Thursday, November 13, 2025
 

بیوروکریسی کی دشمن بیوروکریسی

 



رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی مشہور نظم گیتاں جلی میں ایک جگہ کہا ہے کہ انسانی زندگی اگر فی الواقع کسی قحط سے دوچار ہے تو وہ وقت کا قحط ہے۔اس سے بڑا کوئی قحط نہیں۔یہاں کسی کو بھی زیادہ وقت نہیں دیا گیا۔کرہٗ ارض پر ایک مختصر دورانیے کی زندگی اس وقت بہت بوجھل ہو جاتی ہے جب عمر ڈھل جائے،قویٰ مضمحل ہو جائیں،بیماریاں گھیر لیں،قریبی لوگ ساتھ چھوڑ جائیں یا تعاون نہ کریں۔ زندگی کے اس تکلیف دہ اور بوجھل پن کا رونا روتے ہوئے غالب نے کہا ہے کہ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ ہمارے ایک بہت ہی ٹیلنٹڈ دوست اور بہت محنتی کورس میٹ و شفیق بھائی کے ساتھ آج کل یہی کچھ ہو رہا ہے۔حکومتی ملازم اور خاص کر وفاقی حکومت کے افسران اور ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سی تکالیف سے پالا پڑتا ہے۔ایسی ایسی تکالیف گھیر لیتی ہیں جو زندگی کو بہت تکلیف دہ بنا دیتی ہیں۔زندگی کی ایڈوانس اسٹیج پر جب سپورٹ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے اور پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکا دی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت کے اس سابقہ افسر نے سی ایس ایس کرنے کے بعد شاندار خدمات انجام دیں۔وہ زبان و بیان کی بہترین قوت سے لیس تھا۔اس کی زیادہ تر سروس پاک سیکریٹیریٹ میں رہی لیکن وہ جہاں بھی رہا،سارا دفتر اس کے گرد گھومتا رہا۔وہ ہر ایک کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا اور مشکل سے مشکل مسئلے کا کوئی نہ کوئی قابلِ عمل حل تلاش کر لیتا۔ہمارا دوست اب عمر کی ستر کی دہائی میں ہے اور اس ایڈوانس عمر میں اس کی زندگی چنداں مشکلات سے دوچار ہے۔امسال اس کو منہ کا کینسر تشخیص ہوا۔بی ایس سی کرتے ہوئے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ کینسر کا مرض جنگل میں آگ کی طرح ہے۔ جب تک اس کا پتہ چلتا ہے اس وقت تک وہ جنگل کے بڑے حصے کو جلا چکا ہوتا ہے۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پچھلی چار پانچ دہائیوں میں اس کے علاج میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور بروقت اچھے علاج سے زندگی بچ سکتی ہے۔ہمارے دوست کو بھی جب کینسر کا بتایا گیا اس وقت تک اس کا جبڑا،اوپر کے سارے دانت متاثر ہو کر کینسر lymph nodeتک پھیل چکا تھا۔ڈاکٹروں نے کہا جلد از جلد سرجری کر کے،منہ کا متاثرہ سارا حصہ کاٹنا ہوگا ورنہ زندگی کو شاید مہلت نہ ملے۔ہمارے یہ دوست لاہور میں رہتے ہیں۔کبھی وہ انگریزی زبان میں بہت اچھے اور خوبصورت کالم لکھا کرتے تھے لیکن اب مشکل میں ہیں۔ وفاقی حکومت کے قوانین کے مطابق افسران و ملازمین صرف وفاقی حکومت کے اسپتالوں سے علاج کروا سکتے ہیں۔لاہور میں وفاقی حکومت کا شاید صرف ایک اسپتال ہے۔اس اسپتال میں کینسر کے ٹیسٹوں اور علاج سے متعلق سہولتیں ناپید ہیں۔ ہمارے دوست کو انتہائی ایمرجنسی لاحق تھی۔ان کی جان پر بنی ہوئی تھی۔کینسرکا سنتے ہی انسان کے حواس جواب دے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اس سابقہ افسر کو فوری سرجری کروانی تھی اور وہ بھی بہت اچھے اسپتال اور ماہر ترین ڈاکٹروں سے کروانی ضروری تھی۔اسے معلوم ہوا کہ لاہور کے ایک اسپتال میں یہ سرجری ممکن ہے۔وہ اپنے تمام ٹیسٹ اور رپورٹیں لے کر اسپتال پہنچ گیا۔اسپتال کے آن کالوجی ڈیپارٹمنٹ نے فوری توجہ دی اور جائزہ لینے کے بعد سرجری کا فیصلہ کیا،مریض کے ساتھ میٹنگ کر کے اسے سارا پروسیجر سمجھایا۔میڈیکل ٹیم نے فوری تیاری کی اور سرجری شروع کر دی۔یہ سرجری کوئی سات گھنٹے جاری رہی جس میں مریض کا جبڑا،اوپر کے سارے دانت اور متاثرہ لمف نوڈ ایک انتہائی صبر آزما پروسیجر کے بعد نکال دیے گئے۔ مریض نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ حکومتِ پاکستان میں خدمات انجام دیتے ہوئے گزارا لیکن زندگی بچانے کے لیے پروسیجر صرف اسی صورت ایمرجنسی میں ہو سکتا تھا جب وہ اس کے لیے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتا۔یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ وفاقی حکومت کے افسران و ملازمین کو پیسے لگا کر صحت خریدنی پڑتی ہے ورنہ علاج نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب جان لبوں پر آئی ہوئی ہو مریض کو ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ او پی ڈی کی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور پھر بھی مطلوبہ علاج یا تو ہوتا ہی نہیں یا پھر اتنی دیر کر دی جاتی ہے کہ مریض کا بچنا ایک معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ہمارے دوست اور سابقہ افسر نے رقم کا فوری بندوبست کیا۔ان کو اسپتال میں ایڈمٹ کر لیا گیا۔اس اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال میں ان کا اچھا علاج ہوا اور اب وہ صحت یابی کی جانب گامزن ہیں۔ان کے ضروری ٹیسٹ کیے جارہے ہیں تاکہ پیش رفت نظر میں رہے۔علاج پر خرچے کا بندوبست تو کسی نہ کسی طرح ہو گیا تھا لیکن ایک بڑا خرچہ تھا جو ہمارے دوست کی بساط سے باہر تھا اس لیے انھوں نے وزارتِ صنعت حکومتِ پاکستان کو میڈیکل اخراجات کی ری ایمبرس منٹ کے لیے درخواست دی جو ان کا حق ہے۔ وفاقی حکومت کے اس سابقہ افسر کا ری ایمبرس منٹ کلیم وزارتِ صنعت اسلام آباد پہنچا تو بیوروکریسی نے مدد کرنے کے بجائے ری ایمبرس منٹ کلیم کے اوپر ڈھیر سارے اعتراضات لگا دئے۔اسے کہا گیا کہ وہ بتائے کہ اس نے وقت پر علاج کے لیے ایمرجنسی سرٹیفیکیٹ کیوں وزارتِ صنعت میں جمع نہیں کروایا،کہ اس نے وفاقی حکومت کے نزدیک ترین اسپتال کو چھوڑ کر دوسرے اسپتال کو علاج کے لیے کیوں چنا،علاج کے لیے خریدی گئی دواؤں کی کمپیوٹر رسیدیں مدھم کیوں ہو گئی ہیں۔اب ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی فارمیسی سے دوائیں خریدیں،فارمیسی کے کمپیوٹر سے نکلی رسیدیں بہت جلد مدھم پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے دوست نے اسی خطرے کے پیشِ نظر ایسی رسیدوں کی فوٹو کاپیاں کروا کے کلیم کے ساتھ نتھی کر دی تھیں لیکن متعلقہ وزارت نے انھیں قبولیت کا شرف بخشنے کے بجائے زور دیا کہ اصلی رسیدیں جو مدھم نہ ہوں وہ دی جائیں۔کوئی وزارت کے ملازمین اور افسران سے پوچھے کہ کینسر جیسے مہلک مرض کی ایڈوانس اسٹیج میں مبتلا فرد کے بس میں ہے کہ وہ گھنٹوں انتظار کر کے اور او پی ڈی کے باہر لمبی قطاروں میں لگ کر ایمرجنسی سرٹیفیکیٹ بنواتا پھرے ۔کیا وہ ماپتا رہے کہ اس کے گھر سے ایک اسپتال نزدیک ہے یا دوسرا اسپتال۔کیا جان کنی کی حالت میں مریض خود وفاقی اسپتال میں ناپید سہولیات پیدا کر سکتا ہے۔ ہمارے دوست کے کلیم کے ساتھ اسپتال میں ہوئے علاج کے ثبوت کے تمام کاغذات اور شہادتیں لگائی گئی ہیں۔ان کاغذات و شہادتوں کو متعلقہ ڈاکٹروں ،اور اسپتال انتظامیہ نے سرٹیفائی کیا۔اس کے بعد اسپتال کے اکاؤنٹس ونگ نے تمام کاغذات کی پڑتال کی اور سرٹیفائی کر کے دیا۔اگرمتعلقہ وزارت کو کوئی شک ہے تو اسپتال سے رجوع کر کے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ آیا یہ کلیم صحیح ہے ۔ کسی بھی مریض کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن کینسر جیسے مہلک مرض کے مریض کو پروسیجر کے فوراً بعد انتہائی آرام اور ذہنی سکون کی از حد ضرورت ہوتی ہے۔مشکلات میں گھرِ کر مریض کی صحت پھر خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔مریض وزارتِ صنعت کے افسران اور ملازمین کا سابقہ کولیگ رہا ہے۔اس کے ساتھ تعاون ہونا چاہیے اور اس اسٹیج پر اس کی ہر ممکنہ سپورٹ کرنی چاہیے۔ افسر کے ری ایمبرس منٹ کلیم اور اس جیسے دوسرے کلیموں کو ترجیحی طور پر منظور کر کے مدد فراہم کرنی چاہیے۔تلوار کی نسبت کسی ایک بات کا گھاؤ محسوس کیا جائے تو بہت ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل