیے پھرتا ہوں بیکار کا دکھ اس پہ رولوں؟ جو نہیں ہے مرے معیار کا دکھ دونوں غم ایک ترازو پہ نہ رکھ ،فرق سمجھ  مجھ کو اپنوں کا ہے شکوہ تجھے اغیار کا دکھ میری آشفتہ مزاجی کو محبت سے نہ جوڑ مسئلہ عشق نہیں،مجھ کو ہے گھر بار کا دکھ ہم جیے آنکھ میں خوں ریز مناظر لے کر  مر گئے بھی تو رہا ہونٹ پہ اظہار کا دکھ سینہ چھلنی بھی اذیت نہیں دیتا اتنی  جتنا ہوتا ہے مجھے پیٹھ پہ اک وار کا دکھ داد دی سب نے تجھے دام کی فنکاری پر کوئی سمجھا ہی نہیں تیرے گرفتار کا دکھ (نظیر ساگر۔اپر کوہستان،خیبر پختونخوا)   سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘  روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل