Sunday, June 29, 2025
 

پاکستان اسپورٹس بورڈ نے باڈی بلڈنگ فیڈریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا

 



پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) نے "پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن" کے نام کے غیر قانونی استعمال پر ملک بھر کے وفاقی و صوبائی کھیلوں کے اداروں کو مراسلہ جاری کردیا۔ مراسلے میں تمام محکموں اور اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت دی گئی ہے کہ طارق پرویز اور اس کی خودساختہ تنظیم کی کسی بھی سرگرمی، فیصلے یا نوٹیفکیشن کو ہر سطح پر مسترد کیا جائے۔ پی ایس بی کی جانب سے جاری  خط میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کا آئین 2022 وفاقی حکومت (کابینہ) کی منظوری سے نافذ العمل ہے جس کے مطابق صرف وہی کھیلوں کی فیڈریشنز "قومی اسپورٹس فیڈریشنز" کہلا سکتی ہیں جو باضابطہ طور پر پی ایس بی سے الحاق شدہ ہوں۔ صرف ایسی تسلیم شدہ فیڈریشنز کو "پاکستان" کے نام کے استعمال اور بین الاقوامی مقابلوں میں قومی ٹیمیں بھیجنے کا قانونی اختیار حاصل ہے۔ خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک غیر تسلیم شدہ فرد، طارق پرویز، خود کو "پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن" کا صدر ظاہر کر رہا ہے اور غیر قانونی طور پر "پاکستان" کے نام کا استعمال کر رہا ہے، حالانکہ نہ یہ شخص اور نہ ہی اس کی تنظیم پی ایس بی کے ساتھ منسلک یا تسلیم شدہ ہے۔ پی ایس بی نے تمام اداروں، محکموں، اسپورٹس فیڈریشنز اور کھلاڑیوں کو ہدایت دی ہے کہ طارق پرویز کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی قسم کی خط و کتابت، فیصلے یا اعلانات کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جائے۔ ساتھ ہی خبردار کیا گیا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی اور "پاکستان" کے نام کے غلط استعمال پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ خط میں یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ تمام متعلقہ فریقین پی ایس بی کی ان ہدایات پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ کھیلوں کے نظام میں شفافیت اور قانونی دائرہ کار برقرار رکھا جا سکے۔ یہ مراسلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان ریلوے، واپڈا، افواج پاکستان (آرمی، نیوی، ایئر فورس)، پولیس، سروسز اسپورٹس کنٹرول بورڈ اور ملک بھر کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور اسلام آباد کے اسپورٹس بورڈز کو ارسال کیا گیا ہے۔ ترجمان پی ایس بی خرم شہزاد کے مطابق پاکستان اسپورٹس بورڈ کھیلوں کے شعبے میں نظم و نسق کو شفاف اور آئینی اصولوں کے تحت چلانے کے لیے پرعزم ہے اور کسی بھی قسم کے غیر قانونی دعوے یا گمراہ کن سرگرمی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل