Wednesday, February 05, 2025
 

عطا تارڑ بطور وزیر اطلاعات

 



پاکستان کی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی بن گیا ہے کہ اب یہاں کارکردگی کے بجائے بیانیوں کی لڑائی رہ گئی ہے۔ حقائق کے بجائے پراپیگنڈے کی لڑائی بن گئی ہے۔ سچ کے بجائے جھوٹ کی طاقت کی لڑائی بن گئی ہے۔ خبر کے بجائے ٹرول کی لڑائی بن گئی ہے۔ پاکستان کی میڈیا وار پاکستان سے باہر چلی گئی ہے۔ باہر بیٹھے لوگ پاکستان کا میڈیا کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی ترجمان اور وزارت اطلاعات ایک نہایت مشکل کام بن گئی ہے۔ یہ ماننا ہوگا کہ تحریک انصاف کے ٹرول اور بیانیوں کی جنگ نے میڈیا وار ہی بدل دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے جب وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالا تو یقیناً کوئی آئیڈیل صورتحال نہیں تھی۔ انھیں مختلف محاذوں پر میڈیا وار کا سامنا تھا۔ تحریک انصاف کے ان کے پیش رو ایسی روایات طے کر گئے تھے کہ کام بہت مشکل ہو گیا تھا۔ عطا تارڑ کے پاس کوئی ٹرول بریگیڈ نہیں تھی۔ ان کا وزیر اعظم جھوٹے بیانیوں کے ساتھ کام چلانے کے حق میں نہیں تھا۔ وہ جھوٹ بیچ نہیں سکتے تھے۔ ان کے ہاتھ کافی محاذوں پر بندھے ہوئے تھے۔ وہ نہ تو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کر سکتے تھے اور نہ ہی ان کو اپوزیشن کے خلاف وہ زبان استعمال کرنی تھی جو ان سے پہلے تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات استعمال کرتے رہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بانی تحریک انصاف کو وہی وزیر اطلاعات پسند تھا جو زیادہ بدتمیز ہو ۔ جو جتنی زیادہ گالی نکال سکتا تھا اتنا ہی اچھا وزیر اطلاعات تھا۔ لیکن عطا تارڑ کو تو گالی نکالنے کی بھی اجازت نہیں۔ اس لیے میری رائے میں ان کے لیے گالی نکالنا کافی مشکل تھا۔ شاید کسی کو یاد نہ ہو لیکن جب 2018میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی تو سب سے زیادہ برا وقت میڈیا پر ہی آیا تھا۔ ایک بیانیہ بنایا گیا کہ میڈیا کو اشتہارات جاری نہیں کیے جانے چاہیے۔ جس کی وجہ سے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز ڈاؤن سائزنگ کرنے پر مجبور کر دیے گئے‘ روزانہ کی بنیاد پر صحافی بے روز گار ہونے لگے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی جو بچ گئے ان کی تنخواہیں کم کرنا پڑ گئیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کئی بے روز گار صحافیوں نے بریانی کے اسٹال بھی لگائے تھے کہ ہم کیاکریں۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اینکرز اور سنئیر صحافیوں کی تنخواہوں کے خلاف ایسے بیانیہ بنایا گیا جیسے یہ کوئی ڈکیتی کر رہے ہیں۔ ایسی پالیسی اور ایسے حربے اختیار کیے گئے کہ سب کی تنخواہیں کم ہو جائیں۔ اس کے جواب میں ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو مجھے کہیں کسی بھی جگہ ڈاؤن سائزنگ نظر نہیں آئی ہے۔ کسی ادارے نے بھی بڑی تعداد میں بیک جنبش قلم صحافیوں کو نوکریوں سے نہیں نکالا ہے۔ کئی اداروں کی مالی حالت بہتر ہوئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عطا تارڑ کے دور میں عام صحافی کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ میں مانتا ہوں صورتحال آئیڈیل نہیں ہے۔ لیکن اگر تحریک انصاف کے دور سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال کافی بہتر ہے۔ مشکلات ہیں لیکن کم بھی ہوئی ہیں۔ عطا تارڑ نے کافی حد پاکستان کی سیاست سے گالم گلوچ کے کلچر کو بھی کم کیا ہے۔ انھوں نے گالم گلوچ کے بجائے دلیل سے بات کرنے کے ماحول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب ٹاک شوز میں ویسے گالم گلوچ نظر نہیں آتی جیسے پہلے تھی۔ اب حکومتی وزرا اپوزیشن کو اپنی طاقت سے چپ کرواتے نظر نہیں آتے۔ لیکن پھر بھی حکومتی بیانیہ چل رہا ہے۔ عطا تارڑ نے ثابت کیا ہے بدتمیزی کے بغیر بھی بات منوائی جا سکتی ہے۔ لوگوں کو آج بھی دلیل سے قائل کیاجا سکتا ہے۔ہمیں اس تبدیلی کو سمجھنا اور اس کا احساس کرنا ہوگا۔ اگر ہم پاکستان میں مہذب سیاست چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی پذیرائی بھی کرنا ہوگا۔شاید آپ کو یاد ہو جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ایک حکومتی وزیر نے ایک ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما پر ایک بھارتی اداکارہ سے تشبیح دی تھی‘ ساتھی خاتون سیاستدان کو ایسا کہنا کوئی اچھی روایت نہیں تھی۔ لیکن حکومتی پالیسی یہی تھی کہ بس حملہ کر دو۔ عطا تارڑ نے آج تک کسی اپوزیشن کی خاتون رہنما کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا۔ یہی فر ق ہے۔ عطا تارڑ نے اپنے ساتھ کوئی شہباز گل بھی نہیں رکھا ہوا۔ ورنہ حکومت کو تو ایک نہیں کئی شہباز گل مل سکتے ہیں۔ عطا تارڑ کا راستہ مشکل ضرور ہے۔ لیکن ایک سال میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ان پر کس قدر دباؤ تھا کہ بس اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ ایک گالی کے جواب میں دس گالیاں دی جائیں۔ ان پر بھی دباؤ تھا کہ ایک گالم گلوچ بریگیڈ بھرتی کر لیں۔ لوگوں کو گالم گلوچ پر لگا دیں۔ حکومتی وسائل سے یہ کوئی مشکل نہیں۔ آج بھی کے پی حکومت میں سیکڑوں لوگوں کو اسی کام کے لیے بھرتی کیاگیا ہوا ہے۔عطا تارڑ کے پاس یقیناً کے پی حکومت سے زیادہ وسائل ہیں لیکن انھوں نے یہ کام نہیں کیا ہے۔ عطا تارڑ حکومتی کارکردگی اور کام پر حکومتی بیانیہ بنا رہے ہیں۔ مشکل کام ہے، لمبا راستہ ہے لیکن صحیح راستہ ہے۔ وہ حکومت کے ترجمان کے طور پر حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر میڈیا ٹاک حکومتی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کی بھی زیادہ تر گفتگو حکومتی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے کام عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یقیناً اس راستے میں راتوں رات نتائج نہیں آتے۔ لیکن یہ دیرپا اور مثبت نتائج دیتا ہے۔ اس لیے ایک سال بعد یقیناً حکومتی کارکردگی کے بارے عام آدمی کی مثبت رائے سامنے ہے۔ عام آدمی کہہ رہا ہے کہ حکومت نے ایک سال میں کافی کام کیا ہے۔ مہنگائی کم ہوئی ہے۔ گالم گلوچ کے مقابلے میں کارکردگی کو بیچنا مشکل ہے۔ لیکن اصل کام یہی ہے۔ آپ کہیں گے کہ وہ تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہیں۔ تنقید سیاست کا بنیادی جزو ہے۔لیکن تنقید اخلاق کے دائرے میں ہونی چاہیے ۔ انھوں نے پاکستان میں اخلاق سے بات کرنے کا کلچر دوبارہ شروع کیا ہے۔اب اپوزیشن کو ویسے گالیاں نہیں دی جاتیں جیسے پہلے دی جاتی تھیں۔ یہ تبدیلی محسوس کرنی چاہیے۔ میری رائے میں عطا طارڑ کے لیے گالم گلوچ کا راستہ آسان راستہ تھا۔ لیکن انھوں نے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن ایک سال بعد اس کے کافی حد تک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل