Thursday, November 13, 2025
 

آئینی دور

 



حضرت عمر فاروقؓ کا عہد خلافت تاریخ اسلام کا سنہری دور حکومت کہلاتا ہے۔ انھوں نے جہاں ایک طرف فتوحات حاصل کر کے اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع کیا، وہیں انھوں نے ایسا نظام حکومت تشکیل دیا جہاں ہر فرد کے حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔ عدل، انصاف اور احتساب کا ایسا مثالی نظام بنایا کہ آج تک اس کی کوئی نظیر دنیا کا کوئی دوسرا حکمران پیش نہ کر سکا۔ دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم ہر دو مورخین نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ایک یہودی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب "The Hundred" میں تاریخ انسانی کی 100 عظیم ترین شخصیات میں حضرت عمر فاروقؓ کی خدمات کو نمایاں طور پر لکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں ہر فرد کو تنقید اور طلب حقوق کی آزادی دے رکھی تھی۔ ایک دفعہ آپؓ نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ’’ لوگو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں، تو کیا کرو گے؟‘‘ یہ سنتے ہی ایک شخص نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور کہا ’’ تمہارا سر اڑا دوں گا۔‘‘ آپؓ نے آزمانے کے لیے اسے ڈانٹ کر کہا’’ تو امیرالمومنین کی شان میں گستاخی کر رہا ہے۔ تجھے پتا نہیں کہ تُو کس سے بات کر رہا ہے؟‘‘ اس شخص نے اسی جرأت سے جواب دیا’’ ہاں، ہاں میں آپ سے مخاطب ہوں۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’رب کا شکر ہے کہ اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں گے۔‘‘ تاریخ کے اوراق میں ایک مشہور واقعہ ملتا ہے کہ ایک دفعہ آپ مسلمانوں سے خطاب کرنے اٹھے تو ایک بدو کھڑا ہوا اور کہا کہ ’’ میں نہ آپؓ کی بات سنتا ہوں اور نہ ہی اطاعت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے استفسار کیا کہ ’’کیوں؟‘‘ بدو بولا ’’ یمن سے جو چادریں آئی تھیں اس میں سے ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی تھی، اور اس ایک چادر سے آپؓ کی قمیص نہیں بن سکتی، مگر آپؓ نے اس چادر کی قمیص زیب دن کی ہوئی ہے، یقینا آپ نے اپنے حصے سے زائد کپڑا لیا ہے‘‘ اس کا جواب میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ’’ اس کا جواب میرا بیٹا دے گا۔‘‘ آپؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ’’واقعی میرے ابا جان کی قمیص ایک چادر میں نہیں بنتی تھی، (آپؓ خاصے قدآور تھے) میں نے اپنے حصے کی چادر انھیں دی تھی، اس طرح ان کی قمیص بنی۔‘‘ ہمارے دین اسلام کی آفاقی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ حاکم وقت اپنی رعایا کے حقوق کا محافظ ہے، ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنا حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول صادق ہے کہ’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی مرا تو عمرؓ سے اس کا سوال کیا جائے گا۔‘‘ گویا اسلام میں کسی حکمران اور صاحب اختیار حکومتی عہدیدار کو کسی بھی حوالے سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ بعینہ ایک عام شخص بھی حکمرانوں سے باز پرس کر سکتا ہے اور اس کے قول و عمل کے حوالے سے سوال اٹھا سکتا ہے اور حکمران کو ہر صورت جواب دینا پڑے گا۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں قائد اعظم کے متعدد فرمودات ریکارڈ پر ہیں کہ جب بھی ان سے سوال کیا جاتا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو آپ کا جواب ہوتا کہ ’’ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کا دستور بنانے والا، ہمارا دستور تو 13 سو سال پہلے بن گیا، پاکستان میں جو بھی آئین ہوگا قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن و سنت کے دستور کی عملی شکل نافذ کردی ہے جس کے مطابق کسی سرکاری عمال کو اپنے ہر عمل کا عوام کو جواب دینا ہوگا، کوئی سرکاری اہلکار قانون سے مبرا نہیں، بلا تفریق سب کا احتساب قرآن و سنت کی روح کے مطابق لازم و ملزوم ہے اور سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے کوئی قانون سے بالا نہیں اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا عہد خلافت ہمارے لیے مثال، قرآن و سنت ہمارا دستور اور قائد اعظم کے فرمودات ہمارے پیش نظر لیکن قائد کے پاکستان میں آج کے زعما بڑی شدت سے تاحیات اپنے اعمال کی گرفت سے استثنیٰ کے طلب گار ہیں۔ کیا انھیں نبی کریمؐ کی وہ حدیث یاد نہیں کہ ’’ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ جب ان کا کوئی امیر چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔‘‘ لگتا ہے اکابرین حکومت اسلام کی آفاقی تعلیمات بھول گئے، قرآن و سنت کو مساجد و مدرسوں تک محدود کردیا اور قائد اعظم کے فرمودات کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اسی جلد بازی میں بحث و مباحثہ کے بغیر ایوان بالا سے 27 ویں آئینی ترمیم جبری پاس کروا لی، اب قومی اسمبلی سے بھی منظور کروا لی گئی ہے۔ اپوزیشن کا احتجاج بے معنی اور بعض آئینی و قانونی ماہرین کے اعتراضات اور سوالات تشنہ تعبیر رہیں گے۔ 78 سالوں سے وطن عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے، طاقتوروں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے تحفظ کے لیے آئین میں من مانی ترامیم کیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا، کہا جا رہا ہے کہ 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گئی ہے۔ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔ تاحیات استثنیٰ سے احتساب کا تصور ختم ہو جائے گا۔ کیا آنے والے حکمران اسے قبول کر لیں گے یا ایک نیا آئینی پنڈورا باکس کھل جائے گا؟ کاش کہ ہمارے حکمران اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سمجھ لیتے اور حضرت عمرؓ کے عہد زریں سے رہنمائی حاصل کر لیتے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل