Friday, October 31, 2025
 

مذاکرات دوبارہ،کیا آخری موقع؟

 



پاکستان میزبانوں کی درخواست پر افغانستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔ مذاکرات پاکستان کے اُسی مرکزی مطالبے پر ہوں گے کہ افغانستان دہشت گردوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کرے۔ مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن یہ چار روز مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔ استنبول کے حالیہ مذاکرات کا آغاز تو مثبت تھا، تحریری معاہدے کی تیاری، چار روزہ نشستیں اور خارجہ پالیسی کے بولنے والوں کی زبانی یقین دہانیاں مگر جب نتیجہ صفر رہے، طالبان کے مطالبات بدل جائیں اور ہر ملاقات کے بعد نئے مسائل جنم لیں، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ اصل میں گفتگو کے فقدان سے زیادہ دوعملی، مکاری اور جنگی معیشت کی بقا کی خواہش سے جڑا ہوا ہے۔ استنبول میں وقت ضایع ہوا، مگر اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا بار بار تبدیل کیا گیا، پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے مرکزی مطالبات کو بارہا دہرایا جانے کے باوجود عملدرآمد کو مشکوک بنا دیا۔  قابلِ غور یہ بات ہے کہ جب تحریری معاہدے کی تیاری بھی کر لی گئی، نئی مانگیں سامنے آئیں تو یہ محض مذاکراتی خطا نہیں بلکہ کابل کی ایسی حکمتِ عملی کی علامت ہے جس میں شمولیت محض وقتی، مفاد پرستانہ اور اپنی گروہی بقا کو مقدم رکھنے والی نظر آتی ہے۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ مذاکرات کا فریم ورک کنٹرول کرنے والی پارٹی اپنے اندرکسی ایسے مؤقف کی حامل نہیں جس پر قابلِ اعتماد، مستقل اور قابلِ تصدیق عمل ممکن ہو۔ جب ایک معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد دوسرے خطے یا اس کے اندرونی عناصر کو شامل کر کے نئی شرطیں رکھی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی معاہدہ بذاتِ خود آدھا یا وقتی سمجھا جا رہا تھا اور یہی بات اعتماد کی ناکامی کو جنم دیتی ہے۔  یہاں ایک اور پہلو قابلِ غور ہے افغان طالبان نے بھارت کو اس کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر وہ پاکستان کے بارے میں ’’پہلو تہی‘‘ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ طالبان خارجہ تعلقات اور خطے کے موازنہ میں بدنیتی رکھتے ہیں۔ یہاں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ طالبان کے اپنے اندرونی گروہی ایجنڈے ہیں ، بعض عناصر دہشت گردی اور مسلح سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بعض اپنے علاقائی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی پالیسی اپناتے ہیں جو معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔  کالعدم ٹی ٹی پیکا سوال کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروہ تسلیم کر لیں تو یہ ایک بڑا قدم ہوگا،کیونکہ اس کے بعد افغان رویے پر بعض شرائط لاگو کی جا سکتی ہیں اور اس کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی کے سیاسی جواز کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم صرف تسلیم کرنا کافی نہیں، تسلیم کے ساتھ ساتھ روک تھام،گرفتاری، عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سرحدی نگرانی، معلومات کا تبادلہ اور منظم طریقے سے ان کے مالیاتی اور لاجسٹک نیٹ ورکس کا خاتمہ ضروری ہوگا۔ اس میں شفافیت اور قابلِ تصدیق طریقہ کارکا ہونا لازمی ہے، بصورتِ دیگر یہ صرف الفاظ کی حد تک رہ جائے گا۔ پاکستان کی توقعات درست ہیں، اگر کوئی گروہ دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کی شناخت کے بعد ٹھوس، مؤثر اور تصدیق شدہ اقدام ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی بلکہ علاقے میں اعتماد کی فضا بھی بحال ہونے کی راہ پا سکتی ہے۔  اگرچہ پاکستانی وفد واپس بھی جانے والا تھا مگر اب استنبول میں قیام طویل کر دیا گیا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ فریقین نے کم از کم ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر سوال وہی ہے۔ کیا یہ ’’ایک اور موقع‘‘ حقیقی ہوگا یا محض وقت خریدنے کی کوشش؟ مذاکرات کے دوران معاہدے پر دستخط تو ہو سکتے ہیں، مگر اگر اس پر عملدرآمد کے لیے کوئی آزاد بین الاقوامی یا علاقائی میکانزم موجود نہ ہو تو وہ معاہدہ کاغذ کی حد تک محدود رہے گا۔ دوسری افغانستان میں منشیات کی پیداوار کا تیزی سے بدلتا ہوا نقشہ بھی مسئلے کو سنگین بناتا ہے۔ افغانستان منشیات کا گڑھ ہے، رپورٹیں بتاتی ہیں کہ افغانستان میں مصنوعی منشیات، اور نشہ آور میٹریل کی پیداوار وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی صرف ایک منشیات کی شکل کی تبدیلی نہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ طالبان کی منشیاتی معیشت کا حجم بڑھ رہا ہے، نئی طرح کے جرائم، منی لانڈرنگ اور مسلح گروہوں کی مالی معاونت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب افغانستان کی زرعی زمینیں بھی منشیات کے لیے مخصوص لیبارٹریوں میں بدلنے لگیں، تو ریاستی کنٹرول مزید کمزور ہوتا ہے اور دولت کا لالچ کئی سو گناہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ اقتصادی تبدیلی ایک بڑے طویل المدتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جنگی معیشت دہشت گردی کو جاری رکھنے کی کشش ہے بلکہ ان اجزاء کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط کرتی ہے جو امن کے وقت ٹوٹ نہیں پاتے۔ اسی لیے طالبان کی ’’ جنگی معیشت کو بچانے‘‘ جیسی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے مالیاتی ذرائع کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں جو ان کی بقا میں اہم ہیں، اگر یہی ذرائع دہشت گردی کے ذریعے باقاعدہ فنڈنگ، منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی یا دیگر غیرقانونی نیٹ ورکس ہیں، تو بنیادی مسئلہ صرف عسکری یا سفارتی نہیں، بلکہ یہ معاشی ڈھانچے کی تبدیلی کا بھی ہے۔ یہاں یہ بھی اہم ہے کہ بین الاقوامی برادری کا کردار کیا ہوگا؟ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں جب بھی کسی علاقائی یا عالمی پلیئرکا کردار آتا ہے، تو اس کا وزن اور اثر غالب طور پر سیاسی اور اقتصادی دونوں سطحوں پر پڑتا ہے۔ قطر میں دوحہ کی ثالثی نے پہلے بھی کچھ پیش رفت کی، مگر مستقل امن کے لیے ایک جامع اور بین الاقوامی طور پر مانیٹرڈ فریم ورک لازمی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور اہم خطے کے ملک جیسے چین، روس، ایران اور امریکا کو اگر حقیقتاً امن کی تشکیل میں حصہ ڈالنا ہو گا ۔ ٹی ٹی پی اور اس جیسی تنظیموں کے خلاف مربوط قانونی اور فوجی حکمتِ عملی مرتب کی جانی چاہیے۔ اس میں یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی ادارتی صلاحیتوں کو مضبوط کرے، عدالتی نظام، خفیہ اداروں کے ساتھ شفاف شواہد کا تبادلہ اور دہشت گردی کے خلاف قانونی فریم ورک کی مضبوطی۔ افغانستان کو یہ باورکروایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف قدم اس کی خود مختاری کے خلاف نہیں بلکہ اس کے داخلی استحکام کی ضمانت ہیں۔ اگر طالبان اپنے زیرِکنٹرول علاقوں میں اس طرح کے گروہوں کو پناہ دیتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی ایک اندرونی خطرہ ہے جو اس کی بین الاقوامی قبولیت اور داخلی قانون سازی کو متاثر کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ طالبان کی یقین دہانی اور پاکستان کے خلاف نسبتاً غفلت کی پالیسی کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ علاقائی ممالک اس بات کو سمجھیں کہ افغانستان میں طالبان رجیم پورے خطے کو متاثر کر رہی ہے۔ چین، روس، ایران، اور امریکا کو افغانستان میں استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانی ہوں گی، چاہے ان کے علاقائی مفادات مختلف ہوں ،کیونکہ ایک ایسی رجیم جو دہشت گردی، منشیات اور آوارہ معاشی سرگرمیوں کی پشت پناہ بن جائے تو سب کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ طالبان پر بھرپور انداز میں ڈالنا چاہیے۔  مذاکرات کی بحالی ایک اچھی شروعات ہے، مگر اس کے لیے شواہد پر مبنی، شفاف اور قابلِ تصدیق میکینزم لازمی ہیں، اگر طالبان واقعی امن چاہتے ہیں تو انھیں دکھانا ہوگا کہ وہ اپنے عزم میں سنجیدہ ہیں، نہ صرف الفاظ میں بلکہ عمل میں۔ اس عمل میں ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کو واضح طور پر دہشت گرد تسلیم کرنا، ان کے خلاف کارروائی کرنا، منشیات کی پیداوار اور مارکیٹنگ کے خلاف جامع اقدامات اور سرحدی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی و بین الاقوامی نگرانی کا استعمال شامل ہونا چاہیے۔ امن کی یہ راہ مشکل ہے، اگر اس میں سنجیدہ نہیں رہیں گے تو وقت ضایع ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں عدم استحکام گہرا ہوتا جائے گا اور تب حالات ہر فرد، ہر قوم اور ہر ریاست کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ امن کی کوششیں ایک مستقل، شفاف اور قابلِ تصدیق بنیاد پر ہونی چاہئیں، ورنہ مذاکرات نہ صرف وقت کا ضیاع ثابت ہوں گے بلکہ مستقبل میں ان کا حوالہ دینا بھی مشکل ہو جائے گا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل