Loading
گزشتہ ہفتے کئی دوستوں نے پاکستان کے مشہور کالم نگار اور اینکر جاوید چوہدری صاحب کے کالم ’’یونیورسٹی آف نبراسکا‘‘ میں بیان کیے گئے مندرجات پر اپنے تحفظات سے بھرپور وائس کلپس اور تحریریں وٹس ایپ کیے اور کہا کہ ہمارے جذبات ان تک پہنچائیں۔ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ صاحب جو تبدیلی کے ان قاریوں میں سے ہیں جن کی طرف سے کبھی تحسین اور کبھی تنقید کے پیغامات ملتے رہتے ہیں، انھوں نے بتایا ’’وہ میرے اور جاوید چوہدری صاحب کے کالمز کی ہارڈ کاپیوں کو باقاعدہ فائلز میں لگاتے ہیں‘‘۔ لیکن آج میں چوہدری صاحب کے پرانے کالمز کی فائل ڈیلیٹ کر دوں گا۔ ان کے کہنے کے مطابق وہ ان کو فون کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں، میں نے بھی کالم پڑھنا شروع کیا تو بات سمجھ آگئی ۔ میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ ہر پختون افعان ہوتا ہے، مگر ہر افعانی (افعانستان کا باشندہ) پختون نہیں ہوتا اور ہر پختون کا افعانستان کا شہری ہونا لازم نہیں۔ اس لیے اس مغالطے سے بچنے کے لیے لفظ افغان کو پختون سے بدل رہا ہوں، ایسا نہ ہو کل حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والا کوئی محقق مجھے بھی افعانی یا غدار ڈیکلیئر کردے۔ کالم کی چند سطور پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ اگر پورا افسانہ پڑھا تو میری کیفیت احتجاج کرنے والوں سے بدتر ہوگی۔ اس لیے پڑھنا چھوڑ دیا لیکن دماغ پڑھنے پر بضد تھا لہٰذا دوبارہ پڑھنا شروع کیا اور بہت مشکل سے پانچ قسطوں میں پورا پڑھ لیا۔ مگر دل اداس اور ذہن پریشان تھا، یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے پسندیدہ کالم نگار، اصلاح اور کامیابی کے گر سکھانے والے موٹیویشنل اسپیکر کیسے پختونوں اور برصغیر کے مسلمانوں کے محسنوں کا اس انداز میں ذکر کرسکتے ہیں؟ درود شریف سے بات شروع کرنے والا ،مذہبی رجحان رکھنے والا بندہ کیسے جہاد اور مدارس کے بارے میں مغرب کے منفی پروپیگنڈا کا شکار ہوسکتا ہے ۔ مگر کیا کرتا، ان کا لکھا میرے سامنے پڑا تھا۔ دو دہائیوں سے ان کے کالمز پڑھتا ہوں، مجھے ان کے وہ کالم بہت اچھے لگتے ہیں جو افسانوی انداز میں اصلاح معاشرہ کے لیے لکھے گئے ہوتے ہیں اس لیے میں ان کو کالم نگار کے ساتھ ایک اچھا افسانہ نگار بھی سمجھتا ہوں مگر ان کے من گھڑت افسانے کو پڑھ کر حیران و پریشان ہوا کہ آخر ہو کیا گیا ہے چوہدری صاحب جیسے نفیس و نستعلیق بندے کو؟ ان سے یہ توقع بالکل نہیں تھی، پورے کا پورا کالم تعصب بھرا افسانہ ہے جس کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ حقیقت ہمیشہ ایک ہوتی ہے جب کہ افسانہ ہر بندے کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ میں حقیقت بیان کرنے کی نیت سے سے کالم لکھنے کی جسارت کر رہا ہو ں، پختونوں اور نسل در نسل پاکستانی مسلمانوں کے ان دلوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کروں جو مذکورہ کالم کے نشتر سے زخمی ہوئے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پختون بحیثیت قوم فطری طور پر بہادر، نڈر اور اپنی عزت کے لیے سر داؤ پر لگادینے والی قوم ہے، وہ دشمن کو نیست و نابود کرنے کی نیت سے لڑتا ہے۔ اگر کوئی اس وصف کو بھی ہماری برائیوں میں سے ایک برائی سمجھتے ہیں تو ان کی مرضی، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں فخر ہے کہ جب بھی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو رنجیت سنگھ کے ’’ حواری اور سرنڈر موذی‘‘ کے ’’ پیش رو‘‘ حکمران تنگ کرتے تھے تو وہ ہمارے بہادر آباؤاجداد کو مدد کے لیے بلاتے تھے اور وہ مردانہ وار اپنے مسلمان بھائیوں کے دفاع اور ان کے دشمنوں کو سبق سکھانے کے لیے روانہ ہوتے تھے، راستے میں رنجیت سنگھ کے لٹیرے حواری اور مسلمان دشمن جہاں بھی ملتے تھے، ان کو پھینٹا لگاتے آگے بڑھتے تھے، میدان جنگ میں دشمن کو نیست و نابود اور فتح کے جھنڈے گاڑ کر جاتے تھے۔ واپسی پر بھی مسلمانوں کے دشمن جہاں نظر آتے تھے ، ان کو پھینٹا لگاتے تھے۔ اس پھینٹا لگانے پر رنجیت سنگھ کو ہیرو سمجھنے والوں کا گلہ بنتا ہے مگر کسی پنجابی مسلمان کا بالکل نہیں۔ ہمیں اپنی قبائلی رسم و رواج اور روایات پر فخر ہے اور اس خطے کے اکثر ہوش مند و غیرت مند اقوام اسے قابل تقلید سمجھتے ہیں اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کوئی اسے ہماری برائیوں میں سے ایک برائی سمجھ کر اپنی نفرت کا اظہار کرے۔ ہمیں اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کو ہمارے آباؤاجداد اور فاتح پانی پت احمد شاہ ابدالی، غزنوی، غوری اور بابر سمیت پوری پختون قوم میں صرف دو خوبیاں اور باقی سب خامیاں نظر آئیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں، ہم جو ہیں وہ ہیں، اپنی غلطی کا احساس ہوگا تو کسی نفرت کرنے والے کو تکلیف دیے بغیر اپنی اصلاح کی کوشش کریںگے یا محبت کرنے والوں سے راہنمائی اور مفت مشورے لینے کی کوشش کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ وہ پوری زندگی میں ایک ہفتہ مسلسل پختون معاشرے میں نہیں رہے ہوںگے مگر پختون معاشرے کے اقدار و روایات کا اس انداز میں تجزیہ کر گئے جیسے نسل در نسل پختون معاشرے میں رہے ہوں۔ میں پڑھا لاہور میں اور گزشتہ دو دہائیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہوں، شکر الحمدللہ میں نے اپنے تمام پنجابی دوستوں کو پختونوں سے زیادہ پختون دوست، پختون کلچر کے معترف اور دلدادہ پایا، اس لیے میں بھی ان کے سحر میں مبتلا ہوں، پتہ نہیں وہ پنجاب کہاں اور میری نظروں سے اوجھل ہے جہاں پختونوں سے نفرت کی جاتی ہے؟ میرا یقین کامل ہے کہ اگر پنجاب کے ہر مسلمان سے پوچھا جائے کہ وہ پختونوں سے نفرت کرتے ہیں یا محبت، انشاء اللہ ہر پنجابی آپ کو پختونوں سے محبت کرنے والا ملے گا۔ ہاں اگر موقع ملا تو مجھ سمیت پختون قوم کا ہر فرد احمد شاہ ابدالی اور کیپٹن کرنل شیر خان (نشان حیدر) کی طرح سرنڈر موذی اور ان کے بھارتی فوجیوں کو پھینٹا لگا کر اپنے آباؤ اجداد کی روایت کو تازہ کریںگے، انشاء اللہ۔ کالم میں بیان کردہ ہر افسانے کی حقیقت بیان کروں گا مگر سردست ان کی بیان کردہ دو برائیوں جس نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کردیا ہے، اس پر پہلے بات کرونگا، وہ فرماتے ہیں، ’’ افغانوں کے ڈی این اے میں ملک سے محبت اور خواتین کے احترام کی اہمیت نہیں‘‘ پتہ نہیں وہ ملک سے محبت کو کس آلے اور معیار سے ناپ رہے ہیں؟ غدار ہر قوم میں ہوتے ہیں مگر پختون من حیث القوم محب وطن ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں کسی کی طرف سے حب الوطنی کی سند کی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر میں ایک سوال کروںگا کہ کیا ان حالات میں نفرتوں کو ہوا دینے والا افسانہ لکھنا دانشمندی ہے یا ضروری تھا؟ (جاری ہے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل