Loading
دو دھاری تلوار سوشل میڈیا کی پہلی، دوسری اور تیسری قسط میں معاشی طور پر بدحال اور دیوالیہ پن سے بچنے کی جدوجہد میں مصروف ریاست پاکستان کے ساتھ دشمنی اور نوجوانوں کے جذبات ابھار کر بغاوت پر اکسانے میں سوشل میڈیا کے لشکریوں کے کردار، اس کے مضمرات اور اس سے بچنے کی تدابیر پر بات کی تو مجھے تین قسم کے رسپانس ملے، پہلی قسم کے لوگوں نے بہت پسند کیا، دوسری قسم کے لوگوں نے کہا کہ اس موضوع پر آپ کے کالم پڑھ کر ہمارے نقطہ نظر میں تبدیلی آئی کہ وی لاگز ہمارے ذہنوں پرکیسے اثر انداز ہوتے ہیں، ہم نے اس کے اثرات کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ سوچ کے زاویے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ تیسری قسم گالم گلوچ برگیڈ اور ان کے چاہنے والوں کی تھی۔ گالم گلوچ بریگیڈ کے چند لشکریوں اور ان کے چاہنے والوں نے اپنے ذہن کے گند سے بھرے بدبودار ای میلز سے اپنی خبط باطن کو ظاہر کیا اور میں نے سب کو ایک ہی ٹیلر میڈ جواب دیا کہ’’آپ کو جانتا تو نہیں لیکن آپ کی شخصیت اور پس منظر سمجھنے کے لیے آپ کا یہ غلیظ اور بدبودار ای میل کافی ہے۔ آپ کو منتقم اﷲ کے حوالے کرتا ہوں۔ انشاء اﷲ حشر کے میدان میں ملاقات ہوگی تو لگ پتا جائے گا۔ جزاک اﷲ‘‘۔ اپنے آرٹیکل پر تبدیلی کے قارئین کے ردعمل میں آئی ای میلز پڑھتا سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی میڈیا جب چاہے خبر اچھال کر رائی کو پہاڑ اور جب چاہے خبر دبا کر پہاڑ کو رائی میں بدلنے پر قادر ہیں؟ اسی دوران میری نظر میز پر رکھی ملک کے معروف صحافی مہتاب عباسی کی کتاب ’’میرے احباب‘‘ پر پڑی۔ کتاب اٹھائی اور درمیان سے کتاب کھولی تو ایک مضمون نکل آیا۔ جو ایک ٹی وی ٹاک شو میں میزبان کے سوال اور سینئر صحافی عباس اطہر (شاہ جی مرحوم) کے جواب پر تھا۔ شاہ جی کے نام پر نظر پڑی تو آنکھیں نم ہوگئیں اور بے اختیار پڑھنا شروع کیا، اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے میں شاید کوئی ایسا شخص خاص کر اخبار پڑھنے والا شخص ہو جو معروف صحافی اور روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر (شاہ جی) مرحوم کے نام سے واقف نہ ہو۔ میرا تو ان سے بہت قریبی تعلق تھا اور زندگی کے کئی سال ساتھ گزرے۔ اس تحریر کا خلاصہ بیان کرتا ہوں ،جو کچھ یوں ہے، گزشتہ شب حسب معمول ٹی وی چینلز چیک کر رہا تھا کہ پی ٹی وی کے پروگرام ’’فیکٹ شیٹ‘‘ کے میزبان اور مہمان حالات حاضرہ پر تبصرے کے لیے موجود تھے مہمانوں میں معروف صحافی عباس اطہر شریک تھے۔ دراصل اس پروگرام کی جس بات نے مجھے آج کا کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ میزبان کا ایک سوال تھا جو انھوں نے محترم عباس اطہر شاہ جی مرحوم سے کیا تھا۔ عباس اطہر ایک بہت بڑے سینئر صحافی ہیں۔ میزبان ایک خاتون کے قتل کیس کے افسوسناک واقعہ کے حوالے سے بات کر رہے تھے جس میں مبینہ طور پر ایک وکیل ملوث تھے۔ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے موقع پر وکلاء نے صحافیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ میزبان کا سوال عباس اطہر سے یہ تھا کہ وکلاء کی صحافیوں سے زیادتی کو ’’رول آف لاء سمجھیں یا رول آف لائر سمجھیں‘‘۔ عباس اطہر کا کہنا تھا کہ ’’اب یہ تو میڈیا کو بھگتنا ہی پڑے گا کیونکہ میڈیا نے ہی وکلاء کی تحریک کو جلا بخشی تھی۔ کیمرے کی آنکھ نے وکلاء کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ تھوڑے سے لوگوں کو بہت بڑا اجتماع بنا کر پیش کرنے سے تحریک میں جان پڑتی گئی اور عوامی تائید و حمایت میں اضافہ ہوا۔ اس تحریک کی کامیابی میں میڈیا کا کردار ڈھکا چھپا نہیں، بلا شبہ اگر میڈیا اپنا کردار ادا نہ کرتا تو تحریک کو کامیابی نہ ملتی۔ ‘‘ یہ بات ایک بہت بڑے اور معروف صحافی عباس اطہر (شاہ جی) مرحوم اس وقت کر رہے تھے تو یقیناً سچ ہی کہہ رہے ہوںگے۔ ملک کے ایک نامور صحافی کے قلم سے ایک بہت بڑے صحافی کا تبصرہ پڑھ کر میں تو پریشان ہو گیا کہ وکلاء تحریک اتنی بڑی نہیں تھی جتنا کہ بڑھاچڑھا کر اس کو پیش کیا جاتا رہا اور رائے عامہ کو اس تحریک کے لیے ہموار کیا جاتا رہا۔ یہ بات مسلمہ اور میڈیا سے وابستہ افراد اس سے بخوبی واقف ہیں کہ میڈیا معاملات کو بنانے اور بگاڑنے پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر شاہ جی کے تبصرے اور تجزیے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی، اگر چہ پانی سر سے گزر چکا ہے مگر پوری میڈیا کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کتاب میں مزید لکھا گیاہے کہ’’اس ملک میں آج تک احتساب صرف سیاستدانوں اور بزنس مینوں کا ہی ہوا ہے اور آیندہ بھی یہی طبقے احتساب کے دائرہ میں آتے رہیں گے۔ لیکن بڑے بڑے جرنلسٹوں، وکلاء، ججز اور جرنیلوں کا احتساب ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر ملک کے ان چاروں بڑے طبقات کو بھی احتساب کے دائرے میں لایا جائے تو یقین جانئے اس سے ملک و قوم کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ہمارے ہاں تمام شعبہ ہائے زندگی میں احتساب کا رواج ہوتا تو ہم معاشرتی بگاڑ کے موجودہ ماحول سے دوچار نہ ہوتے‘‘۔ صاحب کتاب مزید لکھتے ہیں ’’لیکن موجودہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی موجودگی میں ایک امید کی کرن ضرور موجود ہے کیونکہ انھوں نے پاکستان کی تاریخ کے اہم مقدمات میں انصاف پر مبنی ایسے فیصلے دیئے ہیں جو ہماری عدالتی تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔ اس لیے میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ اسلام میں مایوسی گناہ ہے۔ پرامید ہوں کہ اب تمام فیصلے انصاف کے مطابق ہوں گے اور حقداروں کو انصاف ملے گا۔ ان الفاظ پر مجھے صاحب کتاب کی سادگی پر رشک آیا۔ بہرحال عباس اطہر صاحب (شاہ جی) مرحوم جیسے لیجنڈ کے الفاظ اور صاحب کتاب کے احساسات اور خیالات کا لب لباب یہ ہے کہ میڈیا نے وکلا تحریک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، آج تو سوشل میڈیا کسی چیز کو بڑھا نہیں رہا بلکہ جو چیز وجود ہی نہیں رکھتا، اسے حقیقت بنا کر پیش کررہا ہے، رائی کو پہاڑ بنا کر رائے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے اور جب چاہے ، خیر کو برائی سے تعبیر کردے، سوشل میڈیا کے لشکریوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے لشکریوں اور دانشوروں کے غلط سلط اور جھوٹے تبصروں، جھوٹی تاریخ اور غلط بیانی کے منفی اثرات ملک و ملت پر پڑنا اٹل ہے ۔ وکلاء تحریک کی کامیابی کے وکلاء ایک منہ زو قوت بن کر سامنے آئے، وکلا خصوصاً نوجوان وکلا کے ذہنوں میں یہ تاثر پختہ ہوا کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اکثر اوقات وکلاء قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی کوشش میں کبھی پولیس پر حملے، کبھی ڈاکٹروں پر حملے،کبھی جج صاحبان سے بد تمیزی، کبھی صحافیوں سے بدتمیزی۔ آج معاشرے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں رہا جو خود کو قانون کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے صحافیوں اور معاشرے کے تمام طبقوں کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے لیے خود ایک ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا جس کا منبع اور مرکز ہمارا دین اور کلمہ طیبہ کے نام پر بنا پاکستان اور اس کی سالمیت ہو، ورنہ ہمارا نام و نشان جھوٹ اور بہتان تراشیوں کے طوفان میں غرق ہوجائے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل