Loading
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے کراچی میں پیپلز لائرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں مگر اس کا حصہ نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس اتنے ووٹ نہیں تھے کہ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنا سکتے۔ پیپلز پارٹی کا ہر رہنما یہی کہتا آ رہا ہے اور میئر کراچی جیسے جیالے (ن) لیگ کو یہ یاد دلاتے بھی رہتے ہیں کہ ان کی حکومت پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہی قائم ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما (ن) لیگ کی حکومت میں پیپلز پارٹی کی شمولیت نہ ہونے کے بعد سے نہ جانے کیوں خاموش ہیں اور اپنی کوئی رائے نہیں دیتے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ (ن) لیگ کی موجودہ کابینہ میں پیپلز پارٹی کی کوئی نمایندگی اس لیے نہیں ہے کہ حکومت سازی کے وقت کابینہ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے کیا تھا جو دوراندیشانہ فیصلہ تھا۔ پی ڈی ایم حکومت جس نے 16 ماہ بعد مدت پوری کرکے ختم ہونا تھا جس میں بلاول بھٹو وزیرخارجہ تھے اور شہباز شریف کی کابینہ میں پیپلز پارٹی نے بھرپور وزارتیں، مشیر و معاونین خصوصی کے عہدے لیے تھے اور جیسے ہی پی ڈی ایم کی حکومت کی مدت پوری اور فروری میں الیکشن کا اعلان ہوا تھا پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پی پی کی انتخابی مہم کا آغاز مسلم لیگ (ن) کی طرف پی پی کی توپوں سے کیا تھا اور خاص کر انھوں نے پنجاب میں انتخابی مہم (ن) لیگ پر کڑی تنقید سے شروع کی تھی اور وہ یہ بھول گئے تھے کہ (ن) لیگ 16 ماہ کی حکومت میں پی پی کی حلیف تھی اور حکومت کابینہ میں جو فیصلے کرتی، وہاں پی پی کے وزیر اس کی حمایت کرتے تھے مگر انتخابی مہم میں پنجاب و کے پی میں (ن) لیگ کے مقابلے میں پی پی نے اپنے امیدوارکھڑے کیے تھے اور بلاول بھٹو نے لاہور سے الیکشن لڑا تھا مگر (ن) لیگی امیدوار سے ہار گئے تھے۔ ضلع راولپنڈی میں گوجر خان سے پی پی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف جیتے تھے، جو ان کا آبائی حلقہ تھا اور انھوں نے حکومت میں ہوتے ہوئے وہاں ترقیاتی کام بھی بہت کرائے تھے۔ پنجاب میں صرف جنوبی پنجاب کے سرائیکی بیلٹ میں پی پی کا ووٹ شروع سے رہا ہے اور پی پی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی شروع سے ہی حامی ہے مگر 2018 میں پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ اپنا کر پی پی کا ووٹ توڑ لیا تھا اور پی پی کامیاب نہیں ہو سکی تھی مگر 2023 کے الیکشن میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کامیاب منصوبہ بندی کی وجہ سے پی پی کو جنوبی پنجاب سے وہ کامیابی ملی جو اسے 2008 کے الیکشن میں بھی نہیں ملی تھی۔ جنوبی پنجاب سے پی پی کو (ن) لیگ کے مقابلے میں زیادہ کامیابی ملی مگر پی پی نے پنجاب میں اپنا گورنر جنوبی پنجاب کے بجائے ضلع اٹک سے ایک ایسے شخص کو بنایا جو پی پی میں پہچانے جاتے تھے نہ ان کی پی پی میں کوئی کارکردگی تھی۔ ضلع رحیم یار خانہ کے احمد محمود پہلے پنجاب کے گورنر اور پی پی کے سینئر رہنما ہیں جنھیں نظرانداز کیا گیا اور ملتان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرا کر سینیٹ کا چیئرمین ضرور بنوایا گیا یہ عہدہ حکومت سازی کے وقت پی پی کے لیے تھا۔ معاہدے کے تحت صدر مملکت آصف زرداری نے ہی بننا تھا جب کہ پنجاب و کے پی کی گورنر شپ، بلوچستان کی حکومت، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ پیپلز پارٹی کو معاہدے کے مطابق ملا۔ اس ملک کے دو اہم عہدے صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں اور پی پی پنجاب حکومت میں بھی شمولیت چاہتی ہے مگر پی پی سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی مشیر تک نہیں ہے مگر پی پی کو پنجاب میں وزارتیں چاہئیں۔ پیپلز پارٹی کہنے کی حد تک وفاقی حکومت کا حصہ نہیں مگر حکومت میں (ن) لیگ سے زیادہ اہم عہدے پیپلز پارٹی نے لے رکھے ہیں۔ دو صوبوں میں پی پی کی حکومت ہے جب کہ وفاقی حکومت صدر مملکت کے بغیر نامکمل ہے اور پیپلز پارٹی کے دو گورنر پنجاب و کے پی میں وفاقی حکومت کے نمایندے ہیں پھر بھی پی پی کے رہنما حکومت میں شامل نہ ہونے کے اکثر دعوے کرتے رہتے ہیں۔ صدر مملکت کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صدر مملکت اور ان کے نہ ہونے پر اسپیکر قومی اسمبلی صدر مملکت قائم مقام بن سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ سیاسی طاقت رکھتی ہے جو حکومت کی حمایت ختم کر دے تو وزیر اعظم فارغ مگر صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ برقرار رہیں گے اور وفاقی کابینہ بھی ختم ہو جائے گی جب کہ (ن) لیگ بلوچستان میں پی پی کے وزیر اعلیٰ کو بھی نہیں ہٹا سکتی۔ پی پی اپنی اسی سیاسی طاقت کے باعث وزیر اعظم کو دباؤ میں رکھے ہوئے ہے جو پی پی کی ہر غلط بات بھی ماننے پر مجبور ہیں۔ (ن) لیگ پیپلز پارٹی سے کوئی بات نہیں منوا سکتی اور پیپلز پارٹی (ن) لیگ کی واضح اکثریت کے باوجود پاور شیئرنگ چاہتی ہے۔ اتنی سیاسی طاقت کے بعد پی پی رہنماؤں کے منہ سے یہ بات نہیں نکلنی چاہیے کہ ہم حکومت کو صرف سپورٹ کر رہے ہیں مگر حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ پی پی رہنماؤں کا یہ موقف غیر حقیقی ہے مگر دل سے وہ حکومت میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل