Loading
پاکستان کی سات دہائیوں سے زائد عرصے پر مشتمل تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا، غلطیوں کے ازالے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، واقعہ وقوع پذیر ہونے کے بعد ہوش کی انگڑائی لی تو معلوم ہوا کہ پانی تو سر سے گزر چکا ہے۔
اب ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پھر یہ ضرب المثل یاد آتی ہے کہ ’’اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘ پاکستان کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب ملک کی سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے درمیان اعتبار و اعتماد کی فقدان پیدا ہوا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصانات اٹھانا پڑے۔ جمہوریت کی ٹرین بار بار پٹری سے اترتی رہی اور ملک مارشل لا کے اندھیروں میں آئین و قانون کی حکمرانی کو ترستا رہا۔ باہمی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دولخت ہو گیا۔
آج اس دل خراش سانحے کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا۔ ہم ہر سال 16 دسمبر کو سقوط بنگال کو یاد کرکے واقعات کو دہراتے ہیں لیکن آج تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا۔ قائد اعظم کے پاکستان کو دولخت کرنے کا اصل ذمے دار کون ہے، نہ پس پردہ کرداروں کو کبھی بے نقاب کیا جا سکا نہ انھیں احتساب کے عمل سے گزارا گیا نہ سزائیں دی گئیں۔ بات صرف نشستند، گفتند و برخاستند تک محدود رہی اور نتیجہ صفر رہا اور سب پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہے اور نظام چلتا رہا۔
آج بھی نظام کا یہ تسلسل قائم ہے اور اس کی جزئیات میں مائنس پلس کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور سیکیورٹی رسک کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں اور غداری و ملک دشمن ہونے کے نعرے بھی بلند ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آج کے مائنس کل پلس ہو جاتے ہیں۔
کل کے ملک دشمن آج کے محب وطن بن جاتے ہیں اور ماضی کے غدار مستقبل کے جزو لاینفک قرار پاتے ہیں۔ آج کا قومی منظرنامہ ہمارے ’’شان دار‘‘ ماضی کی بخوبی عکاسی کر رہا ہے۔فوجی ترجمان بار بار کہہ رہے ہیں کہ پاک فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کورٹ مارشل کے ذریعے 14 سال قید کی جو سزا سنائی گئی ہے اور ان پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں پہلا الزام ہی ان کا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا بتایا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع کی گئی تھی اور 15 ماہ تک کارروائی چلتی رہی اور انھیں 11 دسمبر 2025 کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق جنرل فیض حمید پر چار الزامات ثابت ہوئے جن میں سب سے پہلا الزام سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، دوسرا الزام آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، تیسرا الزام اختیارات اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال ہے جب کہ چوتھا الزام ہے کہ انھوں نے بعض افراد کو نقصان پہنچایا۔ پریس ریلیز کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی تعمیل کی اور ملزم کو دفاعی ٹیم سمیت تمام حقوق دیے گئے۔ فوجی ترجمان کے بیان میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ فیض حمید کے خلاف سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت، سیاسی افراتفری اور عدم استحکام پیدا کرنے اور دیگر معاملات کو علیحدہ دیکھا جا رہا ہے۔جنرل فیض حمید کی کورٹ مارشل سزا پر ملک کے سیاسی، صحافتی، حکومتی اور عوامی حلقوں میں بحث و مباحث کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کی سزا تاریخی فیصلہ ہے اور واضح پیغام بھی کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں، فیصلے سے طاقت کے غلط استعمال اور سیاسی مداخلت کے دروازے بند ہوں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ فیض حمید کے خلاف مزید مقدمات قائم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے فیض حمید کی سزا کو فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ بعض حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کا ساتھ دینے والے سیاستدانوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہیے۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا 9 مئی کے واقعات میں جس طرح پی ٹی آئی کے ملوث ہونے کی بازگشت سنائی دیتی ہے تو پس پردہ فیض حمید کو بھی ان واقعات سے منسلک کرکے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کے امکانات ہیں؟ ایسے بہت سے سوالات اٹھائے جانے اور بحث و مباحث کا سلسلہ تادیر جاری رہے گا۔ کیا حکومتی وزرا اپنے آج کے بیانات پر کل بھی قائم رہ سکیں گے؟ کیا مائنس پلس کی یہ آخری بازی ہے؟ کیا غدار، ملک دشمن اور سیکیورٹی رسک قرار دینے کا سلسلہ آیندہ رک جائے گا؟
وقت کا مورخ تاریخ لکھ رہا ہے، فیصلہ آنے والا وقت کرے گا کہ نیا منظرنامہ کیسا ہوگا؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل