Loading
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ15برس سے 35برس کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ اس طبقہ میں پڑھے لکھے افراد ہوں یا ناخواندہ ، سب میں مستقبل کے تناظر میں بے چینی اور مایوسی کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔وجہ یہ نہیں کہ یہ نسل صلاحیت یا کام کرنے کا شوق نہیں رکھتی یا ان میں صلاحیت کا فقدان ہے۔اصل مسئلہ اس نئی نسل کے لیے آگے بڑھنے کے محدود امکانات ہیں ۔کیونکہ یہ ہی نسل جب پاکستان سے باہر جاتی ہے چاہے وہ پڑھے لکھے ہوں یا ناخواندہ باہر کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت کچھ بہتر کرکے دکھاتی ہے ۔
جن کو کام نہیں آتا وہ بھی باہر کی دنیا میں وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھ کر بہتر معاشی حیثیت میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن موجودہ حکومتی نظام میں جہاں معاشی اور میرٹ میں استحصال کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں، اس نے بھی پڑھی لکھی مڈل کلاس کے لیے معاشی امکانات کو محدود کیا ہے۔کیونکہ جہاں آئین، قانون اور میرٹ کی حکمرانی کے مقابلے میں تعلقات،رشتہ داریاں اور سیاسی و سماجی اقرباپروری یا کرپشن کی سیاست عروج پر ہو وہاں پڑھی لکھی نئی نسل کا استحصال کا ہونا یا ان کو پیچھے کی طرف دھکیلنا فطری امر ہوتا ہے۔
اسی بنیاد پر پاکستان میں نئی نسل کے لوگ ملک چھوڑ کر باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان میں پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ہیں جو یہاں کے حالات سے مایوس ہوکر باہر جانا چاہتے ہیں ۔یہ بات پیش نظر رہے کہ مسئلہ محض باہر جانے کی خواہش تک محدود نہیں بلکہ اب اپنے مستقبل کی بہتری کی تلاش ان کی ذاتی مجبوری بن گئی ہے۔اگر اس نسل کو اسی ملک میں کام کرنے کے بہتر اور مناسب مواقع یا بہتر سازگار حالات ملیں تو وہ یقینی طور پر یہاں رہنے کو بھی ترجیح دیں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں نام نہاد اور جھوٹ پر مبنی معاشی اعداد وشمار یا باہر سے ملنے والی عالمی امداد کی بنیاد پر اپنا معاشی نظام چلانے کی کوشش ہو رہی ہے ، داخلی معیشت کی مضبوطی کے لیے کوئی روڈ میپ موجود نہیں ،وہاں مایوسی پھیلتی ہے۔معیشت کی بہتری کے دعوے اپنی جگہ مگر جو معاشی حقایق داخلی اور عالمی سطح کی معاشی رپورٹس ہمیں پاکستان کے تناظر میں دکھا رہی ہیں یا بے روزگاری اور عدم معاشی تحفظ کی جو کہانی ہے وہ کافی تلخ بھی ہے اور بطور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں جھنجھوڑتی بھی ہیں کہ ہم معاشی بنیادوں پر کہاں جا رہے ہیں اور ہمارا بالخصوص نئی نسل کا معاشی مستقبل کیا ہے۔
اسی بنیاد پر پاکستانی نوجوانوں میں یہ کڑوا سچ سامنے آرہا ہے کہ ہماری صلاحیت اور قابلیت کا ہونا اپنی جگہ مگر اس حکمرانی کے نظام میں ہماری بہتری کی سیاسی اور معاشی گنجائش بہت کم ہے۔ایک ایسی ریاست جہاں تو ہمیں نئی بڑی اور چھوٹی صنعتوں کا جال نظر آتا ہے اور نہ ہی داخلی اور خارجی سرمایہ کاری کا کامیاب ماحول موجود ہے تو ایسے میں معاشی سطح پر نئے امکانات کو پیدا کرنا کیسے ممکن ہوگا۔ایک طرف کارپوریٹ سیکٹر یا کاروباری طبقہ نئے معاشی امکانات کو پیدا کررہا ہے تو دوسری طرف گلہ بھی نئی نسل سے کیا جارہا ہے کہ ان میں مارکیٹ اور معیشت کے تناظر میں آج کی جدید صلاحیتوں کا فقدان ہے جو ان کو روزگار کی بجائے بے روزگاری یا معاشی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہا ہے ۔اگر یہ منطق مان لی جائے تو اس کا قصور اور ذمے دار بھی تعلیمی نظام ہے جو نئی نسل میں تعلیم اور مارکیٹ کی بنیاد پر ایسی صلاحیتیں پیدا نہیں کررہا جو ان کی معاشی روزگار کے تناظر میں اہمیت رکھتی ہیں۔
اسی طرح کارپوریٹ یاکاروباری طبقہ کا گلہ اپنی جگہ مگر کیا وہ یہ بتانا پسند کرے گا کہ اس نے تعلیمی اداروں کے ساتھ اپنے کارپوریٹ تعلقات کو کیونکر بہتر نہیں بنایا یا اس شعبہ میں کیونکر سرمایہ کاری نہیں کی۔الزامات اور کسی کو ذمے دار قرار دیناآسان ہوتا ہے مگر مسائل کے حل میں حکومت اور کارپوریٹ طبقہ نے خود کیا کچھ بہتر کیا اس کا جواب کون دے گا۔پھر اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جائے کہ جس نسل کو ہم طعنہ دیتے ہیں کہ ان میں صلاحیتوں کا اور محنت یا سیکھنے کا فقدان ہے یہ باہر کی دنیا میں جاکر کیونکر اپنے لیے بہتر مواقع تلاش کرلیتے ہیں ۔اصل مسئلہ نئی نسل کے لیے آگے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول ہے جب کہ ہم ایک بہتر معاشی یا سیاسی ماحول ہی پیدا نہیں کرسکے جو ان کو آگے بڑھنے کے مواقع دے سکے۔البتہ اس کے مقابلے میں حکمرانوں کے پاس ایسے خیراتی منصوبوں کی شکلیں ہیں جن کی بنیاد پر اس نئی نسل کی غربت کا مذاق اڑانا یا ان کی تضحیک کرنا ہے ۔حکمران طبقہ کیونکر نہیں تعلیمی اداروں کو ایک ایسی شکل میں ڈھال سکا جو معاشی ضرورت کے زمرے میں آتا ہے اور ناکامی کا ملبہ بھی نئی نسل کے مقابلے میںحکمران طبقہ پر آتا ہے جو ان مسائل کے حل میں غفلت کا شکار ہوا ہے۔
اسی طرح جہاں معاشی مسائل کا طوفان ہے وہیں اس نئی نسل کو دیگر محاذوں پر بھی مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔کیونکہ معاشی مسائل کو محض سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو حکمرانی کے مجموعی نظام کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا ہوگا۔یہ جو ہم اس نسل کے بنیادی حقوق جن میں تعلیم اور صحت کا مہنگا ہونا ،ریاستی اداروں کی نجکاری اور ریاست کا حکومتی اداروں سے خود کو علیحدہ کرنا، ان کی سیاسی اور سماجی آوازوں کو دبانا، سیاسی حقوق کو تسلیم نہ کرنا ،ووٹ کی بنیاد پر ان کی رائے کو تسلیم نہ کرنا یا اہمیت نہ دینا،میرٹ کا خاتمہ، ان کی حکومت کے نظام کے بارے میں تنقید اور متبادل آوازوں کو طاقت سے دبانا، ڈرانا، دھمکانا،تشدد کرنا ،تفریح کے مواقعوں کی کمی،ملنے والے روزگار میں عدم تحفظ اور معاشی ناہمواریاں، سیاسی اور سماجی گھٹن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انتہا پسندی یا پرتشدد رجحانات ،گھروں کی سطح پر معاشی دباؤ، قانون اور انصاف کی فراہمی یا کمزور عدالتی نظام، بیوروکریسی کے سرخ فیتے کا ہونا ،حکومت کا عام آدمی کے مسائل سے لاتعلقی جیسے مسائل میں یہ نئی نسل کیسے آگے بڑھ سکے گی اور کیسے اس سماج میں خود کو سیاسی و معاشی طور پر تحفظ دے سکے گی اس پر بھی کوئی سوچے، محض نئی نسل پر طعنوں سے کوئی بھلا نہیں ہوسکے گا بلکہ اس کا نتیجہ نئی نسل اور حکومت کے درمیان پہلے سے موجود تلخیوں کو اور زیادہ بڑھانے کا سبب بنے گا۔
نئی نسل کے نام پر سیاست یا جذباتیت کو پیدا کرنا آسان ہوتا ہے مگر ٹھوس اور عملی بنیادوں پر ان کے لیے واضح حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا ہونا اولین ضرورت ہے ۔مگر حکومتی ترجیحات عام آدمی یا نئی نسل کے مسائل سے مختلف ہے اور وہ ذاتی مفادات کی سیاست یا ترجیحات میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ اس کی بھاری قیمت حکومت اور عوام کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری نئی نسل ماضی کی نسل سے بالکل مختلف ہے اور اس کے پاس آج کی دنیا میں جدید ترقی یا ابلاغ کے ماڈل ہیں جہاں وہ کھل کر اپنا ردعمل دے رہی ہے ۔
اس لیے ان کی اپنی آوازوں کو دبانا آسان نہیں رہا اور ان میں ردعمل کی سیاست کا پیدا ہونا بھی ایک فطری امر ہے۔ جب اس ملک کی اشرافیہ یہ سوال اٹھاتی ہے کہ ہماری نئی نسل کیونکر بددلی یا وطن سے دوری کا سوچتی ہے یا کیونکر ان میں منفی ردعمل پایا جاتا ہے تو اس کا اسی اشرافیہ کو تجزیہ کرنا چاہیے کہ وہ کونسی وجوہات یا محرکات ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔اس لیے اس نظام سے نئی نسل کا اعتماد کمزور ہونا کوئی اچھی مثال نہیں اور نہ ہی یہ کوئی فخر کی بات ہے۔ حکومت میں شامل فیصلہ ساز افراد یا اداروں کو خود ہی اپنا احتساب کرنا ہوگا اور اپنی ترجیحات کو بدل کر اسے نئی نسل کے مسائل اور مفادات کے ساتھ جوڑ کر ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔اسی میں ریاست اور حکمرانی کے نظام کا مفاد بھی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل