Loading
(کسانوں کی زبوں حالی اور استادوں کی بے توقیری) میڈم چیف منسٹر! اس کالم میں میں آپ کی توجّہ استادوں اور کسانوں کی زبوں حالی کی جانب مبذول کراؤں گا۔ آپ اس صوبے کی انتظامی سربراہ ہیں جس کے بارے میں ہم خود بیرون ممالک میں جاکر دعوے کیا کرتے تھے کہ ہمارے ملک کے صوبہ پنجاب کی ہموار اور زرخیز زمین اتنا غلّہ پیدا کرسکتی ہے جس سے پورے ساؤتھ ایشیا کی آبادی کا پیٹ بھرا جاسکے۔ ایسا ہونا ممکن ہے، اگر حکومت کاشتکاروں کے سر پر شفقت اور سرپرستی کا ہاتھ رکھّے تو پنجاب کے محنتی کاشتکار معجزے برپا کرسکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس انتہائی شاطر مشیر کو نکال باہر کریں جس نے یہ مشورہ دیا، ’’یہ مافیا ہیں جنھوں نے اپنا نام کسان رکھا ہوا ہے۔‘‘ شاید مڈل مین یعنی آڑھتی کو کاشتکار یا کسان سمجھ لیا گیا ہے ۔ کسان بیچارا مافیا نہیں ہے، وہ تو شدید سردی میں منہ اندھیرے اٹھ کر گندم کی فصل کو پانی لگاتا ہے، مہنگی کھاد خرید کر ڈالتا ہے، مہنگی دوائیوں کے سپرے کراتا ہے اور دن رات محنت کرکے گندم کی فصل تیار کرتاہے۔ جب یہ پک جاتی ہے تو اسی سے تیارکردہ ڈبل روٹی اور کیک، شہری بابو اور امراء کھاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر کسان کی پانچ، دس یا پندرہ ایکڑ پر لگائی گئی گندم موسموں کی شدّت سے بچ جائے تو وہ آس لگا کر شہر کی جانب دیکھنا شروع کردیتا ہے کہ سرکاری اہلکار آئیں گے اور اس سے گندم خریدلیں گے۔ حکومت کو گندم فروخت کرکے کسان کو جو رقم ملتی ہے۔ اس سے وہ اگلی فصل کے لیے بیج اور کھاد بھی خریدتا ہے، بچوں کی فیسیں بھی ادا کرتا ہے، بوڑھے والدین کے لیے دوائیں بھی لاتا ہے اور بیٹی کی شادی کا بندوبست بھی کرتا ہے، مگر پچھلے سال انتظار کرتے کرتے کسانوں کی آنکھیں پتھراگئیں اور کوئی اہلکار گندم خریدنے نہ آیا اور ان کے خواب کھیتوں اور کھلیانوں میں ہی بکھر کر رہ گئے۔ کسان اجڑے تو بازار بھی اجڑ گئے، قریبی شہروں اور قصبوں کے بازاروں اور مارکیٹوں میں رونق اور خوشحال کسانوں کے دم قدم سے ہی ہوتی تھی۔ جب کسانوں کی جیبیں خالی رہیں تو بڑی دکانیں اور اسٹور بھی ویران اور بے رونق رہے۔ حکمرانوں کو محنتی اور مخلص کسانوں اور مافیاز کا فرق معلوم ہونا چاہیے۔ آپ کسی دورے کے دوران کسی بھی جگہ کے کسانوں کو بلا کر پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ مافیاز کون ہیں۔ جو بھی کاشتکار کا استحصال کرتا ہے اور اسے اس کی محنت کے جائز صلے سے محروم رکھتا ہے وہ مافیا ہے اس میں فلور ملوں کے مالکا ن بھی شامل ہیں،محکمہ فوڈ کے کرپٹ اہلکار بھی شامل ہیں۔ کھاد اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے ڈیلر بھی شامل ہیں اور کسان کی جنس کی آزادانہ نقل وحمل پر پابندی لگوانے والے بھی شامل ہیں۔ یہ درست ہے کہ گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ آپ سے پہلے ہوچکا تھا مگر آپ کی حکومت نے کاشتکاروں سے گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کرکے غریب کاشتکاروں کے ساتھ زیادتی کی۔ کسانوں سے ہمیشہ حکومت ہی گندم خریدتی تھی اور حکومت ہی فلور ملوں کو گندم سپلائی کیا کرتی تھی۔ غریب عوام کو سستا آٹا اور سستی روٹی فراہم کرنا بہت اچھی بات ہے مگر کاشتکاروں کی اکثریّت بھی تو غرباء میں ہی شامل ہے۔ ان کے ساتھ زیادتی ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھی کہ انھیں منافع خور ملز مافیا کے آگے پھینک دیا گیا جنھوں نے ان سے اونے پونے داموں گندم اٹھالی، جن سے ان کے اخراجات (cost of production) بھی پورے نہیں ہوتے۔ کیا کسانوں سے سستی گندم لے کر صوبے بھر میں کوئی ایک بھی بیکری والا سستی ڈبل روٹی یا سستے بسکٹ بیچ رہا ہے؟ بالکل نہیں، کسانوں سے گندم آدھی قیمت پر لے لی گئی مگر اسی گندم سے تیار کردہ ایک بھی بیکری آئیٹم سستی نہیں کی گئی۔ ٹریکٹر اسکیم یا کسان کارڈ کے یقیناً فوائد ہوںگے مگر جس اسکیم میں کسی بڑی کمپنی کا نام آتا ہے تو فوراً سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، کیونکہ کسانوں سے کہیں زیادہ فوائد مالکان اور کمیشن لینے والے افسران سمیٹ لیتے ہیں۔ اس لیے ان ساری اسکیموں پر لگنے والے پیسوں سے اگر پنجاب حکومت کھاد اور دوائیاں سستی کردے اور کسانوں سے مناسب قیمت پر گندم خریدلے تو وہ اسکیم کاشتکاروں کے لیے باقی تمام اسکیموں سے کہیں زیادہ مفید ہوگی اور یہی محنت کش کاشتکاروں کا مطالبہ ہے۔ حکومت باہر سے گندم کی درآمد مکمل طور پر بندکردے اور 2023والی قیمت مقرر کردے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حکومت پنجاب کے پاس اتنی گندم سرپلس ہوگی کہ حکومت گندم برآمد کر سکے گی اور بہت سا زرِمبادلہ بھی کماسکے گی ۔ آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ 2013 میں نوازشریف صاحب وزیرِاعظم بنے تو ان کے دور میں کھاد اور زرعی دوائیوں کی قیمت بہت کم کردی گئی تھی۔ ڈی اے پی کی بوری کسانوں کو 2500روپے اور یوریا کی بوری پندرہ سو روپے میں ملنے لگی تھی، جب کہ اِس وقت ڈی اے پی ساڑھے بارہ ہزار اور یوریا 4500سے اوپر چلی گئی ہے۔ کسانوں کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی ہونا شروع ہوگیا ہے کہ کھاد اور دوائیوں میں اس قدر ملاوٹ کی جانے لگی ہے کہ ان کا اثر ہی ختم ہوگیا ہے، متعلقہ محکمے کہیں نظر نہیں آتے۔ آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کھاد سستی ہو اور اس میں ملاوٹ ہرگز نہ ہو۔ مختلف جگہوں سے at random کھاد اور دوائیوں کے نمونے لے کر ان کے لیباریٹری ٹیسٹ کروائے جائیں اور ملاوٹ کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنادیا جائے۔ پنجاب کا نہری نظام دنیا کا بہترین نظام تھا، نہروں اور راجباہوں کی حفاظت کے لیے چوکیدار اور بیلدار گشت کیا کرتے تھے اور ان کے ڈر کی وجہ سے نہری پانی کی چوری نہیں ہوتی تھی۔ نہروں اور راجباہوں کے کناروں پر سایہ دار درخت ہوتے تھے۔ اب نہ درخت بچے ہیں اور نہ کنارے، ان میں سے کوئی اچھی چیز باقی نہیں رہی مگر اِس سال مالیہ اور ٹیکس بے تحاشا بڑھا دیا گیا ہے جو پسے ہوئے کسانوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے، اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فصلوں کی پیدوار بڑھانے میں ریسرچ کی بے پناہ اہمیّت ہے، ہمارے ہاں بھی ریسرچ کے ادارے تو قائم ہیں مگر ان کی تحقیق کے نتائج کبھی منظرِعام پر نہیں آئے۔ یا تو انھیںتحقیقی میدان میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی یا پھر ان کی توجّہ ہی ریسرچ کی جانب نہیںہے، کیونکہ کئی سالوں سے چاول (مونجی) کے نئے بیج ہمسایہ ملک سے آرہے ہیںجب کہ کالا شاہ کاکو یا دوسرے ریسرچ سینٹرز چاول کا کوئی نیا بیج ایجاد نہیں کرسکے۔ ان اداروں کے احتساب اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے۔ اگر چینی کی برآمد کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تو حکومت چاول کے برآمد کنندگان کی بھی facilitate کرے۔ کاشتکار بڑی فصلوں کے بجائے سبزیوں، پھلوں کی کاشت سے زیادہ پیسے کماسکتے ہیں، محکمہ زراعت کو اس بات کی خصوصی ہدایات دی جائیں کہ ان کے ماہرین دیہاتوں میں جاکر کاشتکاروں کو سبزیوں اور پھولوں کی کاشت کی طرف بھی راغب کریں اور اس سلسلے میں کاشتکاروں کی تربیّت کا بندوبست کریں۔ استادوں کی بے توقیری ہمارے قومی زوال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ تعلیم کو اہمیّت دیتے اور نہ استاد کو عزّت دیتے ہیں، ترقّی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ عزّت، احترام اور پروٹوکول کا حقدار یونیورسٹی کا پروفیسر ہوتا ہے۔ جن قوموں کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ استاد ہی قوموں کی تعمیر کرتے ہیں وہ معمارانِ قوم کا معیار بلند رکھنے کے لیے شعبہء تدریس کو سب سے دلکش کیرئیر بناتی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں یونیورسٹی کی لیکچر شپ سب سے prestigious job سمجھی جاتی ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان اصل ترقّی کے زینے پر اُس وقت قدم رکھے گا جب جی سی، لَمز اور نسٹ جیسے اداروں کے فارغ التحصیل طلباء اپنے کیرئر کے طور پر ڈی ایم جی، پولیس یا فارن سروس کے بجائے ٹیچنگ کو منتخب کریں گے اور کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی لاکھوں روپے کی نوکری پر معلّمی کو فوقیت دیں گے۔ یہ تب ہوگا جب ٹیچر کی مراعات سب سے دلکش ہوںگی اور پرائم منسٹر اور چیف منسٹر کی سرکاری تقریبات میں پہلی قطار وزیروں اور افسروں کے بجائے استادوں کے لیے مخصوص ہوگی، مگر ہمارے ہاں تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ ٹیچنگ کو مزید دلکش بنانے کے بجائے، اسے عرصہء دراز سے ملنے والے حقوق ، سہولتوں اور پنشن سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہزاروں کی تعداد میں معمارانِ قوم، سڑکوں پر ہوں اور اپنے جائز مطالبات کے لیے چیخ و پکار کررہے ہوں اور اس سے کہیں زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے کان پر جون تک نہ رینگے اور وزیر یا سیکریٹری استادوں کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہ ہو۔ چیف منسٹر صاحبہ! آپ خود سینئر پروفیسر صاحبان اور لیکچررز کے نمایندوں کو بلائیں اور بیوروکریٹوں کی عدم موجودگی میں ان کی بات توجّہ اور ہمدردی سے سنیں۔ وہ آپ کی ہمدردی اور عزّت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ اگر حکمران استادوں کے جائز مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر سمجھ لیں کہ ہم نے زوال کی گہری کھائی میں چھلانگ لگانے کا تہیّہ کرلیا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل