Wednesday, February 05, 2025
 

ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی ہوئی گرمی

 



امریکی شہر لاس اینجلس میں لگی آگ کے حقائق سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ، رواں سال جنوری 7کی صبح اس آگ کا آغا ہوا اس کے بعد یہ آگ 40ہزار ایکڑ پر پھیل گئی ۔ 12ہزار سے زیادہ عمارتیں جل چکی ہیں لوگوں کے گھر راکھ کے ڈھیر بن چکے اب تک پچاس بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ ایک لاکھ اسی ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں ۔ جنوبی کیلفیورنیا میں گزشتہ سال جولائی کے بعد کوئی بارش نہیں ہوئی ۔ جون جولائی گرم ترین تھے ۔ اکتوبر بھی گرم ترین رہا۔ اس علاقے میں جولائی کے بعد کوئی بارش نہیں ہوئی ۔ جنوری کا موسم سرد ہوتا ہے لیکن اس مہینے بھی ناکافی بارش ہوئی ۔ پیڑ پودے وغیرہ سوکھ گئے ۔ فضا میں نمی کم ہو گئی ۔ ہوا میں خشکی بڑھ گئی طاقتور خشک ہوائیں چلیں ۔ گرم سوکھی ہوا نے آگ کو مزید بڑھا دیا ۔ ماحولیاتی سائنسدان پیٹر کیل مس اس علاقے میں رہائش رکھتے تھے آگ لگنے سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیا کیونکہ ان کو آنے والے خطرے سے آگاہی ہو چکی تھی ۔ اس موضوع پر انھوں نے نیو یارک ٹائمز بلکہ دوسرے اخباروں میں لکھ کر عوام کو اس خطرے سے آگاہ کیا۔ خشک سالی اور گرم طاقتور ہواؤں نے پیڑ پودوں میں نہ صرف آگ لگادی بلکہ اس کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگ اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بچاسکے ۔ کم از کم چوبیس افراد اس آگ کی نذر ہوئے ۔ یہ سب کلائمیٹ چینج کا نتیجہ ہے یعنی ماحولیاتی تباہی جس نے پوری دنیا کو اپنی تباہ کن گرفت میں جکڑ لیا ہے ۔ بس یہ سمجھیں کہ سورج سوا نیزے پر آگیا ہے ۔ بڑھتی ہوئی حدت بے پناہ حدت جس نے زمین کے کسی کونے کو نہیں چھوڑا۔ ابھی موسم گرما بظاہر دور ہے لیکن اس کی آمد کا طبل ابھی سے بجنا شروع ہو گیا ہے ۔ اندازہ کریں اس دفعہ موسم سرما کا دورانیہ لاہور میں صرف دس سے بارہ دن رہا ہے ۔ سخت سردی جو بظاہر اتنی سخت بھی نہیں تھی صرف دس بارہ جنوری تک رہی اس کے بعد بتدریج گھٹتے ہوئے بیس جنوری تک ختم ہو گئی امکان نہیں بلکہ یہ بات یقینی ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے جب موسم سرما مکمل طور پر غائب ہو جائے گا تو لوگوں کو موسم سرما منانے اور گرم کپڑے پہننے کے لیے پہاڑی علاقوں میں جانا پڑے گا اگر وہ بھی گرم نہ ہو گئے۔ جس کا خدشہ بہت زیادہ ہے ہو سکتا ہے اس سال گرمی فروری سے ہی شروع ہو جائے ۔ اقوام متحدہ کے پانی سے متعلق معاملات کو دیکھنے والے مختلف اداروں کو ’’یو این واٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے مستقبل میں حالات مزید خراب ہو نے والے ہیں ۔ جب زمین انسانوں اور جانداروں کے لیے ناقابل رہائش ہو جائے گی ۔ آپ دیکھیں گے سرمایہ داری نظام کا خوفناک خون آشام مکروہ چہرہ جس نے صرف دولت کمانے کے لیے دنیا کو ایک ایسے خطرے میں دھکیل دیا جس سے نکلنا اب ناممکن ہو گیا ہے ۔ اس کی ذمے دار 57ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو دنیا میں فوسل فیول یعنی کول آئل اور گیس کا کاروبار کرتی ہیں ۔ دنیا بھر میں جتنی بھی گرین گیسز پیدا ہوتی ہے اس کا 80فیصد یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پیدا کر رہی ہیں ان میں زیادہ تر کمپنیوں کا تعلق امریکا سے ہے ۔ مزید یہ کہ اس میں چین ، روس، میکسیکو ، ایران، سعودی عرب اور انڈیا کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو گرین گیسز کی حقیقت کا پتہ 1954میں ہی چل گیا تھا کہ فوسل فیول سے پیدا ہونے والی زہریلی گیسیں دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کے لیے موت کا پیغام ہے لیکن انھوں نے اپنی ہی اس ریسرچ کو ظاہر کرنے کے بجائے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ ان گیسز سے ماحولیات کو کوئی خطرہ نہیں ہے تاکہ ان کی دولت میں اضافہ ہی ہوتا جائے ۔ صرف یہی نہیں انھوں نے بے پناہ دولت کے حصول کے لیے دنیا بھر میں سیاستدانوں اور حکومتوں کو خرید ا۔ من پسند قوانین پاس کروائے ۔متبادل توانائی کے منصوبوں میں رکاؤٹ ڈالی گئی جس میںامریکی ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن سنیٹر بھی شامل ہیں ۔ اب یہی کام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ2018 سے کر رہے ہیں جو ماحولیاتی تباہی کو ماننے سے ہی انکاری ہیں ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل