Wednesday, February 05, 2025
 

کشمیریوں سے آزادی کا خواب چھینا نہیں جا سکتا

 



آپ اگر اس دیرینہ مسئلے کی کیفیت کو سمجھنا چاہیں، تو اس کے لیے اردو میں معروف ہونے والا یہ ’روزمرہ‘ دیکھیے، کہ جب کوئی بھی مسئلہ لاینحل ہونے لگے، تو اسے ’مسئلہ کشمیر‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونا بہت مشکل ہے یا یہ کبھی حل ہی نہیں ہو سکے گا۔۔۔! کشمیر جسے بٹوارے کے ہنگام میں مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناتے پاکستان میں شامل ہونا تھا، یا پھر اس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کے ووٹوں سے ہونا قرار پایا تھا، لیکن شومئی قسمت کہ دنیا اس کے انتظار ہی میں رہ گئی، کہ وہاں کب رائے شماری کروائی جائے گی۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہندوستان کی جانب سے استصواب کی کوئی امید بھی جاتی رہی۔ پہلے تو ہندوستان کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر وہاں استصواب رائے سے مُکرتا رہا تھا، لیکن 5 اگست 2019ء کو تو اس نے اپنے دستور سے دفعہ 370 ہی کو کسی حرف غلط کی طرح مٹا دیا، جس کی بنیاد پر اُس نے ہندوستان نواز کشمیری راہ نماؤں اور اس کی بنیاد پر وہاں کے عوام کو بہت سے لارے دے رکھے تھے کہ ہندوستان بھر میں جموں و کشمیر کی حیثیت کس طرح جداگانہ ہوگی اور کشمیریوں کو ہندوستان میں کون کون سے خصوصی حقوق حاصل ہوں گے۔ کشمیر وہ مسئلہ ہے جو رہتی دنیا تک ’اقوام متحدہ‘ کی پیشانی پر کلنک کا داغ بنا رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے وقت کی بڑی طاقت برطانیہ نے یہاں سے جاتے جاتے کشمیر کے مسئلے کو جان بوجھ کر دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ وقت تناؤ اور کشیدگی رہنے کے لیے چھوڑ دیا، بلکہ 77 برس سے دو ارب انسانوں کے اس خطے کو مسلسل سنگین صورت حال سے دوچار کرنے کے واسطے اپنی آنکھیں بھی موندے رکھی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان جیسی دو متحارب جوہری قوتوں کے درمیان کشمیر کا تنازع امن وامان کی صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا رہا ہے۔ 1948ء میں جب کشمیریوں نے ہندوستانی جبر کے خلاف باقاعدہ لڑائی شروع کی، اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلی بار جنگی کیفیت بھی پیدا ہوگئی، تو خود ہندوستان نے ’اقوام متحدہ‘ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور عالمی سرکردی میں دونوں ممالک کے لیے کشمیر کے درمیان ایک حد بندی لکیر المعروف ’لائن آف کنٹرول‘ قائم کی گئی تھی، جس کی حیثیت عارضی تھی اور دونوں ممالک کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق وہاں استصواب رائے یعنی رائے شماری کروانی تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان اس سے یک سر پھر گیا اور یوں مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور کئی جنگوں کا باعث بنتا رہا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی اسی محاذ سے پھوٹنے والے ایک ایڈونچر ہی کا نتیجہ تھی۔ پھر اسی دیرینہ دشمنی کے سبب ہندوستان نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنا مہلک مداخلانہ کردار ادا کیا، 1971ء میں ہمیں مشرقی پاکستان سے محروم ہونا پڑا اور ہماری تاریخ میں ’سقوط ڈھاکا‘ کے ایک سیاہ باب کا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد جولائی 1972ء میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اس وقت کی ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے، جس میں کشمیر کے مسئلے کو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کی گئی، دوسری طرف ہندوستان نے کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا تھا۔ تجزیہ کار اِس مرحلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کی پیش قدمی بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے واضح طور پر استصواب رائے کا ہی مرحلہ ہونا تھا، اس معاملے میں مذاکرات یا بات چیت کا کہنے کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ آپ اس موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، لیکن کیا کہہ سکتے ہیں، اس وقت پاکستان کے 90 ہزار فوجی اور شہری ہندوستان میں قید تھے اور جنگ میں ہتھیار ڈالے جانے کی بنا پر پاکستان کی حیثیت ویسے ہی کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔ پھر کشمیری عوام اپنی زندگیوں میں آزادی کے سورج کے انتظار میں رہے، تاوقتے کہ 1989ء میں کشمیری جدوجہد آزادی کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔۔۔ جب کشمیریوں نے بھارتی جبرو استبداد سے تنگ آکر باقاعدہ مسلح تحریک کی شروعات کر دی۔ جس نے ایک طرف ہندوستانی افواج کو بھاری نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ 1993ء میں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ایک سیاسی رخ کُل جماعتی حریت کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا۔ اس موثر اتحاد میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، عبدالغنی بھٹ، عبدالغنی لون، شبیر شاہ، یاسین ملک، محمد عباس انصاری وغیرہ جیسے راہ نما شامل رہے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں جُتے رہے۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس لگ بھگ ایک عشرے تک بھرپور فعال اور متحد رہی اور وہاں ہندوستانی چھتری تلے دکھاوے کے انتخابات اور کٹھ پتلی حکومت کا مکمل بائیکاٹ کرتے رہے۔ اس اتحاد میں دراڑ جب پڑی کہ جب ’حریت کانفرنس‘ نے ہندوستانی حکومت سے مذاکرات کیے اور علی گیلانی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور اس عمل کو ڈھونگ قرار دیا۔ اس کے بعد سید علی گیلانی نے ’کُل جماعتی حریت کانفرنس‘ سے اپنی راہیں الگ کرلیں، تاہم 2016ء میں مقبوضہ وادی میں پیدا ہونے والے پیچیدہ حالات سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کو دوبارہ ایک اتحاد میں جوڑ گئی۔ مقبوضہ وادی کی صورت حال کی بنا پر ہی پاک بھارت تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے، اسی بنا پر دونوں ممالک آج بھی اپنے دفاع کے نام پر ایک کثیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے جتنی مرتبہ مذاکرات ہوئے، وہ کشمیر کے تنازعے کی وجہ ہی سے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ 1985ء میں مقبوضہ وادی کے بیچوں بیچ واقع دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن پر بھی دونوں طرف کے ہزاروں جوان اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ یہ علاقہ بھی گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس قرار پاتا ہے۔ 1998ء میں مسئلہ کشمیر ’کارگل‘ کے محاذ کی ایک اور گرما گرمی لے کر آیا، لیکن اس موقع کو بھی کشمیر کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔ 2001ء میں امریکا میں ہونے والے 11 ستمبر کے حملوں نے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد آزادی پر بھی اپنے دور رَس اثرات مرتب کیے۔ ہندوستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو پہلے ہی دہشت گردی قرار دیتا تھا، اب تو اِسے گویا عالمی سطح پر ایک موافق ماحول میسر آگیا، لیکن پاکستان کا سفارتی محاذ کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کو ’تحریک آزادی‘ منوانے کا مورچہ سنبھالے رہا۔ 2002ء میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پر جمع رہیں۔ اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ مذاکرات اور ملاقاتوں کا سلسلہ رہا، لیکن یہ خاطر خواہ نتائج نہ لاسکا اور پھر پانچ اگست 2019ء ایک ایسا سیاہ دن کہ جب عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقے کو باقاعدہ ہندوستان میں ضم کر دیا گیا، جس کے نتیجے سامنے آنے والے ردعمل کے خوف سے مقبوضہ وادی میں طویل عرصے تک کرفیو نافذ اور بنیادی انسانی حقوق معطل رکھے گئے۔  2019 میں بھارتی آئین کی دفعہ 340 کو ختم کرنے کے بعد آج کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ گو کہ منظر نامے پر بہت زیادہ ہل چل دکھائی نہیں دیتی، لیکن دنیا کی ہر تحریک ہی میں ایسے ہی بہت سے نشیب وفراز آتے ہیں، جیسے 1948ء سے 2019ء تک کے سفر میں مقبوضہ وادی کے زندہ دل اور حریت پسند لوگوں نے بھارتی فوج کے جبر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور وہ ہندوستانی قبضے کے سامنے کبھی ترنوالہ ثابت نہیں ہوئے۔ اس جدوجہد آزادی میں عالمی برادری کی جانب سے کردار ادا کرنے کا انتظار کرنا بھی اسی تحریک کا ایک مرحلہ تھا اور اس کے بعد باقاعدہ مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ’کُل جماعتی حریت کانفرنس‘ کی سیاسی جدوجہد بھی تحریک آزادی کی تاریخ میں اَن مٹ رہے گی۔ آج کی ظاہری صورت حال میں بھی یہ تحریک اپنے ایک خاص مرحلے میں اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔ مقبوضہ وادی میں ہندوستان بہ ظاہر اپنا تسلط پہلے سے مضبوط سمجھ رہا ہے، لیکن اُسے بھی پتا ہے کہ کسی بھی وقت کشمیریوں کے دلوں میں سلگنے والی آزادی کی چنگاری ایک ایسا شعلہ بن سکتی ہے، جو اس کے لیے پریشانی پیدا کرسکتا ہے۔ یقیناً آج نہیں تو کل پھر سے کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش خروش پیدا ہوگا، لیکن اس بار جدوجہد کا ڈھب کیا ہوگا اور اس کا محاذ کیسا ہوگا، یہ ہمیں آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل