Saturday, July 19, 2025
 

ٹی آر ایف کے تصوراتی نیٹ ورک پر پابندی؛ چہ معنی دارد

 



ٹی وی ٹاک شوز کے دوران پروگرام کی تیاری سے قبل اہم خبروں کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے، اس خبر کے اثرات اور صحت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جاتی ہے۔ آج بھی ایک ایسی ہی خبر ہماری ٹیم میٹنگ میں زیر بحث آئی۔ وہ خبر تھی امریکا کی جانب سے ٹی آر ایف پر پابندی۔ سوال یہ تھا کہ کیا اس خبر کو آج کے ٹاک شو کا موضوع بنایا جاسکتا ہے؟ لیکن میری سوئی ٹاک شو کے موضوع سے زیادہ ٹی آر ایف پر اٹکی ہوئی تھی، کیونکہ میری نظر میں ٹی آر ایف ایک تصوراتی اور فرضی جماعت ہے، جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں۔ را اور بھارتی قیادت کے بیانات کے علاوہ اس جماعت کے بارے میں کسی کو علم نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹی آر ایف کی یہ فرضی تنظیم کیا ہے؟ اس کی قیادت کون کر رہا ہے؟ اس تنظیم میں کون کون سے افراد شامل ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ بھارت میں اگر یہ تنظیم دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کو فنڈز کون دیتا ہے؟ یہ تنظیم اسلحہ کہاں سے خرید رہی ہے؟ پاکستان کا اور اس جماعت کا تعلق کیا ہے؟ سب سے اہم سوال کہ امریکا نے اس جماعت پر پابندی کیوں عائد کی؟ انہی سوالات کے جواب کی تلاش مجھے 2019 میں لے گئی، جب مقبوضہ وادی میں لاک ڈاؤن کی کیفیت تھی۔ شہریوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیا جارہا تھا، بھارت نواز سیاسی جماعتوں تک کی قیادت نظر بند تھی۔ لیکن اچانک سے ہی ایک عسکری جماعت دی ریزسٹنس فرنٹ وجود میں آتی ہے، حملوں کی ذمے داری قبول کرتی ہے۔ پھر چھ سال تک ٹی آر ایف بالکل خاموش رہتی ہے اور اچانک ہی 22 اپریل کو پہلگام واقعہ ہوتا ہے۔ ٹی آر ایف حملے کی ذمے داری قبول کرتی ہے، لیکن اب کی بار بھی اس تنظیم سے کوئی فرد سامنے نہیں آیا۔ میں نے ٹی آر ایف کے حوالے سے بھی ریسرچ اور رابطے جاری رکھے دہشت گردی کے موضوع پر کام کرنے والے تھنک ٹینکس کی ویب سائٹس کھنگال لیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے رابطے میں موجود صحافیوں سے معلومات حاصل کیں، مگر میرے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں لگا۔ میں خود گزشتہ پندرہ برس سے تحریک آزادی کشمیر کو قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ 2010 کی سنگ بازی کی تحریک سے لے کر برہان وانی کی شہادت، جموں میں مقامی افراد کی جانب سے مزاحمتی تحریک اور بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کو قریب سے دیکھا۔ مقبوضہ کشمیر سے ملنے والی اطلاعات اور رابطوں کے بعد اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ ٹی آر ایف ایک فرضی، کاغذی اور تصوراتی گروپ ہے، جو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا تخلیق کردہ ہے۔ ان اطلاعات کی تصدیق ماضی کی تاریخ بھی کرتی ہے۔ گزشتہ چھ برس میں ٹی آر ایف سے وابستہ کوئی کارکن گرفتار نہیں ہوا، آج تک اس نیٹ ورک سے وابستہ کوئی فرد گرفتار نہیں ہوا، کسی بھی فرد کی شناختی دستاویزات اور بائیو ڈیٹا سامنے نہیں آیا، کسی بھی قسم کی ویڈیو یا فنڈنگ کے ثبوت دنیا کے سامنے نہیں لائے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹی آر ایف کا کوئی وجود ہے تو اس حوالے سے ثبوت کہاں ہیں؟ اس کی قیادت اور اس میں موجود افراد کے نام کیا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹی آر ایف کی جعل سازی کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، جو کہ ایک مضحکہ خیز الزام ہے۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ خوارج اور فتنہ الہندوستان کے خلاف پاکستانی فورسز کی کامیابیوں اور بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کا کاؤنٹر کیا جائے۔ آپریشن سندور کی ناکامی اور سفارتی سطح پر نامراد ہونے کا داغ دھویا جائے۔ اسی لیے ایک بار پھر چھ سال قبل تیار کی گئی فرضی دہشتگرد جماعت کو دوبارہ سے زندہ کیا جائے اور اس کا الزام بھی پاکستان کے سر تھوپ دے۔ لیکن بھارت کی یہ چالیں بھی ناکام و نامراد ہی رہیں گی، کیونکہ پاکستان سے امریکا اور کینیڈا سے برطانیہ تک را کرایے کے قاتل کے طور پر مشہور ہے اور پاکستان پہلے ہی بھارتی دہشت گرد نیٹ ورکس کو بے نقاب کرچکا ہے۔ بھارتی افسران کی لیکڈ آڈیوز سے لے کر فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی فنڈنگ کے شواہد تک اقوام عالم کے سامنے پیش کیے۔ متعدد بھارتی دہشت گرد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ اپنی سبکی مٹانے کےلیے ہی بھارت جعلی، فرضی اور تصوراتی دہشت گرد تنظیم بنا کر دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسی فرضی گروہ کو بنیاد بنا کر خطے میں افراتفری پھیلا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ریاست پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ پاکستان امن کےلیے پُرعزم ہے، دہشت گردوں کے خلاف اس کی فیصلہ کن کارروائیاں جاری رہیں گی۔ مکمل دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بھارتی سازش کا پردہ چاک کیا جاتا رہے گا۔ امریکا کی جانب سے ایک فرضی تنظیم پر پابندی وائٹ ہاوس کے معیار پر سوالیہ نشان ہے، وہیں بھارتی جعل سازی بھی دنیا کے سامنے عیاں ہورہی ہے۔ کیونکہ اگر اس تنظیم کا کوئی وجود ہوتا تو بھارت اس وقت تک اس کے تمام دہشت گردوں کی تصاویر، بیانات اور شناختی دستاویزات کے ذریعے پوری دنیا میں واویلا کر رہا ہوتا۔ لیکن مجھے یہاں پر ایک اور خدشہ ہے کہ بھارت دنیا کی جانب سے ثبوت مانگنے پر ملک بھر میں جعلی مقدمات میں قید کشمیری نوجوانوں کو اس مقصد کےلیے استعمال کرسکتا ہے کیونکہ پہلگام فالس فلیگ اور آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد بھارت نے متعدد کشمیری نوجوانوں کو غیر قانونی حراست میں لے رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان ایک بار پھر بلوچستان، افغانستان اور خیبرپختونخوا میں بھارتی فنڈنگ اور مداخلت کے ثبوت اقوام عالم کے سامنے رکھے تاکہ درست تصویر دنیا کے سامنے آسکے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل