Loading
زمانہ قدیم سے انسان قدرتی آفات کا مقابلہ کرتا چلا آرہا ہے ۔ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس کی زندگی سخت آزمائشوں سے گزرتی رہی ہے ۔ کبھی درندوں سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لیتا رہا ہے او رکبھی سیلاب سے بچنے کے لیے درختوں کا سہارا لیتا رہاہے ۔ ان تمام میں سب سے بڑی آفت زلزلہ ہے جو ایک ناگہانی آفت کی صورت میں اچانک نازل ہوتا ہے اور انسان کے ساتھ ساتھ اس کی تمام املاک کو بھی تباہ وبرباد کردیتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان زلزلے کی پٹی پر واقع ہے ، ملک کے تمام صوبے ،کراچی ، اسلام آباد ، راولپنڈی ، مری ۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ جرمنی میں زلزلہ آیا ہو سوائے اٹلی کے کیونکہ یورپ زلزلے کی پٹی پر واقع نہیں ہے ۔ جدید دور کی تازہ ترین آفت کلاؤڈ برسٹ ہے ۔ اگر گلیشئر کی بات کی جائے جو ہماری زندگیوں کے محافظ ہیں تو مستقبل کا منظر نامہ بڑا ہولناک ہے کیونکہ ان کے خاتمے سے زمین پر موجود انسان سمیت ہر ذی روح کا خاتمہ ہوجائے گا۔ گرمی کی وجہ سے آرٹیک اوشین اگر پگھل جائیں تو سمندر کی سطح 70میٹر بلند ہو جائے گی۔ نتیجے میں دنیا کے بڑے بڑے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے ان میں کراچی بھی شامل ہے ۔ اس شہر کو گلوبل وارمنگ اور سمندر کے بڑھتے ہوئے لیول سے بہت زیادہ خطرہ ہے ۔ 1980کے بعد 2020 دنیا کی تاریخ کا دوسرا گرم ترین سال تھا۔ 1980سے لے کر 2016تک گلیشئر کے حجم میں بڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے ۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں تعداد کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے گلیشئر پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 7ہزار گلیشئر موجود ہیں جو کہ آہستہ آہستہ پگھل رہے ہیں ۔ ان کے پگھلنے کی رفتار گزشتہ صدی کے مقابلے میں موجودہ صدی میں 10گنا زیادہ بڑھ گئی ہے پاکستان میں واقع اس وقت 40فیصد گلیشئر پگھل چکے ہیں جس کے نتیجے میں ہم بہت جلد میٹھے پانی کے ذخیروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پچھلی صدی میں ہماری زمین کا درجہ حرارت 1.2 سینٹی گریڈ بڑھا ہے ۔ جس نے اس وقت پوری دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے ۔ میتھین گیس خارج ہونا، درجہ حرارت بڑھنا پھر گلیشئر کا پگھلنا اس منحوس چکر سے نجات دلانے کے لیے بادل اہم کردار ادا کریں گے ۔ زمین پر جتنی بھی ریڈیشن سورج سے آتی ہے اس کا 31فیصد یہ بادل اس ریڈیشن کو زمین تک پہنچنے نہیں دیتے اس کے علاوہ 20فیصد ریڈیشن ماحول میں جذب ہو جاتی ہے ۔ اگر ہم اس 31فیصد ریڈیشن کو بڑھا کر 50فیصد تک لے جائیں کسی نہ کسی طریقے سے تو ہماری زمین کا ٹمپریچر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس پر بڑی تیزی سے کام ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ اس پروجیکٹ کو میرین کلاؤڈ برائیٹنس کہا جاتا ہے اس کے تجربات دنیا میں بہت سی جگہوں پر ہورہے ہیں ۔ سائنسدان ان تجربات کی کامیابی کی صورت میں زمین کا ٹمپریچر .06 فی صد کم کر سکتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ سیٹلائٹ سے جب یہ دیکھا گیا کہ جہاں جہاں سے ہوائی جہاز گزرتے ہیں وہاں وہاں پر بادل زیادہ روشن ہوجاتے ہیں ۔ یہی چیز سائنسدانوں کو کلک کر گئی اور انھیں اس آفت کا حل مل گیا اس کے لیے انھوں نے ایرو سول کا استعمال کیا مگر اس کے لیے بادلوں میں ایروسول کی تعداد بڑھانا ہوگی۔ زمین پر بہت زیادہ پالوشن ہوتی ہے ۔ چنانچہ زمین کی نسبت سائنسدان سمندروں کے اوپر بادلوں کو برائیٹ (روشن) کریں گے ۔ آسٹریلیا میں 2020 میں پہلی مرتبہ یہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجی ہم ان علاقوں میں استعمال کر سکتے ہیں جہاں دور دور تک سمندر نہیں مثلاً ہمارے کوہ ہمالیہ کے علاقے، کیا ہم ہوائی جہازوں کے ذریعے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں اس پر تجربے جاری ہیں اُمید ہے کہ دنیا کے باسیوں کو جلد ہی اس آفت کے خاتمے کے سلسلے میں بڑی خوش خبری ملے گی۔ آخرکار دنیا کے ہر مسئلے کے حل کے لیے سائنس اور سائنسدان ہی راہ نجات بنیں گے ۔ نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ زمین پر واقع ہر طرح کی ذی روح کی بقاء کا باعث بنیں گے ۔ اسرائیل اکتوبر سے اگلے سال فروری مارچ کے درمیان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ ویسے بھی مسلم دنیا آزمائشی دور سے گزر رہی ہے، ابھی 2027 تک تو ایسے ہی چلے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل