Loading
ملک کی تاریخ میں پہلی بار بانی پی ٹی آئی کو ایک ایسا ذہنی مریض قرار دیا گیا ہے جس کا آئے دن جاری ہونے والا بیانیہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ فوجی ترجمان کے مطابق وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں، توکچھ نہیں۔ اس کے نزدیک اس کی ذات اور خواہشات ریاست پاکستان سے بڑھ کر ہے اور وہ اپنے بیانات کے ذریعے فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بانی کے اپنے بیانات کی وجہ سے ایک ایسا سخت موقف سامنے آیا جو ماضی میں کبھی کسی سیاسی جماعت کے رہنما کے خلاف نہیں اپنایا گیا۔ ایک اینکرکے سوال کے جواب میں فوجی ترجمان کا کہنا درست ہے کہ موجودہ فوجی قیادت کا ماضی کی فوجی قیادت کے اقدامات سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ سیاست میں ملوث ہے مگر بعض عناصر فوج کو سیاست میں ملوث کرنا چاہتے ہیں مگر فوج ایسا نہیں کر سکتی، کیونکہ فوج کی مکمل توجہ سرحدی صورت حال کے باعث اپنے ملکی دفاعی معاملات پر مرکوز ہے مگر کسی کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ کوئی عوام کو فوج کے خلاف بھڑکائے۔
وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے سینیٹ میں ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی سے بات کرنے کو تیار ہے مگر وہ ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں اور وہ جن سے بات کرنا چاہتے ہیں وہ راضی نہیں ہیں۔ رانا ثنا اللہ سمیت حکومتی رہنما واضح کرتے رہتے ہیں کہ حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا اور اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آغاز ہوا بھی تھا جو بانی نے خود رکوا دیا تھا، کیونکہ بانی حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے بیانات دیتے رہے ہیں تو حکومت کیا کر سکتی ہے؟
پی ٹی آئی کے بانی جس طرح کے بیانات دیتے آ رہے ہیں اس کے برعکس بیرسٹر گوہر دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ کبھی ملک دشمن رہا اور نہ ہی ہوگا۔ پاکستان ہمارا، فوج بھی ہماری ہے سب کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔ پی ٹی آئی کے جیل میں قید بانی نے بیرسٹر گوہر کو پی ٹی آئی کا چیئرمین بنا رکھا ہے جو پی ٹی آئی کی پالیسی بیان کر رہے ہیں۔
بانی کا بیانیہ ہمیشہ اس کے برعکس چلا آ رہا ہے اور ان کا نشانہ ریاستی ادارے ہیں مگر بانی باز نہیں آ رہے اور انھوں نے مسلسل عوام کوریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ بانی کی منافقت یہ ہے کہ وہ سیاسی حکومت سے مذاکرات نہیں چاہتے ہیں اور ریاستی اداروں پر مسلسل تنقید انھوں نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔
بانی اپنے دشمن بیانیوں سے باز نہیں آ رہے جس کی وجہ سے فوجی ترجمان کو انھیں ذہنی مریض قرار دینا پڑا جو درست ہے کیونکہ کوئی بھی صحیح الدماغ سیاسی رہنما ایسے بیانات نہیں دیتا اور نہ ہی درست دماغ رکھنے والے کسی سیاسی رہنما نے دیا ہے جیسے بیانات بانی پی ٹی آئی مسلسل دے رہے ہیں مگر پی ٹی آئی نے سرکاری طور پر کبھی ایسا متنازعہ بیان نہیں دیا اور بیرسٹر گوہر کا کہنا درست ہے مگر وہ اپنے بانی کو ایسے متنازعہ بیانات جاری کرنے سے روکنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے اور نہ چیئرمین ہوتے ہوئے وہ پی ٹی آئی کے بیرون ملک سے آپریٹ کیے جانے والے سوشل میڈیا کے ملک دشمن اور مذموم گمراہ کن پروپیگنڈے کو روک سکے جو ان کے اختیار میں نہیں ہے، کیونکہ بانی خود یہ پروپیگنڈا کروا رہے ہیں تو کوئی بھی دوسرا سوشل میڈیا کو کیسے روک سکتا ہے؟
پاکستان میں نواز شریف کی تین اور بے نظیر کی دو حکومتیں ختم کی گئیں۔ دونوں کو جیلوں میں رکھا گیا، دونوں پر بے انتہا مظالم ہوئے، نواز شریف کی اپنی جاں مرگ شدید بیمار اہلیہ سے آخری گفتگو بانی نے نہیں ہونے دی تھی مگر بانی کو اپنی اہلیہ سے جیل میں ملوایا جاتا ہے اور بیرون ملک دونوں بیٹوں سے فون پر بات کرائی جاتی ہے۔
انھیں جیل میں من پسند خوراک کی سہولت حاصل ہے۔ وہ کئی بیرکوں پر مشتمل قید خانے میں ورزش بھی کرتے ہیں، ان کی بہنیں اور وکلا کی ملاقات ان کی جیل میں سیاست کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں وہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو اپنا مواد فراہم اور ریاستی اداروں کے خلاف مذموم مہم چلوا رہے ہیں۔ قید میں کسی عام قیدی کو تو کیا کسی بڑے سیاسی رہنما کو بھی وہ سہولتیں حاصل نہیں رہیں جو بانی کو حاصل ہیں۔
انھوں نے اپنے آئینی برطرف کیے جانے کو مختلف رنگ دیے، کبھی امریکا پر، کبھی ریاستی اداروںکو برطرفی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ حصول اقتدار کی اندھی خواہش کے لیے 9 مئی جیسا سانحہ رونما کرایا جس کے ثبوت موجود ہیں جس پر وہ معافی مانگنے کو تیار نہیں ہیں۔
کوئی عقل مند سیاستدان کبھی اپنی پنجاب و کے پی کی حکومتوں ختم نہیں کراتا، مگر پارٹی کی مخالفت کے باوجود اسمبلیاں تڑوائیں اور اب اپنے وفادار وزیر اعلیٰ کے پی کو فارغ کیا جو ان کی رہائی کے لیے کوشاں تھا۔ کوئی بھی عقل مند سیاسی رہنما اپنی پارٹی کی بجائے کسی دوسری پارٹی کے واحد رکن کو اپوزیشن لیڈر کبھی نہیں بنائے گا مگر فارغ الدماغ اور ذہنی مریض نے ہر وہ کام کیا جو اب تک کسی سیاسی رہنما نے نہیں کیا۔ ہر عقل مند اور سیاسی شعور رکھنے والا سیاستدان اپنے معاملات بگاڑتا نہیں بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی بھی رہائی و ذاتی مفاد کے لیے نہیں کہہ سکتا کہ مجھے ہٹانے کی بجائے ملک پر ایٹم بم مار دیا جاتا۔ کیا کوئی ذی ہوش ایسا کر سکتا ہے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل