Wednesday, February 05, 2025
 

طالبان نے خواتین کے ریڈیو اسٹیشن ’’بیگم‘‘ کو بند کروا دیا؛ 2 ملازمین گرفتار

 



افغانستان میں طالبان نے خاتون کے ایک معروف ریڈیو اسٹیشن ’’ بیگم‘‘ کے لائسنس کو معطل کرکے نشریات بند کروادی۔  عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کی وزارت اطلاعات نے تصدیق کی ہے کہ خواتین کے ریڈیو اسٹیشن پر چھاپا مار کارروائی کی گئی۔ طالبان اہلکاروں نے ریڈیو اسٹیشن کی مکمل تلاشی لی، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور موبائل فونز تحویل میں لے لیے اور دو مرد ملازمین کو گرفتار کرلیا۔ حراست میں لے گئے دونوں مرد ملازمین ریڈیو اسٹیشن میں کسی اعلیٰ انتظامی یا پالیسی ساز عہدے پر فائز نہیں تھے۔ بعد ازاں وزارت اطلاعات و ثقافت نے بیگم نامی ریڈیو اسٹیشن کی نشریات کو ضابطے کی متعدد خلاف ورزیوں پر غیر معینہ مددت تک معطل کردیا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ریوڈیو اسٹیشن بیرون ملک مقیم ایک ٹی وی اسٹیشن کو مواد اور پروگرام فراہم کر رہا تھا جو کہ براڈ کاسٹنگ پالیسی کی خلاف ورزی اور لائسنس کا غلط استعمال ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریڈیو اسٹیشن کے لائسنس کی بحالی کا حتمی فیصلہ دستاویزات، اہداف اور مقاصد کا بغور جائزہ لیکر کیا جائے گا۔ دوسری جانب ریڈیو اسٹیشن ’بیگم‘ کے ترجمان نے کہا کہ کبھی بھی کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں رہا اور خاص طور پر افغان خواتین کی خدمت کے لیے پُرعزم ہیں۔ صحافتی تنظیموں اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ریڈیو اسٹیشن پر عائد پابندیوں کو ہٹانے اور گرفتار ملازمین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ ریڈیو ’’بیگم‘‘ کا آغاز 8 مارچ 2021 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہوا تھا جس کے کچھ ماہ بعد ہی افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھوں میں آگیا تھا۔ ریڈیو اسٹیشن ’’بیگم‘‘ سے خواتین کے لیے تعلیمی، کتب بینی بک اور کال ان کاؤنسلنگ کے پروگرام پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس 2024 میں ریڈیو اسٹیشن ’’بیگم‘‘ کی افغان نژاد سوئس بانی حمیدہ امان نے ایک سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اسٹیشن، بیگم ٹی وی کا آغاز کیا تھا۔ اس ٹی وی اسٹیشن پر پیرس سے تعلیمی پروگرام نشر کیے جاتے تھے تاکہ افغان لڑکیوں اور خواتین تعلیم جاری رکھنے میں مدد ملتی رہے۔ ان کی ویب سائٹ پر افغان قومی نصاب سے متعلق ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں جہاں طالبات کی رسائی مفت ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھی طالبان نے ’آرزو ٹی وی‘ کو بند کرکے 7 ملازمین کو حراست میں لے لیا تھا۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل