Loading
بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے متفقہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہے اور اس کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی اقدامات بلکہ پارلیمانی تعاون، مالی نگرانی اور اجتماعی عزم کی ضرورت ہے۔ دو روزہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی جب کہ اسلام آباد اعلامیہ متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ دنیا بھر کی پارلیمانوں کے اسپیکرز نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت امن، سلامتی اور ترقی کا اعادہ کیا۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں نمایاں ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
دنیا ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوئی ہے کہ دہشت گردی محض ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کی پارلیمانوں کے سربراہان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے محض عسکری یا سیکیورٹی اقدامات کافی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر پارلیمانی تعاون، مالیاتی نگرانی، سیاسی عزم اور عوامی شمولیت ناگزیر ہے۔ یہ نقطہ نظر اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں لاکھوں انسانی جانیں نگلیں، وہیں اقوام عالم کے سماجی و معاشی ڈھانچوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ایسے میں اگر عالمی پارلیمانیں مل کر کوئی لائحہ عمل طے کرتی ہیں تو یہ یقیناً ایک مثبت سمت میں قدم ہوگا۔
اسلام آباد اعلامیے کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں یعنی امن، سلامتی، ترقی اور باہمی احترام کے عزم کو دہرایا۔ اس عزم کی تجدید محض علامتی نہیں بلکہ عملی معنوں میں اس وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ عالمی منظر نامے میں طاقت کے توازن، علاقائی تنازعات اور مفاداتی جنگوں نے دہشت گردی کے بیجوں کو مزید زرخیز زمین فراہم کر دی ہے، اگر عالمی پارلیمانیں اجتماعی طور پر یہ طے کر لیں کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں انتہا پسندی کے بیانیے کو روکنے کے لیے قانون سازی کریں گی، نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی کے خلاف متحدہ موقف اپنائیں گی، تو دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک نئی سمت اختیار کر سکتی ہے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ بات محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک فکری حقیقت ہے۔ دہشت گردی ہمیشہ اس خلا میں جنم لیتی ہے جہاں انصاف کمزور، معیشت غیر متوازن اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہزاروں شہری، سیکیورٹی اہلکار، طلبا، علما اور سیاست دان دہشت گردی کا نشانہ بنے، مگر قوم نے اپنے حوصلے پست نہیں کیے۔ آج اگر پاکستان خطے میں نسبتاً امن کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو اس کے پیچھے انھی قربانیوں کی داستان پوشیدہ ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اسلام آباد اعلامیے میں دہشت گردی کے مالی پہلوؤں پر خاص زور دیا گیا۔ ماضی میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو مالی معاونت روکنے کے حوالے سے عالمی سطح پر کئی قراردادیں منظور کی گئیں، لیکن ان پر عملدرآمد ہمیشہ ناکافی رہا۔ بعض بڑی طاقتوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر مخصوص گروہوں کو نظر انداز کیا یا ان کے مالی ذرائع بند کرنے سے گریز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی کی مالیات کا نظام عالمی منڈیوں میں کہیں نہ کہیں سے سانس لیتا رہا، اگر اب واقعی پارلیمانی سطح پر مالی نگرانی کے نئے ضابطے طے کیے جائیں اور بین الاقوامی بینکنگ سسٹم میں شفافیت بڑھائی جائے تو دہشت گردی کی جڑیں کمزور کی جا سکتی ہیں۔
بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس میں شریک ممالک کے بیانات اور تجاویز نے اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ محض عسکری حل پر انحصار سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جب تک معاشرتی انصاف، اقتصادی برابری، تعلیم، اور سماجی شمولیت کو فروغ نہیں دیا جاتا، دہشت گردی کا بیانیہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں عالمی پارلیمانی تعاون کے فروغ پر زور دیا گیا۔
یہ تصور نیا نہیں، لیکن آج کے دور میں اس کی افادیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پارلیمانیں عوامی نمایندہ ادارے ہیں، اور ان کے ذریعے عوامی رائے کو عالمی پالیسیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا بھر کے اسپیکرز اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی قانون ساز اسمبلیوں کے ذریعے دہشت گردی کے بیانیے کو کمزور کریں گے، تو اس سے عالمی رائے عامہ کو ایک نیا رخ مل سکتا ہے۔دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت اور زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے جب عالمی طاقتیں اسے اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرنے لگی ہیں۔ کسی جگہ اسے آزادی کی جدوجہد کہا جاتا ہے، تو کہیں دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ اس دوہرے معیار نے عالمی امن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر، جیسا کہ اسلام آباد اعلامیہ میں تجویز کیا گیا، ایک جامع اور غیر جانبدار تعریف طے کر لی جائے کہ دہشت گردی ہے کیا، تو بہت سے ابہامات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
پاکستان کا کردار اس سلسلے میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک ایسے ملک کے طور پر جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کیا، پاکستان کی رائے اور تجربہ عالمی سطح پر قیمتی اثاثہ ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عسکری محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں بلکہ اس نے علاقائی استحکام کے لیے بھی سنجیدہ سفارت کاری کی۔
افغانستان سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک پاکستان نے ہمیشہ یہ مؤقف اپنایا کہ امن مذاکرات کے بغیر پائیدار حل ممکن نہیں۔ یہی پیغام اب بین الپارلیمانی پلیٹ فارم سے دنیا کے سامنے آیا ہے کہ مذاکرات، تعاون اور مشترکہ عزم کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ خواب ہی رہے گا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفادات کی سیاست ہے۔اسلام آباد اعلامیہ میں جو الفاظ ’’ اجتماعی عزم‘‘ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں، وہ بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں مگر ان کے اندر ایک بڑی سیاسی بصیرت چھپی ہوئی ہے۔ یہ عزم صرف حکومتوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہونا چاہیے۔
پارلیمانوں کے ذریعے عوامی شعور کو بیدار کرنا، نوجوان نسل کو شدت پسندی کے بیانیے سے محفوظ رکھنا اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کو فروغ دینا ہی وہ اقدامات ہیں جن سے حقیقی تبدیلی ممکن ہے۔پاکستان کے لیے یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اس نے اسلام آباد کو ایک بار پھر عالمی سفارت کاری کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ ایسے وقت میں جب دنیا مختلف تنازعات میں الجھی ہوئی ہے، پاکستان کا امن کا پیغام اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا مؤقف عالمی برادری کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ملک نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ چکا ہے بلکہ وہ اب امن کے فروغ کے عالمی ایجنڈے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اور پہلو جو اسلام آباد اعلامیہ میں زیرِ بحث آیا، وہ سائبر دہشت گردی ہے۔ جدید دنیا میں دہشت گردی اب محض ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معلومات اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پھیلائی جا رہی ہے۔
جھوٹی خبریں، نفرت انگیز مہمات اور آن لائن بھرتی کے نیٹ ورکس نئے خطرات ہیں جن کا مقابلہ صرف ٹیکنالوجیکل تعاون سے ممکن ہے، اگر پارلیمانیں اس پہلو پر قانون سازی کریں اور عالمی سطح پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ضابطے متعین کیے جائیں تو دہشت گردی کے نئے روپوں کا بروقت سدباب کیا جا سکتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بجا ہے کہ اسلام آباد اعلامیہ محض ایک کاغذی معاہدہ نہیں بلکہ یہ ایک فکری سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب اصل امتحان اس کے عملی نفاذ کا ہے۔ ہر ملک کو اپنی پارلیمان میں یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اس عالمی عزم کو اپنی داخلی پالیسیوں میں کس طرح سموئے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض گولی سے نہیں جیتی جا سکتی، اسے تعلیم، انصاف، معاشی مساوات اور سیاسی شفافیت سے جیتا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی پارلیمانیں اس حقیقت کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق اقدامات کریں تو وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کے سائے سے آزاد دنیا کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
اسلام آباد کی فضا میں گونجنے والا یہ عالمی پیغام دراصل ایک امید ہے، امید اس بات کی کہ دنیا کے رہنما اب ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کے لیے ایک پُرامن راستہ اختیار کرنے پر تیار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں اس عالمی جدوجہد کی بنیاد ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ امن کی راہ پاکستان سے گزر کر ہی جاتی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل