Loading
اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال 2025-26 کے لیے ترقیاتی فنڈز کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ ترقیاتی فنڈز یا ترقیاتی بجٹ دراصل ایسا فنڈ ہوتا ہے جو کسی بھی علاقے صوبے یا ملک کے لیے مختص کرتے ہیں، پھر اس کی علاقائی تقسیم ہوتی ہے۔ اضلاع، تحصیلوں کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں، پاکستان میں ترقیاتی بجٹ اتنا کم ہوتا ہے کہ تقسیم در تقسیم ہو کر مختلف شعبوں میں انتہائی ضروری کاموں کی بھی تکمیل نہیں ہو پاتی۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ جس کی تعمیر و ترقی کے لیے بجٹ میں ترقیاتی فنڈز کے نام سے رقوم رکھی جاتی ہیں وہ اب تک بنیادی ڈھانچے کو سیراب نہ کر سکیں۔ سڑکوں، پلوں کی تعمیر یا ان کی مرمت، ریلوے لائنوں کی تعمیر، ہوائی اڈے، بندرگاہوں کو ترقی دینا، نئے پن بجلی کے منصوبے بنانا، ان کو مکمل کرنا، میٹھے پانی کی فراہمی، نئی سیوریج لائنیں یا ان کی مرمت کے لیے رقوم خرچ کرنا، گٹروں کے اوپر ڈھکن، شہریوں کو ان کی فراہمی کو آسان بنانا، تعلیم کے لیے بجٹ اور صحت کے لیے بجٹ، زراعت و صنعت کے لیے رقوم کی فراہمی کے علاوہ فلاحی منصوبوں، روزگار کی فراہمی کے پروگرام اور بہت سی باتوں کا تعلق ترقیاتی بجٹ سے ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس کا انتہائی قریبی تعلق ممبران اسمبلی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ شاید وہی باخبر ہوتے ہیں کہ ان کے علاقوں کو کن منصوبوں کی ضرورت ہے اور اکثر اوقات حکومت فنڈز بھی انھی کو مہیا کرتی ہے۔ بعض افراد اس بارے میں منفی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ دراصل یہ ایک سیاسی فنڈ ہوتا ہے جس میں عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ حکومت ممبران اسمبلی کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے تعلیم اور صحت کے لیے فنڈز کا اجرا کیا جا رہا ہے لیکن ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسی طرح صحت کا معاملہ ہے اور اس شعبے کی صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے، کیونکہ ہر اسپتال میں بیماروں، مریضوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں ایم بی بی ایس کے پرائیویٹ کالجز کے اخراجات کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ 5 سالہ ڈگری پروگرام کے اخراجات ایک کروڑ روپے سے ڈیڑھ کروڑ روپے تک بنتے ہیں۔ اب ان سب باتوں کے باعث کوئی بھی ملک اپنے عوام کی بہتری کی خاطر منصوبوں کی تکمیل کے لیے قرض لیتا ہے۔ پاکستان بھی قرضوں کے بوجھ سے لدا ہوا ترقی پذیر ملک ہے۔ اب اس میں ناقص منصوبہ بندی بھی شامل ہو کر رہ گئی ہے اور انھی ترقیاتی بجٹ کے ذریعے بڑی آسانی کے ساتھ کرپشن کو فعال بنا دیا جاتا ہے۔ وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر ایک خاص طبقہ اپنے ہاتھ بھی صاف کرتا ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر ترقیاتی منصوبے بھی مکمل نہیں ہو پاتے۔ اس طرح ملک بھر میں ہزاروں منصوبے ایسے ہیں جن کی مدت تکمیل گزرنے کے بعد ان کو مکمل کیا گیا یا پھر زیر تکمیل رہ جاتے ہیں۔ مزید فنڈز کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب ترقیاتی بجٹ میں برآمدات اور پیداوار بڑھانے کے ساتھ ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اگلے برس ’’ اڑان پاکستان‘‘ کے وژن کے مطابق منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ کاروبار میں جدت اور تحقیق و ترقی کے منصوبوں کے لیے اچھی خاصی رقم رکھی جائے گی۔ ترقیاتی بجٹ میں 2025 کے علاوہ 2026-27 اور 2027-28 تک کے لیے ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ تیارکیا جائے گا۔ یہ ایک اچھی بات ہوگی اگر جون 2028 تک کے لیے تخمینے تیار کر لیے جائیں اور منصوبوں پر اس طرح رقم لگائی جائے کہ ہم آیندہ دو یا تین برسوں کے لیے اپنے محتاط اندازوں اور تخمینوں کے مطابق آگے بڑھیں اور اس کے لیے سوچ بچار کریں اس کے لیے معاشی منصوبہ بندی کر ڈالیں تو یہ ایک اچھی پیش رفت ہوگی۔ پاکستان میں ہر سال ایک بہت بڑی رقم ترقیاتی بجٹ کے نام پر مختص کی جاتی ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس ملک میں غربت میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت بڑی بیرونی سرمایہ کاری لانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اسکول کالجز کی تعداد پہلے ہی کم ہے لیکن اب تو جو بھی اسکول،کالج ہیں ان کی عمارتیں اتنی خستہ حال ہو چکی ہیں۔ شعبہ صحت کی حالت اتنی خستہ ہے کہ مریض اسپتال جا کر اپنا مرض بھول جاتا ہے اور اسپتال کی خستہ حالی، شکستگی کو دیکھ کر ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں اتنی زیادہ وسعت نہیں ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جاسکے۔ 2024-25 کے لیے ترقیاتی بجٹ950 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد میں کم کر دیا گیا۔ 2022-23 کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کی حد میں 800 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ بڑی بڑی رقوم مختص کر دی جاتی ہیں اور خرچ بھی ہو جاتی ہیں لیکن جو فوائد عوام کو حاصل ہونے چاہئیں وہ حاصل نہیں ہوتے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل