Wednesday, February 19, 2025
 

تعلیم، مہذب معاشرہ اور سماجی ذمے داریاں

 



تعلیم کا بنیادی تعلق فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تبدیلی سے بھی جڑا ہوتا ہے۔کیونکہ تبدیلی کا عمل سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔آج کے جدید تعلیمی تصورات میں سماجی ہم آہنگی اور سماجی ذمے داریوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عمل معاشرے میں موجود پہلے سے تقسیم کو ختم کرتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ان میں سماجی ذمے داریوں کا احساس پیدا کرتا ہے۔ایک بکھرا ہوا سماج جو مختلف زاویوں میں تقسیم ہو اس میں سماجی ہم آہنگی اور سماجی ذمے داری کا عمل لوگوں میں احساس ذمے داری کو نمایاں کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح آج کے جدید تعلیمی تصورات میں سوک ایجوکیشن کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اس سے مراد معاشرے کی تعلیم و تربیت ہے تاکہ افراد انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کریں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ اس طرز کے معاشرے صرف داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی سطح پر بھی اپنی ساکھ کو قائم کرتے ہیں اور ایسے معاشروں کی قبولیت دنیا میں ایک معزز معاشرے کے طور پر کی جاتی ہے۔یعنی ایسے معاشرے جہاں تعلیم اور تربیت کا آپس میں باہمی تعلق ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے اندر بنیادی نوعیت کی سماجی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ لوگوں میں انفرادی سطح پر یہ امنگ اور جوش پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں بنیادی سطح کی تبدیلیاں لائیں جو معاشرے سمیت عام لوگوں کی حالت کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔اسی طرح انفرادی سطح پر لوگ معاشروں کو بدلنے میں رضاکارانہ بنیادوں پر اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور ایسے سماجی کام کرتے ہیں جس سے معاشرے کے محروم اور کمزور طبقات کی محرومی پر مبنی زندگیوں میں اہم تبدیلیاں لائی جا سکیں۔ یہ جو ہمیں معاشرے میں محرومی کی سیاست غالب نظر آتی ہے یا معاشرے کے محروم طبقات کے بارے میں  تعصبانہ رویے موجود ہیں ان کا خاتمہ بھی سماجی ذمے داریوں کے زمرے میں آتا ہے۔ تعلیم کی مدد سے سماجی تبدیلی کا یہ عمل معاشروں میں ایک مثبت تبدیلی کے عمل کو جنم دیتا ہے اور معاشروں میں ایک نکھار پیدا ہوتا ہے۔یہ ہی تعلیم کی خوبی ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر جدید تعلیمی تقاضوں کو معاشرے کی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ جو معاشروں میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا عمل ہوتا ہے یا سماجی شعور کا ارتقا ہوتا ہے اس کا بھی گہرا تعلق تعلیم کے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ تعلیم میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں وقت کے ساتھ لائی جاتی ہیں تاکہ معاشروں کو جدیدیت کے ساتھ جوڑا جا سکے۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارا تعلیمی نظام محض ڈگریوں کا کاروبار کر رہا ہے اور سیاسی اور سماجی تبدیلی کا عمل ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ہمارے تعلیمی نصاب میں جدید بنیادوں پر تبدیلی کا عمل مکمل ہی نہیں کیا جا سکا اور ہم آج بھی روایتی طرز تعلیم کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں یا فرسودہ سوچ ہم پر غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو سیاسی اور سماجی شعور سے دور رکھنا بھی ہمارے نظام کی ترجیحات کا حصہ ہے۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بس اس حد تک شعور دیا جائے جس سے حکمران طبقے کے مفادات کو تقویت مل سکے۔کیونکہ جہاں لوگوں میں سیاسی اور سماجی شعور آئے گا وہاں حکمرانوں کو چیلنج کرنے کے عمل کو تقویت ملتی ہے جو طاقتور طبقات کو قابل قبول نہیں۔اسی بنیاد پر تعلیمی نظام اور نصاب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں سے گریز کیا جاتا ہے اور ایک روایتی طرز فکر کا غلبہ تعلیمی نظام پر غالب ہے۔ ریاست بنیادی طور پر طے کرتی ہے کہ اس کی تعلیمی ترجیحات کیا ہوں گی اور وہ معاشرے کو ان تعلیمی ترجیحات کی بنیاد پر کہاں لے کر جانا چاہتی ہے۔اگر اس کے سامنے ترجیحات میں تعلیم سے زیادہ سیاسی مفادات غالب ہوں گے تو پھر وہی کچھ دیکھنے کو ملے گا جو اس وقت ہم پاکستانی معاشرے میں تعلیم، سماج اور معاشرے کی تشکیل کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔یہ جو ہمیں بکھرتا ہوا سماج نظر آرہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی اور تعلیم کو بنیاد بنا کر سماجی نظام کو بہتر بنانا ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔سماجی سطح پر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی یا عدم برداشت کے معاملات اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ رواداری پر مبنی معاشرہ محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس شدت پسندی سے کیسے نمٹا جائے اوراس سے کیسے نجات حاصل کی جائے اس کا بیانیہ یا اس سے نمٹنے کی حکمت عملی ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں کم دیکھنے کو مل رہی ہے۔تعلیم اور تحقیق کے ادارے اس بنیادی موضوع پر تحقیق کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ہمارے نظام میں ایسی کیا خرابیاں ہیں یا کون اس کا ذمے دار ہے جس کی وجہ سے شدت پسندی جنم لے رہی ہے۔ سماجی معاملات پر حکومتی نظام کی سرمایہ کاری اس حد تک کم ہے کہ ہم نہ تو نئے ادارے بنا رہے ہیں اور نہ ہی تحقیق کے لیے کوئی بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔محض زبانی باتیں کر کے یا لچھے دار گفتگو کر کے ہم لوگوں کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔مسئلہ محض حکومتی نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتیں جو سماج کو بدلنے کا بہت دعوی کرتی ہیں۔ ان کے پاس بھی سماجی سطح پر کوئی کام نہیں ہے۔سوائے کچھ مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی شامل ہے ان کا سماجی شعبے کا کام ہے لیکن وہ بھی سروس ڈیلیوری تک محدود ہے۔قومی سیاسی جماعتوں کے پاس سماجی شعبے میں کام کرنے کا نہ تو کوئی وسیع تجربہ ہے اور نہ ہی کوئی ایجنڈا۔ان کی زیادہ تر سیاست اقتدار کے کھیل تک محدود ہوتی ہے۔ایک اچھا تعلیمی نظام ایک اچھا طالب علم پیدا کرتا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے ہمارے پاس اچھے طالب علم کے ساتھ ساتھ اچھے استاد بھی ہوں۔ایسے استاد جن کو نہ صرف تعلیم دینے کا شوق ہو بلکہ ان کا سماجی اور سیاسی ادراک بھی ہو اور ان میں سماجی ذمے داری کا احساس موجود ہو۔ بنیادی حقوق کا جو پہلا باب آئین پاکستان میں درج ہے اس سے آگاہی نہ ہونا یقینی طور پر طالب علموں میں سماجی ذمے داری کا احساس پیدا نہیں کر سکے گا۔ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی ضامن بنے اور شہریوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ریاستی قوانین کی پاسداری کریں۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا اول ایک دوسرے کو آگاہی ہو اور دوسرا اس پر عمل درآمد ہو۔کیونکہ اگر سماجی ذمے داری کے اس عمل میں حکومتی نظام میں شہریوں کے ساتھ تفریق کے پہلو ہوں گے یا ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دی جائے گی تو اس سے حکومت کے نظام کا عام شہریوں کے ساتھ ٹکراؤ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں جہاں اچھے پروفیشنل پیداکرنے ہیں وہاں اچھے انسان جو سماج کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل