Sunday, October 26, 2025
 

انشائیہ نگاری کیا ہے؟

 



انشائیہ کے لغوی معنی دل سے نئی بات کرنے کے ہیں، اصطلاح میں ایسی نثری تحریر جس میں کسی واقعہ یا کسی خیال یا کسی لمحاتی کیفیت کو آزادانہ، بے تکلف، پرلطف، غیر رسمی اور بغیرکسی منطقی ربط کے ہلکے پھلکے انداز میں تحریرکیا گیا ہو۔  خیال آرائی انشائیہ میں بنیادی جوہرکی حیثیت رکھتی ہے، انشائیہ خیال کی کڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے اسے شخصی نقطہ نظرکا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک خیال کے بطن سے دوسرا خیال جنم لیتا ہے، ایک خیال سے دوسرے خیال میں ربط کے نتیجے میں انشائیہ میں حسن اور نکھار پیدا ہوتا ہے انشائیہ نگار زندگی کو جس رنگ میں دیکھتا ہے، وہ اسے اپنی تمام تر داخلی کیفیات کے ساتھ پیش کردیتا ہے۔  بے تکلف اندازکو انشائیہ میں بڑی اہمیت حاصل ہے، بے تکلف انداز اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تحریر میں مصنوعی پن سے گریزکیا جائے، اختصار انشائیہ کا ایک اہم جز ہے، لفظوں کی فضول خرچی اور اس کا بے جا استعمال تحریر کو نہ صرف بوجھل اور بے اثر کردیتا ہے بلکہ اس سے اس کی دلکشی بھی متاثر ہوتی ہے۔ انشائیہ میں اس بات کا لازمی خیال رکھا جاتا ہے کہ تحریر میں کسی بھی صورت میں بوجھل پن پیدا نہ ہونے پائے، اگر انشائیہ میں بوجھل پن پیدا ہوجائے تو انشائیہ، انشائیہ نہیں رہتا، اس لیے انشائیہ میں اختصار ضروری ہو جاتا ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار اختصار سے کام لے کر، مگر جامعیت کے ساتھ اپنی بات بیان کر دیتا ہے۔ کوئی بھی ادبی تحریر اس وقت تک ادب کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچ سکتی، جب تک اس میں تازگی کا عنصر شامل ہو جائے، تازگی انشائیہ کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے اس کی کمی بیشی انشائیہ کو اس کے مقام سے گرا دیتی ہے۔ یہ تو تھے وہ لازمی عناصر جو انشائیہ کا لازمی جز ہیں، اب سوال یہ ہے کہ انشائیہ کیسے لکھا جاتا ہے۔ انشائیہ کے کوئی لگے بندھے اصول نہیں ہوتے لکھاری اپنی بات کو غیر منظم اور غیر رسمی انداز سے بات شروع کرتا ہے بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے، اس میں منطقی ربط نہیں ہوتا لیکن اس کی بے ترتیبی میں اپنا ایک ربط ہوتا ہے، یعنی اس میں غیر مربوط وحدت ہوتی ہے۔ اس میں اپنی بات ثابت کرنے کے لیے منطقی دلائل کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ اس میں ادبی اسلوب میں بات کی جاتی ہے، ادبی اسلوب کے بغیر انشائیہ اپنا وجود نہیں منوا سکتا۔ اس میں انشائیہ نگار اپنے جذبات، کیفیات، تاثرات، خیالات، مشاہدات اور تجربات کو بغیر کسی بندش کے بیان کرتا ہے۔ انشائیہ لکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قوت مشاہدہ وسیع تر ہو، وہ الفاظ کو نئے معنی اور نئے تناظر میں پیش کرنے کے فن سے واقف ہو۔ اس میں موضوع کی قید نہیں ہوتی، عمومی طور پر انشائیہ ان ہی موضوعات پر لکھا جاتا ہے جو لکھنے والے کو متاثرکرتا ہے، اس میں کیونکہ لکھنے والے کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے اس لیے اسے انگریزی میں Personal Essay کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض طلبا انشائیہ اور مضمون کو ایک ہی معنی میں لیتے ہیں جو کہ درست نہیں مضمون کی تکنیک بیانیہ ہوتی ہے جب کہ انشائیہ خیالات کی رو میں بہہ کر آزادانہ لکھا جاتا ہے، مضمون مقررہ ہیئت کا پابند ہوتا ہے، اس کی مربوط شکل ہوتی ہے جس کے تحت کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ہوتا ہے، انشائیہ کا کوئی خاص ڈھانچہ نہیں ہوتا، اس میں بات اچانک شروع ہوتی ہے ،اچانک ختم۔ بات کہیں سے شروع ہوتی ہے کہیں پر ختم۔ مضمون کا مقصد معلومات کی فراہمی ہے جب کہ انشائیہ کا مقصد مسرت، خوشی بہم پہنچانے کی غرض سے لکھا جاتا ہے، مضمون میں جو بات سنجیدگی سے کی جاتی ہے انشائیہ میں وہی بات پرلطف، نرم اور شیریں انداز میں بیان کی جاتی ہے۔ مضمون خشک بھی ہو سکتا ہے اور مزاحیہ بھی لیکن انشائیہ ہلکے پھلکے اور شگفتہ انداز میں لکھا جاتا ہے، اس میں طنز و مزاح کا عنصر کم ہی ہوتا ہے۔ بعض طالب علم انشائیہ اور مزاح نگاری کے اہم معنی سمجھتے ہیں۔ طنز و مزاح ایک ادبی اصناف ہے مزاح کی مثال گدگدی کرنا اور طنز کی مثال چٹکی لینا ہے۔ طنز و مزاح کے ذریعے سماجی ناہمواریوں اور غیر موزوں چیزوں پر طنز و مزاح کے ذریعے تنقید کی جاتی ہے، اس میں چیزوں کو ٹیڑھے زاویے سے دیکھا جاتا ہے اور اسے مسخ کرکے اسے طنز و مزاح کا روپ دیا جاتا ہے جب کہ انشائیہ میں طنز و مزاح کا استعمال کم ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی بنیادی صنف نہیں ہے۔ اس میں چیزوں کو نئے زاویے سے دیکھا جاتا ہے یعنی اندھیروں میں روشنی کا پہلو تلاش کیا جاتا ہے۔ انشائیہ میں کسی مخصوص پلاٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انشائیہ میں مصنف کے ذاتی نقطہ نظر کے اثرات غالب ہوتے ہیں جب کہ طنز و مزاح مقررہ ہیئت کا پابند ہوتا ہے، اس میں آغاز، نفس مضمون اور اختتامیہ منظم اور مربوط ہوتے ہیں۔ اس میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا مقصود ہوتا ہے۔ انشائیہ نگاری کا ظاہری طور پرکوئی مقصد نہیں ہوتا، انشائیہ نگار پڑھنے والے کو کوئی پیغام نہیں دیتا اور نہ ہی دینا چاہتا ہے بلکہ وہ اپنے داخلی کیفیات، تاثرات اور تجربات کو پرلطف اور بے تکلف انداز میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے، اگر اس کوشش میں غیر شعوری طور پر کوئی مقصدیت ظاہر ہو جائے تو یہ علیحدہ بات ہوگی اس سے انشائیہ نگاری پر کوئی فرق نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا مطالعہ کیوں کیا جائے، طلبا کی رہنمائی کے لیے عرض ہے کہ اس میں عمومی طور پر ثقافتی، سماجی اور ذاتی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے، اس لیے اسے اپنے عہد کا ترجمان اور عکاس سمجھا جاتا ہے انشائیہ میں کیونکہ وسعت علم، احساس، حکیمانہ نزاکت پر مبنی عبارت ہوتی ہے، اس لیے اس سے پڑھنے والے کی ذہنی اور فکری سطح بلند ہوتی ہے اور اس کے ادبی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ ادبی اسلوب، شگفتگی اور بے تکلفی انشائیہ کا لازمی جز ہے۔ انشائیہ کے مطالعے کے نتیجے میں قاری زبان کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہوتا ہے جس سے قاری کی زبان و بیان میں فصاحت و بلاغت کا حسن پیدا ہوجاتا ہے، جو اس کی گفتگو میں دلکشی پیدا کر دیتا ہے۔ انشائیہ میں کیونکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نئے انداز اور نئے زاویے سے دیکھا جاتا ہے، اس سے زندگی کے مسائل کو نئے زاویے سے دیکھنے، ان کا تجزیہ کرکے حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ انشائیہ کے مطالعے سے نہ صرف قوت مشاہدہ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ذہنی نشوونما بھی فروغ پاتی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل