Thursday, January 30, 2025
 

نانگا پربت ایک قاتل پہاڑ

 



ہم چار دوست اپنی موٹر سائیکلوں پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلے ہوئے تھے۔ صبح سویرے گوری کوٹ میں آنکھ کھلی تو ہوٹل کی بالکونی سے گوری کوٹ کا خوبصورت نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد گوری کورٹ سے نکلے تو آگے جا کر ایک راستہ چلم چوکی دیوسائی کی طرف جارہا تھا جبکہ دائیں ہاتھ والا راستہ ترشنگ روپل ویلی کی طرف جارہا تھا۔ دائیں ہاتھ مڑنے کے بعد ہم روپل نالہ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے۔ کچھ کلومیٹر سفر کرنے کے بعد اسفالٹ کی سڑک کی جگہ پتھر یلی سڑک نے لے لی تھی اور خشک پہاڑ ہمارے ساتھ تھے۔ ایک جگہ بورڈ نظر آیا جہاں سے بائیں ہاتھ ایک راستہ شونٹر پاس، رتو، کالا پانی درلے جھیل کی طرف جارہا تھا، یعنی اس راستہ سے تاؤ بٹ بالا کی طرف جایا جاسکتا ہے لیکن پيدل۔ ہماری منزل کیونکہ نانگا پربت بیس کیمپ تھا، اس لیے ہم ترشنگ اور روپل ویلی کی طرف چلتے گئے۔ جیسے ہی ایک پہاڑی کے ساتھ موڑ کاٹا تو ہمارے سامنے ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر آنکھ نے جھپکنا چھوڑ دیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ دنیا کی نویں بلند ترين چوٹی نانگا پربت شاید میں اس کے پورے وجود کو پہلی نظر میں برداشت نہ کرسکتا، اس لیے بادلوں کی اوٹ میں چھپ کر پوری ہیبت سے میرے سامنے موجود تھی اور ایک کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ راستہ مشکل اور لمبا ہوتا جارہا تھا لیکن عشق کا یہ سفر جاری تھا۔ ترشنگ گاؤں سے گزرتے ہوئے اردگرد کھیتوں میں لگے خوبصورت پھول اور دور نانگا پربت کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا ترشنگ گاؤں کے لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جن کی نظروں کے سامنے ہر وقت نانگا پربت موجود رہتا ہے اور انہوں نے اس عظیم پہاڑ کا ہر روپ دیکھ رکھا ہوگا۔ تر شنگ گاؤں سے نکلتے ہی روپل ویلی کے راستے پر پرتگال سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی پیدل نانگا پربت کی طرف جاتے ملے، جن کے ساتھ رک کر کچھ دیر گپ شپ کی اور تصویر بنائی۔ روپل ويلی جانے والا راستہ کچھ دیر بعد پتھریلا ہوچکا تھا اور راستہ کے اردگرد بہت سے کھیت تھے۔ اس راستے پر نانگا پربت بالکل غائب ہوجاتا ہے۔ راستے میں کچھ جگہ پر کافی سخت چڑھائیاں تھیں تو کچھ جگہ راستہ ہموار۔ ترشنگ سے ایک گھنٹے کی بائیک رائیڈ کے بعد ہم بیس کیمپ تک پہنچ چکے تھے، جس سے آگے بائیک پر جانا ناممکن تھا۔ یہاں پر کچھ کیمپ ہوٹل لگے ہوئے تھے جہاں پر بائیک پارک کی، جس کے چارجز سو روپے تھے۔ کیمپ والے سے پچاس روپے کرایہ پر ہائیكنگ چھڑی لی اور نانگا پربت بیس کیمپ کی طرف جانے والی پگڈنڈی کی راہ لی۔ شروع میں چڑھائی بہت زیادہ تھی اس لیے چھوٹے چھوٹے قدم چلتے ہوئے اوپر کی طرف سفر جاری رکھا۔ جیسے ہی اوپر جانے والی پگڈنڈی ختم ہوئی تو سب کے قدم رک گیے کیونکہ ابھی تک کوئی خاص نظارہ دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا اور آسمان پر گہرے کالے بادل گرجنے کے ساتھ ساتھ ہلكی سی بوندا باندی بھی ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر میں غیر ملکی دو مرد اور خاتون گزرے تو ان کے ساتھ بھی گپ شپ کی اور یادگار کے طور پر تصویر بنائی۔ یہاں سے آگے والے راستے پر چڑھائی نظر نہیں آرہی تھی بلکہ ایک پگڈنڈی میدان سے ہوتی ہوئی پہاڑی کے پیچھے جارہی تھی جہاں سے نانگا پربت کا اصل نظارہ نظر آنا تھا۔ وہ غیر ملکی سیاح جس راستے پر جارہے تھے وہاں راستے میں ایک جگہ رک کر فوٹو بناتے تو ہمیں بھی تجسس ہوا کہ دیکھیں تو سہی وہاں ہے کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا ایک مارموٹ اپنے بل سے باہر نکل کر سو رہا تھا۔ ہم سب گپ شپ کرتے ہوئے بیس كيمپ کی طرف چلتے رہے۔ جیسے ہی ہم نے پہاڑی کی اوٹ سے نانگا پربت کو دیکھا تو مبہوت ہوگئے۔ کیا خوبصورت نظارہ تھا۔ آسمان کی بلندی کو چھوتا ہوا بادلوں میں چھپا ہوا نانگا پربت ہمارے سامنے تھا۔ روپل فیس سے نانگا پربت تقریباً 4500 میٹر اٹھتا ہے اور بادلوں کو چیرتا ہو آسمان میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ دیوار تمام آٹھ ہزاری چوٹیوں میں سے بلند ہے، کے ٹو اور ایورسٹ سے بھی بلند۔ رب ذوالجلال اس کا حسن قائم رکھے یہاں سے اوپر چڑھنے کی کی جرأت گنے چنے لوگ ہی کرتے ہیں۔ نانگا پربت دنیا کا نواں سب سے بڑا پہاڑ اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی بھی ہے۔ یہ پہاڑ ہمالیہ سلسلے میں واقع ہے۔ اس کی اونچائی 8126 میٹر ہے۔ یہ پاکستان کے علاقہ گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ یہ کوئی واحد پہاڑ نہیں بلکہ بلند ہوتے گئے پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں پر مشتمل ایک ایسا دیوہیکل مٹی اور برف کا تودہ ہے جو برفانی چوٹیوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور یہ بلند اور پروقار چوٹی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ دنیا کے کسی اور پہاڑ سے زیادہ انسانوں کےلیے سخت، سنگدل اور بے رحم ہے۔ یہ پہاڑ اب تک بتیس سے زائد کوہ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ نانگا پربت دنیا کے بلند پہاڑوں میں سب سے آخر میں سَر ہوا۔ نانگا پربت کے مشرقی جانب استور کی طرف سے اسے دیکھا جائے تو نانگا پربت سر اٹھائے بادلوں سے نکلا ہوا ناقابل یقین حد تک انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ اپنی بلندیوں اور وسعتوں میں کھڑا نہایت معصوم دکھائی دیتا ہے، جس میں پاکیزگی، سکون، شکوہ اور نزاکت اور لطافت کے ساتھ اس دنیا کا حصہ نہیں بلکہ آسمانی دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظارہ ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کے وجود کے اندر حلول کرجاتا ہے۔ طلوع و غروب آفتاب کے وقت یہ گلابی روشنی کے سمندر سے ابھرا ہوا موتیوں کا ایک جزیرہ لگتا ہے لیکن یہ صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو اسے بڑی محبت اور عقیدت سے دور دراز کا سفر طے کرکے دیکھنے یا اسے سر کرنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے دامن میں سنگلاخ چٹانوں پر جو لوگ رہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ننگا پہاڑ ہے۔ نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرنے والی پہلی کوہ پیما مہم 1895 میں برطانیہ کی تھی۔ مگر وہ اس کی چوٹی کو سرکرنے میں ناکام رہی اور اس کی دو اراکین لاپتہ اور ایک ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اسے سَر کرنے کی کوشش جاری رکھی اور اس کوشش میں بہت سے کوہ پیما ناکامی کے ساتھ ساتھ پچاس کے لگ بھگ کوہ پیما اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لحاظ سے یہ کوہ پیماؤں کا دشمن، قاتل پہاڑ اور جبل الموت مشہور ہوگیا۔ اس کے باوجود کوہ پیماؤں کا جذبہ سرد نہ ہوا اور اسے سر کرنے کوششیں جاری رہیں۔ آخرکار اس پہاڑ کی حفاظت کرنے والی روحیں نرم پڑگئیں اور 1953 میں اس چوٹی کو آسٹریا کے ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بوہلر نے سر کرلیا۔ اس طرح دنیا کہ یہ نویں بلند ترین چوٹی سب سے آخر میں سر ہوئی اور انسانی عزم کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔ یہ پہاڑ جرمن اور جاپانیوں کا پسندیدہ پہاڑ ہے اور اس سر کرنے کی کوشش میں مرنے والے لوگوں میں اکثریت جرمنوں اور جاپانیوں کی ہے۔ ہم بیس كيمپ پر موجود میدان میں لیٹ کراس عظیم پہاڑ کے حسن میں کھو گئے جیسے یہ کوئی اور ہی دنیا ہے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل