Loading
ایک حالیہ تحقیق نے چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ غربت اور سماجی محرومی کے شکار افراد میں دل کی ایک سنگین بیماری اینڈو کارڈائٹس زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل کے اندرونی حصے، خصوصاً والوز میں انفیکشن پھیل جائے۔ اگر بروقت تشخیص اور بہتر علاج نہ ہو تو یہ دل کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ انفیکشن عموماً اس وقت ہوتا ہے جب بیکٹیریا یا جراثیم خون میں داخل ہو کر دل تک پہنچ جائیں۔ اکثر یہ جراثیم دانتوں، جلد یا کسی زخم کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور پھر دل کے والو پر جم کر کلسٹر بنا لیتے ہیں، جس سے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ اینڈو کارڈائٹس کی نمایاں علامات میں بخار، کپکپی، مستقل تھکن، سانس لینے میں دشواری اور دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہونا شامل ہیں۔ بعض مریضوں کی جلد پر سرخ یا جامنی رنگ کے دھبے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ میں کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ سماجی محرومی کے شکار افراد اس بیماری کے خطرناک نتائج سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں۔ لندن کے تین بڑے اسپتالوں، کنگز کالج، گائز اینڈ سینٹ تھامس اور بارٹس ہیلتھ نے مل کر لندن اینڈو کارڈائٹس ریسرچ نیٹ ورک قائم کیا اور 2013 سے 2023 تک 1,700 سے زائد مریضوں کا ڈیٹا جمع کیا۔ تحقیق کے نتائج نے واضح کیا کہ محرومی یا غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریضوں میں بیماری کے 30 دن یا ایک سال کے اندر موت کا امکان زیادہ تھا۔ ان افراد میں دیگر بیماریوں کی شرح بھی زیادہ پائی گئی، ان کے جسم میں سوزش بڑھ گئی تھی اور ان کے دل کے دائیں حصے میں انفیکشن زیادہ دیکھا گیا۔ مزید یہ کہ وہ عموماً سرجری نہیں کرواتے تھے اور ہسپتال پہنچنے یا علاج کے فیصلے لینے میں مشکلات کا شکار رہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انفیکشن پھیلانے والے جراثیم امیر اور غریب دونوں طبقوں میں تقریباً ایک جیسے ہی تھے، لیکن غربت اور سماجی نظراندازی کی وجہ سے غریب مریضوں میں پیچیدگیاں کہیں زیادہ تھیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ ایسے مریضوں میں زیادہ تر خواتین اور اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔ تحقیق میں شامل ماہرین نے کہا کہ برطانیہ جیسے ملک میں، جہاں سب کو علاج کی مفت سہولت میسر ہے، وہاں بھی غریب طبقہ بدترین صورتحال سے دوچار رہا۔ لہٰذا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں جہاں صحت کی سہولیات تک مفت رسائی نہیں ہے، صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل