Loading
پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا جو قانون منظورکیا ہے وہ پیپلز پارٹی و پی ٹی آئی نے مسترد کردیا ہے اور پی پی نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی پنجاب حکومت کے نئی حلقہ بندیوں کو جواز بنا کر دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن ملتوی کر دیے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے 2022 میں پارٹی بنیاد پر دو مرحلوں میں بلدیاتی الیکشن کرائے تھے جو جماعتی بنیاد پر تھے جس میں پی ٹی آئی پشاور تک کا الیکشن ہارگئی تھی اور اسے متعدد اضلاع میں جے یو آئی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، جس پر برہم ہوکر وزیر اعظم نے خود کے پی جا کر بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی۔ وفاق اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور دونوں حکومتوں نے سرکاری وسائل استعمال کر کے باقی اضلاع میں اپنے امیدوار منتخب کرا لیے تھے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے۔
کے پی میں سب سے پہلے اور سندھ و بلوچستان میں بعد میں انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوتے ہوئے شکست کے خوف سے بلدیاتی انتخابات کرائے ہی نہیں گئے، جس کے بعد منصوبے کے تحت پنجاب و کے پی اسمبلیاں بانی پی ٹی آئی نے تحلیل کرا کر اپنی حکومتیں خود ختم کرا دی تھیں۔
پنجاب میں بعد میں 2024 میں عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تھی جس کو ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے مگر پنجاب حکومت نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرایا جس پر الیکشن کمیشن کو بڑی دیر بعد خیال آیا کہ تین صوبوں میں بلدیاتی نظام چل رہا ہے اور پنجاب محروم ہے جس پر اس نے پنجاب حکومت کو دسمبر میں ہر حال میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی ہدایت کی جس پر مسلم لیگ نے حسب ماضی وقت پر الیکشن کرانے کی بجائے نئے بلدیاتی قوانین منظور کرا لیے اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے مہلت لے لی اور مزید تاخیر کے لیے غیر جماعتی انتخابات کا فیصلہ کیا تاکہ مخالفین اس بنیاد پر ہائی کورٹ جائیں تاکہ مزید تاخیر ہو،کیونکہ ماضی میں کبھی بلدیاتی انتخابات کو اہمیت دی گئی نہ کبھی 2015 کے بعد کسی عدالت نے ایکشن لیا کہ آئین کی دفعہ 14-A پر عمل کرکے صوبائی حکومتیں کیوں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتیں؟
یہ اعزاز صرف غیر سول حکومتوں کو حاصل ہے کہ انھوں نے آئین پر عمل کرکے ہمیشہ وقت پر انتخابات بلدیاتی اداروں کے کروائے جب کہ نام نہاد جماعتی و سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کی جس کا ثبوت مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومتیں ہیں جو اسلام آباد اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرا رہیں اور پنجاب حکومت نے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے جب کہ تین صوبوں میں بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے والی ہے۔
جماعتی حکومتیں اپنے صوبوں میں اپنے ٹکٹوں پر بلدیاتی الیکشن کراتی ہیں اور سرکاری ٹکٹوں کی اہمیت ہوتی ہے اور سرکاری وسائل استعمال کرکے اپنے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرا لیتی ہیں۔ ماضی میں پنجاب، سندھ و کے پی کی حکومتیں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرا چکی ہیں۔ جماعتی انتخابات میں امیدوار اپنی پارٹی کے احکامات کا پابند ہوتا ہے اور اپنی حکومت سے جائز بات بھی نہیں منوا سکتا اور سیاسی حکومتیں انھیں ہی فنڈ دیتی ہیں اور ان کی کرپشن پر خاموش رہتی ہیں اور ان کے بلدیاتی نمایندے ہمیشہ حکومت وقت کی تعریفوں میں مصروف رہتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز نے اپنی حکومتوں میں پانچ بار بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اور بلدیاتی نمایندے کامیاب ہو کر اپنی پارٹیوں کے وفادار رہے اور انھوں نے آمر صدور اور گورنروں تک کو اہمیت نہیں دی اور نہ ان کی حمایت یا خوشامد کی بلکہ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ انھوں نے آمر حکمرانوں کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا تھا مگر جنرل ضیا الحق نے شکار پور آمد پر اپنے پروگرام میں نہ آنے پر پی پی کے چیئرمین کے خلاف کارروائی تک نہیں کی تھی۔ اصل بات وقت پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہے خواہ وہ جماعتی ہوں یا غیر جماعتی۔ انتخابات کے بعد ہر بلدیاتی عہدیدار حکومت سے زیادہ اپنی جماعت کا وفادار ہوتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل