Loading
آج کل اخبارات کا مطالعہ کرنے، خبریں دیکھنے اور سوشل میڈیا کا جائزہ لینے پر لوگوں کی خودکشی یا معمولی تنازعات و تکرار پر قتل کی خبریں گویا معمول بنتی جا رہی ہیں۔ ہمارے اردگرد تواتر سے رونما ہونے والے یہ سانحات سماج میں بڑھتی شدت پسندی، عدم برداشت اور لوگوں کی خستہ ذہنی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ کوئی اس طرف متوجہ نہیں۔ خودکشی اور کسی دوسرے پر ظلم دو مختلف اعمال ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں ان پر ایک جیسا رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ ہے لعنت ملامت۔ ظالم سے نفرت اور بیزاری کا اظہار قابل فہم ہے لیکن کسی ایسے شخص پر لعن طعن کرنا جو اپنی ذہنی پراگندگی سے لڑتے لڑتے خودکشی کی صورت اپنا نقصان عظیم کرچکا ہو، کیسی دانش مندی ہے؟ ایسے واقعات سامنے آنے پرکچھ لوگ افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں خود کو بے بس گردانتے ہوئے دل بہلانے کو کار زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ باقی نقاد طبیعت لوگ فارغ وقت میں چائے پیتے ہوئے ان خبروں پر تبصرے کرتے ہیں کہ بھلا یہ کوئی وجہ تھی خودکشی کی؟ اتنی معمولی بات پرکون ایسا انتہائی قدم کون اٹھاتا ہے؟ اور وغیرہ وغیرہ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذہنی طور پر تندرست اور قلبی طور پر مطمئن شخص کبھی خود کشی نہیں کرتا۔ ہم نہیں جان سکتے کہ خبروں میں مذکور یہ بدقسمت لوگ زندگی کی کتنی ٹھوکریں کھا کر، کتنے بے بس لمحے گزارکر اورکتنی ہی تلخیوں کو سہہ کر دل شکستگی کے اس مقام پر آ کھڑے ہوتے ہیں کہ اپنی تمام ناآسودگیوں سے چھٹکارا پانے کو خودکشی جیسے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ یہاں مقصد خودکشی کے عمل کا دفاع نہیں بلکہ اس بات کا احساس دلانا ہے کہ جو چلے گئے ہیں، ہم ان کے لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے لیکن جو ان گزرنے والوں کے نقش قدم پر چلنے کو تیار ہیں، بحیثیت انسان ان کی بچاؤ کے لیے کردار ادا کرنا ہمارا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ دماغی صحت کو لے کر شدید قدامت پسند ہے۔ یہاں لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سردی میں احتیاط نہ کرنے سے نمونیا ہو سکتا ہے، گرمی میں لو لگ سکتی ہے اور مجموعی طور پر صحت کا خیال نہ رکھنے سے مختلف عارضے لاحق ہو سکتے ہیں لیکن اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلسل نامساعد حالات میں ذہنی سکون تباہ ہو سکتا ہے، کسی بھی کام میں متواتر ناکامی پر انسان مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے اور کڑے حالات میں ذہنی دباؤ اور بے چینی محسوس کرنا بشری کمزوری یا خامی نہیں بلکہ انسانی جسم کا نارمل ردعمل ہے اور جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت خراب ہونے پر بھی ڈاکٹر سے مدد لینے میں کوئی برائی نہیں۔ ہمارے ملک میں اول لوگ سائیکالوجسٹ یا سائکیٹرسٹ کے پاس جاتے نہیں اور اگر چلے جائیں تو اس بات کو کسی برائی کی طرح چھپاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35 فی صد افراد بے چینی اور افسردگی کا شکار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان موضوعات پر آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس وجہ سے ہمارے ارد گرد کتنے ہی لوگ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کتنے ہی معصوم لوگ زیست جیسے انمول تحفے سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اسے ان چاہا بوجھ سمجھتے ہیں۔ ایک ڈپریسڈ انسان کی زندگی ہر طرح سے متاثر ہوتی ہے، اگر وہ طالب علم ہو تو تعلیمی کارکردگی پر اثر پڑے گا، کیونکہ ڈپریشن میں نہ صرف یاد داشت سست ہو جاتی ہے بلکہ چیزیں بھول جانا عام بات ہے۔ گھر میں کسی ایک شخص کی جذباتی کیفیت میں مسلسل اتار چڑھاؤ کی وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ منطقی سوال ہے کہ کسی ایسے انسان سے ترقی کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے جس کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اپنے اندر اٹھے طوفانوں سے دامن چھڑا کر بمشکل زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا ہو؟ ہمارے ارد گرد کئی قابل لوگ اس لیے قابل فخر کارنامے سر انجام نہیں دے سکتے،کیونکہ ان کی صلاحیتوں کو ذہنی مسائل جیسا دیمک لگ چکا ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم کہ زندگی کے ڈسے یہ لوگ اگر ذہنی مسائل سے نمٹنے کے لیے ناکافی سہولیات اور بنا کسی جذباتی سہارے کے باوجود ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت خود کو اس دلدل سے نکالنا چاہیں تو انھیں اردگرد کے لوگوں، خاندان اور رشتے داروں وغیرہ کی طرف سے عموماً بہت مایوس کن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول قسم کے حوصلہ شکن وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی اپنی زندگیوں سے تنگ اور ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں مگر اس بات کا شعور نہ رکھتے ہوئے اپنا خیال رکھنے کے بجائے اپنی محرومیوں اور شکست کی جھنجھلاہٹ ہر میسر شخص پر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید انھیں ادراک نہیں ہوتا مگر دورکہیں اندرکسی دوسرے کو ان مسائل سے نکلتا دیکھنا جن میں بھلے وہ اپنی نااہلی کے باعث پھنسے ہوں، ان کے احساس محرومی اور احساس کمتری کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ کچھ اس مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جنھیں لگتا ہے اگر ہم آسودہ نہیں ہیں تو کسی دوسرے کو بھی خوش رہنے کا حق حاصل نہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ڈپریشن، اینگزائٹی یا پینک اٹیک جیسی اذیتوں سے کبھی پالا نہیں پڑا ہوتا۔ وہ صحت اور خوشحالی جیسی نعمتوں کو اپنا کمال گردانتے ہوئے نفسیاتی پیچیدگیوں میں الجھے شخص کو احساس دلاتے ہیں کہ تم کمزور اور نااہل ہو، اس لیے زندگی کی مشکلات کے سامنے ڈھیر ہوکر مدد کی تلاش میں ہوں۔ اسی گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنی ذرا سی اداسی کو ذہنی بیماری سے محمول کر رکھا ہوتا ہے، پھر وہ یہ جتاتے نظر آتے ہیں کہ دیکھیں ہم بھی ان کیفیات سے گزرے ہیں لیکن کتنے بہادر ہیں کہ کبھی دوا یا تھیراپی نہیں لی۔ درحقیقت وہ نہیں جانتے کہ کلینیکل ڈپریشن کس طرح انسان کو اپنی ذات کے اندھیرے میں قید کر دیتی ہے، اینگزائٹی انسان کو کیسی کیسی اذیتوں سے دوچارکرتی ہے کہ ایک عام آدمی جن کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے لوگوں سے التماس ہے،اگر آپ اپنے الفاظ سے کسی کو سکون نہیں پہنچا سکتے تو خاموش رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ماہر ڈاکٹر کی مدد لینا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے تاکہ خود ایک پرسکون زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی کار آمد شخص ثابت ہوا جا سکے۔ اپنے اس سفر میں خود کو چھوٹی سوچ کے لوگوں سے بچا کر رکھیں کہ ایسے لوگوں کی بے حسی سے معمور مایوسانہ اور جاہلانہ باتیں اچھے وقت کی امید کو نا امیدی میں بدل سکتی ہیں۔ دل و دماغ پر بوجھ بڑھ جانے پرگھر اور دوستوں میں کسی سمجھدار اور قابل اعتماد شخص سے بات کریں اور اگر لگے کہ کوئی آپ کے احساسات کو سمجھنے کا اہل نہیں تو خود کو ایسی محفلوں سے بچائیں جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوں۔ اکیلے پن کا احساس تکلیف دہ ہو سکتا ہے مگر خدا پر پختہ یقین رکھتے ہوئے روح کوگھائل کردینے والے ان ذہنی مسائل سے نجات کے سفر کو اس امید پر جاری رکھیں کہ جسمانی بیماریوں کی طرح دماغی بیماریوں کا علاج بھی سو فیصد ممکن ہے۔یہاں ایک اور حقیقت قابل غور ہے کہ پاکستان کی قریباً 60 فیصد آبادی گاؤں میں قیام پذیر ہے۔ اس کے باوجود وہاں سرکاری اور نجی سطح پر ذہنی امراض سے متعلقہ ڈاکٹرز کا مکمل فقدان ہوتا ہے۔ حکومت کو ضلع کی طرح تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر اسپتالوں میں ماہر نفسیات کی موجودگی یقینی بنانے پر غور کرنا چاہیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل