Loading
محمود لئیق ایک باغ و بہار شخصیت ہیں۔ بنیادی طور پر اکاؤنٹس کا کام کرتے رہے، حالانکہ اس شعبے کی کوئی سند حاصل نہیںکی۔ عمرکا ایک حصہ دبئی گزارآئے، جوانی میں دائیں بازوکی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ کے اسیر ہوئے مگر ان کے ایک بہنوئی بائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے متحرک کارکنوں میں شامل تھے، یوں انھیں مختلف نظریات اور رجحانات سے آگاہ ہوئے اورکھلے ذہن کے ساتھ دنیا کو دیکھتے ہیں۔ انھیں بچپن سے شعر و شاعری کا شوق رہا ہے، اردو نثر اور شاعری پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ زندگی کی ابتدائی عمر سے کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا۔ خدا تعالیٰ کے کرم سے خوب دل لگا کر مشاعروں میں جوش و خروش سے شرکت کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مضامین بھی تحریرکرتے ہیں جو اخبارات میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ محمود لئیق تحریر کی غلطیوں کی نشاندہی کے چیمپئن ہیں اورکسی تحریر میں غلطی تلاش کرتے ہوئے کسی قسم کی رعایت نہیںکرتے۔ آج کل وہ واٹس ایپ (Whats App) اور یو ٹیوب پر ادیبوں اور شاعروں کے کلام کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، پریس کلب کے ٹیرس میں منعقد ہونے والی محفلوں میں جوش و خروش سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ کراچی کی درمیانہ طبقے کی بستی شرف آباد میں رہتے ہیں۔ ہندوستان کے بٹوارے کے موقعے پر پورے ملک (غیر منقسم ہندوستان) میں مذہبی فسادات ہوئے تو بہت سی بستی اور گروہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ بھارت کی ریاست بہار سے آئے ہوئے متوسط طبقے کے خاندانوں نے شرف آباد کو آباد کیا۔ شرف آباد ایک زمانے میں بہت سی اچھی شخصیتوں کا مسکن رہا جو مستقبل میں اپنے کارناموں کی بناء پر پہچانے جانے لگے۔ شرف آباد کے مکینوں میں ایک محسن خاندان ہے۔ اس خاندان میں معروف ادیب اور ریڈیو پاکستان کے ابتدائی زمانہ کے اہم افسر صبیح محسن، اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقبال محسن، معروف صحافی افضال محسن اور شعبہ ابلاغ عامہ کے ایک روشن چراغ جمال محسن شامل ہیں۔ جمال محسن ایک زمانے میں ماہنامہ دھنک (ایڈیٹر سرورسکھرا) کے کراچی کے نمایندے تھے۔ وہ گزشتہ 46 برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے شرف آباد کی تاریخ لکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے بڑے بھائی کے دوست محمود لئیق نے اس کام میں جمال محسن کی مدد کی، یوں جمال محسن کی مرتب کردہ کتاب ’’ بیدل لائبریری کے آس پاس۔۔۔۔۔۔ شرف آباد کی یادیں‘‘ تیار ہوئی۔ اس کتاب کے 202 صفحات اردو میں تحریر کیے گئے ہیں اور 22 صفحات انگریزی زبان پر مشتمل ہیں۔ سید جمال محسن نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ اصل میں یہ علمی گہوارہ تھا۔50ء کی دہائی میں تعمیر ہونے والی سوسائٹی میں بہاریوں کی اکثریت تھی لیکن بہاری اور غیر بہاری محبت سے رہتے تھے۔ تعلیم و تربیت شرف آباد کے ہرگھرکی ترجیح تھی۔ یہ محلہ تعلیم یافتہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا جن میں وکلاء اساتذہ، ڈاکٹر، صحافی، ادیب اور دیگر شامل تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ شرف آباد جن معروف شخصیات کا قیام رہا جن میں جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالوحید، جامعہ اردو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اقبال محسن، ایس ایم آرٹس کالج کے وائس پرنسپل پروفیسر جمیل احمد، ماہرتعلیم میجر آفتاب حسن، معروف وکلاء ایس ایم سہیل، ابوالفضل مکارم، احسان الصمد، اسرار الحسن۔ ساتھ میں صحافی اور ادیب حسن مثنیٰ ندوی، صبیح محسن، تنویر احمد تمنائی اور رخسانہ صبا کے ساتھ دوسرے شعبے مثلاً رقص و نغمہ کی شخصیات شامل ہیں، ان میں ڈانس ماسٹرگھنشیام جو اپنے گھر میں رقص کی تربیت دیتے تھے۔ مشہور بنگالی موسیقار دیبو بھٹا چارجی،گلوکارہ دینا لیلیٰ جو مخدوم امین فہیم کی اہلیہ تھیں۔ ٹی وی پروڈیوسرآفتاب عظیم، ناظم الدین ناظم، نیوزکاسٹر سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ معروف شاعر افتخار عارف نے رفتگاں کی یاد کے عنوان سے لکھا ہے کہ ہم اپنے رفتگان کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ دلوں کو آباد رکھنا چاہتے ہیں۔ دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ شرف آباد کا ایک اعزاز بیدل لائبریری ہے۔ اس کتب خانہ کے ذخیرہ کتب سے ایک دنیا مستفید ہوتی ہے۔ ہمارے ممدوح استاد کی منزل میں حضرت مولانا حسن مثنیٰ ندوی سے بھی اس دار المطالعہ کی بڑی رونق تھی۔ معروف گائنا کالوجسٹ ڈاکٹرشیر شاہ سید نے اپنے استاد ڈاکٹر پروفیسر عبدالوحید کی یاد میں لکھتے ہیں کہ ڈاؤمیڈیکل کالج میں داخلے کے دو سال بعد پہلے امتحان ( فرسٹ پروفیشنل ) میں اناٹومی کے مضمون میں بری طرح فیل ہوگیا۔ ڈاکٹر شیر شاہ مزید لکھتے ہیں کہ میرا زیادہ تر وقت کینٹین میںگزرتا تھا مگر میں زیادہ تر پروفیسر عبد الوحید کی ہی کی کلاس میںگیا۔ افسوس اس بات کا تھا، جن اساتذہ کی کلاسوں میں نہیںگیا، اس مضمون میں پاس ہوگیا۔ پروفیسر عبدالوحید شاعرتھے۔ اناٹومی کلاس میںہمیشہ شعر پڑھ کر تعلیم دینے میںشہرت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال محسن نے اپنے مضمون’’ چوہتّر (74) نمبرکی بس‘‘ کے عنوان سے لکھاہے کہ بہارکالونی یا پی آئی بی 1947میںآنے والے مہاجرین کا ایک طرح سے کیمپ تھا۔ ان کی اصل آبادکاری کو آپریٹو سوسائٹی کی اسکیم کے تحت ہوئی جس میںایک طرف تو سرکاری ملازمین کے لیے پی ای سی ایچ ایس کوآپریٹو سوسائٹیز بنیں تو دوسری طرف غیر سرکاری لوگوںکو اپنی مہاجرت کی بنیاد پر بہارہاؤسنگ سوسائٹی یا دلی مسلم کوآپریٹو سوسائٹی۔ ’’چوہتّر(74)نمبرکی بس‘‘ بہادرآباد چورنگی سے چلتی تھی جو مجھے اپنے گھر سے نظرآتی۔ یہ بس رینگتی ہوئی چلتی، وہ بھی الٹی سمت۔ ان دنوں گاڑیاں خال خال تھیں۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے ’’ بیدل لائبریری ہمارا تہذیبی ورثہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ یہ لائبریری اس وقت اردو، فارسی اور انگریزی کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں، پاک و ہند کے اہم اخبارات، ادبی جرائد، اردو فارسی کے مخطوطات اور مشہور شخصیت کے گوشواروں پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک حصہ دارالمطالعہ ہے، جس میں زیادہ تر قاری مصروف مطالعہ رہتے ہیں۔ دوسرا حصہ محققین کے دم سے آباد ہے۔ یہاں کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں کے علاوہ ہندوستان، ترکی، جاپان، امریکا، جرمنی اور ماریشس سے بھی محققین آتے رہتے ہیں۔ بہت کم ہی سہی مگر کبھی کبھار علمی نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ مصنفہ نے لکھا ہے کہ اس لائبریری کے خزانے کا ایک حصہ زبیر بھائی کی ذات بھی ہے ٹھنڈے میٹھے چشمے کی طرح۔ اس کی گواہی پی ایچ ڈی اور ایم فل اردو کے وہ تمام محققین دیں گے جو کراچی کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی آتے ہیں۔گویا زبیر بھائی اور لائبریری ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرے۔ اس کتاب میں کئی مضامین محمود لئیق کے نام سے شایع ہوئے ہیں۔ ان میں ایک مضمون کا عنوان ’’شرف آباد کی چند معروف شخصیات‘‘ ہے۔ محمود لئیق اور جمال محسن کی جستجوکی وجہ سے شرف آباد کے تناظر میں کراچی کے بارے میں اہم معلومات بیان کی گئی ہے۔ کراچی شہر اور اس کی قدیم بستیوں کے بارے میں کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں کے بارے میں کئی اہم کتابیں تحریرکی گئی ہیں، یہ کتاب ان میں ایک اہم اضافہ ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل