Loading
بھئی پوٹھوہار کے بھی کیا کہنے ہیں۔۔۔ تاریخ کا مارا ہوا یہاں آ کر کبھی بور نہیں ہوتا۔ کہیں قلعے ہیں تو کہیں بارہ دری اور مندر۔ کہیں ڈٰیم ہیں تو کہیں خوب صورت وادیاں، جھیلیں اور مقبرے۔ یہ علاقہ جتنا قدیم ہے اتنا ہی خوب صورت ہے اس لیے ہر سال اسلام آباد کے دورے پر میں اطراف میں نکلنے کی کوشش لازمی کرتا ہوں۔ اس بار بھی جب اپنے چکوالی بائیکر دوست حال مقیم پنڈٰی، محسن منہاس کو اٹک کا پلان بتایا تو وہ خوشی سے ساتھ دینے پر تیار ہوگئے۔ ایک نئی اور اچھوتی جگہ پر کون نہیں جانا چاہے گا پھر محسن جیسا شخص جو خود سفر کا شیدائی ہے۔ اس بار میں نے اسلام آباد سے باہر جی ٹی روڈ کے اس حصے کو کھوجنے کا منصوبہ بنایا جو ضلع اٹک سے گزرتا ہے۔ ساتھ خیرآباد (نوشہرہ) اور اٹک خورد کی بھی کچھ جگہیں شامل کر لیں اور یوں ایک دن کا ہمارا زبردست پلان تیار ہوگیا۔ ہم صبح دس بجے پنڈی سے نکلے اور فہرست کے مطابق تمام جگہیں دیکھ کر رات آٹھ بجے واپس پہنچ گئے، بلکہ کچھ مقامات قدرت کی طرف سے بونس بھی مل گئے جو ہر مسافر کے نصیب میں لکھے گئے ہوتے ہیں۔ ضلع اٹک کی بات کرتے ہیں۔ راولپنڈی ڈویژن میں واقع ضلع اٹک، پنجاب کا پہلا ضلع ہے جس کے مشرق میں راول پنڈی، جنوب میں چکوال و میانوالی، مغرب میں نوشہرہ و کوہاٹ اور شمال میں ہری پور و صوابی کے اضلاع واقع ہیں۔ یوں یہ خیبر و پنجاب کے سنگم پر واقع ہے جس کی غربی و شمالی سرحد دریائے سندھ بناتا ہے۔ یہ ضلع 1904 میں بنایا گیا تھا جس کا نام اس وقت کے برطانوی فوجی کمانڈر ’’سرکولن کیمبل‘‘ کے نام پر کیمبل پور رکھا گیا تھا۔ کیمبل پور کے نام سے مشہور اٹک کا بیشتر حصہ سطح مُرتفع پوٹھوہار پر مشتمل ہے۔ ضلع کے مشرق میں پوٹھوہار کی پہاڑیاں، وسط میں کالا چٹا کا چھوٹا پہاڑی سلسلہ و جنگلات اور جنوب میں دریائے سواں اور اس میں ملنے والے ندی نالے واقع ہیں۔ دریائے ہرو ضلع کا ایک مرکزی دریا ہے جو غازی بروتھا کے قریب دریائے سندھ میں جا ملتا ہے۔ ادھر اٹک خورد کے قریب دریائے کابل، سندھ کا حصہ بنتا ہے۔ انہی دریاؤں اور پہاڑیوں کے بیچ اٹک کے زرخیز میدان واقع ہیں جو گندم، مونگ پھلی، مکئی، باجرہ، دالیں، لوکاٹ، چیکو، امرود، آڑو اور کیلا پیدا کرتے ہیں۔ پنجاب کا ساتواں بڑا ضلع اٹک، چھے تحصیلوں پر مشتمل ہے جن میں حسن ابدال، حضرو، فتح جنگ، پنڈی گھیب، جنڈ اور اٹک شامل ہیں۔ ضلع کا رقبہ 6857 مربع کلومیٹر اور آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کی دو جب کہ صوبائی اسمبلی میں پانچ سیٹیں ہیں اور دل چسپ بات یہ کہ پنجاب میں دونوں اسمبلیوں کے حلقہ نمبر یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ پنجاب کے چند ہی اضلاع ہیں جہاں سے معدنیات نکالی جاتی ہیں جن میں اٹک بھی شامل ہے۔ یہاں تیل، گیس، چٹانی نمک، سنگ مرمر، کپسم، چونے کا پتھر، کوئلہ، تانبا اور لوہا پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں دریائے سندھ میں سونے کے ذخائر بھی ملے ہیں جنہیں نکالنے کا کام جاری ہے۔ اب میں باری باری آْپ کو ان سب جگہوں پر لے چلتا ہوں جو ہم نے اس مختصر سے سفر میں دیکھیں۔ ضلع کی باقی جگہیں پھر کسی سفرنامے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ بُرہان حسن ابدال اور فقیر آباد اسٹیشن کے بیچ واقع بُرہان ریلوے اسٹیشن، پشاور ریلوے ڈویژن کا سب سے پہلا اسٹیشن ہے کہ ریلوے کا پشاور ڈویژن یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ چھوٹے سے خوب صورت اسٹیشن کی عمارت جی ٹی روڈ کے کنارے واقع ہے جہاں کوئی مسافر گاڑی نہیں رکتی۔ یہاں کے اسٹیشن ماسٹر کا تعلق لکی مروت سے ہے۔ انہوں نے ہمیں دل چسپی سے ریلوے کے آلات کے بارے بتایا۔ ہمارے ہوتے یہاں سے عوام ایکسپریس گزری تو اس کو بھی فلم بند کرلیا اور اگلے اسٹیشن کی جانب روانہ ہوئے۔ لارنس پور اسٹیشن بُرہان سے اگلا اسٹیشن فقیرآباد ہے جو کسی زمانے میں لارنس پور ہوا کرتا تھا۔ جب ہم نے ساہیوال کو منٹگمری اور فیصل آباد کو لائل پور نہ رہنے دیا تو پھر لارنس پور جیسا چھوٹا قصبہ کیسے نام کَرن (نام رکھنا) سے بچ سکتا تھا سو اس کا نام بھی علاقے کی ایک مشہور ہستی کے نام پر فقیر آباد رکھ دیا گیا، مگر اسٹیشن سے کچھ دور واقع کپڑے کی وہ مِل آج بھی لارنس پور کہلاتی ہے جس کا کپڑا پاکستان بھر میں ایک برانڈ مانا جاتا ہے۔ لارنس پور کا اسٹیشن کیا ہے، ایک گھنے پیڑ کے ارد گرد بسی خیالوں کی وہ خوب صورت بستی ہے جہاں آج بھی بوڑھے بابے اور کچھ بچے آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے اپنے شغل جاری رکھتے ہیں۔ اس کے ایک طرف سنجوال کا اسٹیشن ہے جب کہ دوسری طرف شہر۔ اسٹیشن سے کچھ دور واقع آئل مل اور فوجی چوکیوں کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ آج کل یہاں صرف تھل ایکسپریس رکتی ہے۔ اس سے اگلا سٹاپ ہمارا بابِ اٹک تھا، جہاں سے اٹک شہر کو ایک راستہ جا نکلتا ہے۔ یہاں تصویر بنا کے ہم نے آگے کی راہ لی۔ گوندل، مانسر اور ملاں منصور سے ہو کر ہم پہنچ گئے مقبرہ اٹک۔ مقبرہ اٹک پہلے تو ماتھا ٹھنکا کہ مقبرے کا نام شہر کے نام پر کیوں ہے؟ کیا یہاں مدفون ہستی کا کوئی نام نہیں تھا؟ پھر تاریخ میں جھانکا تو معلوم ہوا کہ سڑک کنارے تنہا کھڑا یہ مقبرہ کس کا ہے اور کب تعمیر کیا گیا اس بارے کوئی مستند حوالہ دستیاب نہیں ہے، اس لیے اسے مقبرہ اٹک کا نام دیا گیا ہے۔ دو منزلہ چھوٹا سا مقبرہ ایک غیرمصدقہ مقامی روایت کے مطابق ایک کنیز یا لونڈی کا ہے جس کی ایک قافلہ گزرنے کے دوران یہاں موت واقع ہوئی تو اسے دفنا دیا گیا۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ لونڈی اتنی مشہور یا اہم تھی کہ اس کی قبر پر مقبرہ بنایا جاتا؟ تُزکِ جہانگیری کے مطابق 989 ھ کی ایک رات اکبر کی چہیتی لونڈی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام دانیال رکھا گیا۔ شہزادہ دانیال کی ماں 1896 میں وفات پاگئی۔ تاریخِ سلیم میں اس لونڈی کا نام مریم بی بی لکھا گیا ہے۔ بعض لوگ اس مقبرے کو بی بی مریم کے نام سے بھی منسوب کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں ایک اور غیرمصدقہ روایت یہ بھی ہے کہ وقت کی مشہور رقاصہ کو علاقے کے بڑوں نے قتل کرکے یہاں پھینک دیا تھا، ایک شاہی قافلے کا گزر ہوا تو انہوں نے دفنایا اور پھر بعد میں یہاں اس کا مقبرہ بنا دیا گیا۔ تبھی اسے مقامی طور پر ’’کنجری دا مقبرہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ سو اس مقبرے کی مستند تاریخ ابھی تک سات پردوں میں چھپی ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہاں لگے تاریخی بورڈ کے مطابق یہ سولہویں صدی کے مغلیہ دور کی عمارت ہے (جو کہ لگتی بھی ہے) اور اس مقبرے کا فنِ تعمیر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ اکبر کے عہد میں تعمیر ہوا ہوگا۔ اس کے طرزِتعمیر کی بات کریں تو یہ مقبرہ دوہرے گنبد کا حامل ہے جو شاید ملک کے اس حصے میں اپنی نوعیت کی منفرد و قدیم مثال ہے (لاہور کا مقبرہ علی مردان بھی دوہرا گنبد رکھتا ہے)۔ مقبرے کو پھولوں کے ڈیزائن اور فریسکو سے سجایا گیا ہے۔ مقبرے کے اطراف میں دو زینے بنائے گئے ہیں جو اوپر تک لے جاتے ہیں جہاں چاروں جانب ایک بالکونی بھی بنائی گئی ہے۔ کہیں کہیں سے عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر اور مسالا اب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مقبرے کے پچھلے حصے میں باہر کی جانب پتھر کے چبوترے پر بھی دو قبریں موجود ہیں اور صاحبِ مقبرہ کے طرح وہ بھی گم نام ہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بی بی مریم کی خادمائیں یا مقبرے میں مدفون کسی دوسری ہستی کے عزیز ہوں۔ مندر و سمادھیاں مقبرے سے کچھ آگے بائیں جانب سڑک کنارے ایک اونچی چٹان پر ایک تنہا مندر نظر آیا جو ایک کمرے پر مشتمل اور قدرے بہتر حالت میں تھا۔ اوپر چڑھے تو دیکھا اس کے آس پاس گھر ہیں اور چارہ کاٹنے والی مشین بھی لگی ہوئی ہے یعنی یہ جگہ بالکل ویران نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی کے زیرِاستعمال ہے۔ اچھی بات یہ کہ تاریخی عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ مندر ایک پہاڑی پر ہے اور نیچے اسی جانب ایک اور مندر بھی ہے جس کے سامنے ایک قدیم عمارت کے آثار نظر آتے ہیں جس کے عقب میں ایک مشہور بزرگ حضرت محمد یحییٰ عرف بابا جی کا مزار ہے۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ اٹک قلعے کی تعمیر کے وقت دریائے سندھ میں جب پہلے بُرج کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی تو آپ کو بلایا گیا۔ آپ نے اللّہ سے دعا کی اور اللّہ کے حکم سے اس جگہ دریا کچھ پیچھے ہٹ گیا جہاں برج کی بنیاد ڈالی گئی۔ اب اس ٹوٹی پھوٹی عمارت کا مرکزی محرابی دروازہ، دیوار کا کچھ حصہ اور ایک گول گنبد والا سمادھی نما کمرا ہی باقی ہے۔ قیاس ہے کہ یہ کوئی دھرم شالہ یا سمادھی کمپلیکس رہا ہو گا کیوںکہ اس کے قریب مغرب میں دو چار مندر و سمادھیاں اب بھی موجود ہیں۔ یہ تعمیرات دیکھنے سے بہت قدیم لگتی ہیں۔ ان کے پیچھے دریائے سندھ بہتا نظر آتا ہے۔ بہرام کی بارہ دری ہم کچھ آگے بڑھے تو مرکزی جی ٹی روڈ پر بائیں ہاتھ بہرام کی بارہ دری نظر آئی جو ہمارا اگلا اسٹاپ تھا۔ بہرام سے منسوب یہ بارہ دری پتھر کی چاردیواری میں بند تھی جبکہ مرکزی دروازہ خوش قسمتی سے کھلا ہوا تھا۔ اس جگہ کے بارے میں مستند معلومات مجھے نہیں ملیں اور جگہ جگہ ایک ہی تاریخ لکھی گئی ہے جو یہاں محکمۂ آثار قدیمہ کے بورڈ پر بھی پڑھی جا سکتی ہے جس کے مطابق یہ بارہ دری خوشحال خان خٹک کے بیٹے بہرام خان نے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر تعمیر کروائی تھی۔ بہرام خان 1643 میں پیدا ہوا اور ایک وقت میں باپ کا دشمن بن گیا تھا جس کی وجہ سے اس نے مغلوں کا ساتھ دیا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مغل بادشاہ اکبر کے حکم پر سپاہ سالار بہرام (یا بیرم خان) نے اسے تعمیر کرایا تھا لیکن اکبر کے درباریوں میں ایسا کوئی نام تاریخ کی کتابوں میں تو نہیں ملتا۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ خوشحال خان کے بیٹے بہرام کی تعمیر کردہ ہو لیکن اس پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ تین کمروں پر مشتمل بارہ دری کی مرکزی عمارت جنوب میں واقع ہے جس کے نیچے تہہ خانہ بھی موجود ہے۔ بارہ دری کے مربع شکل ڈھانچے کے ہر طرف تین دروازے ہیں۔ یہ ڈیزائن خاص طور پر ہندوستان کے اعلیٰ درباریوں کے لیے پیش کیے جانے والے رقص یا مختلف موسیقاروں اور شاعروں کی پرفارمنس کے لیے موزوں خیال کیا جاتا تھا۔ یہاں مرکز میں ایک چبوترہ ہے جس کے وسط میں ایک چھوٹا حوض ہے جہاں پانی جمع ہوتا تھا۔ اس چبوترے سے نکلنے والی چار چھوٹی نالیاں، احاطے کو چار مربع شکل حصوں میں تقسیم کرتی ہیں تبھی اسے چہار باغ کہا جاتا ہے۔ یہ نالیاں دیوار تک جا کے ختم ہوجاتی ہیں اس لیے اب یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کا پانی آگے کہاں تک جاتا تھا۔ اس کے قریب ہی ایک گڑھا ہے جس میں چاروں طرف محرابیں دبی ہوئی نظر آتی ہیں، اس کے بارے ایک دوست نے بتایا کے یہ پانی جمع کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یعنی جو اضافی پانی حوض سے نکلتا تھا اسے یہاں سٹور کر لیا جاتا تھا۔ اس کے قریب ہی پتھر کی چاردیواری ہے (جس میں محرابیں بنی ہوئی ہیں) اور اس کے بیچ ایک چبوترہ موجود ہے۔ اس کے بارے میں مقامی دوست نے بتایا کے یہ اورنگزیب کے سپاہیوں اور عمائدین کے لیے تھا کیوںکہ وہ بادشاہ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے، سو ان کا انتظام الگ کیا گیا تھا۔ یہاں کونے پر ایک چھوٹی مسجد اور عمارت کے پیچھے ایک گہرا کنواں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پنجاب ٹورازم ڈٰپارٹمنٹ نے یہاں ایک دو بورڈ تو لگا رکھے ہیں لیکن اس جگہ کی حالت بتا رہی تھی کہ یہاں کوئی اور ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔ سڑک کے بالکل کنارے پر واقع ہونے کے باوجود اس جگہ کو محکمے کی جانب سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ بارہ دری کے شرقی جانب ایک مندر بھی موجود ہے جو اب تک قائم ہے۔ قلعہ اٹک کچھ آگے بڑھے تو میرے بائیں ہاتھ قلعہ اٹک موجود تھا جسے میں نے حسرت سے دیکھا کہ یہ قلعہ شروع سے ہی آرمی کے زیرِانتظام چلا آ رہا ہے اور ہم جیسی عام عوام کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چلیں کچھ باتیں اس قلعے کی بھی ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کابل میں اپنے سوتیلے بھائی کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جب اکبر بادشاہ یہاں پہنچا تو ٹھاٹھیں مارتے دریائے سندھ نے اس کا راستہ روک لیا۔ کئی روز بادشاہ یہاں دریا کے شانت ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ بغاوت کو کچلنے کے بعد واپسی پر اس جگہ کی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر اکبر بادشاہ نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرنے حکم جاری کیا جسے خواجہ شمس الدین خوافی کی نگرانی میں 1581 سے 1583 کے دوران مکمل کیا گیا۔ قلعے کا سب سے پہلا بُرج دریا کے بالکل قریب (کہتے ہیں حضرت شاہ عیسیٰؒ کی دعا سے اس وقت دریا کے کچھ اندر) تعمیر کیا گیا تاکہ دریا سے پانی کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ اسی بُرج سے قلعے کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا۔ قلعہ بنانے کے بعد دریا پار کرنے کا معاملہ درپیش ہوا جس کے لیے اکبر نے بنارس سے کئی ملاحوں کو کشتیوں سمیت یہاں بلوایا تھا۔ کشتیوں کا یہ بیڑا دریا پار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی بنارس سے آئیان ملاحوں کی اولادیں قلعے کے قریب واقع بستی ’’ملاح/ملاحی ٹولہ‘‘ میں رہائش پذیر ہیں جہاں اکبر نے انہیں خاندان سمیت زمینیں دے کر آباد کیا تھا۔ قلعے کے نیچے کشتیوں کے وہ گھاٹ اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں پر شاہی فوج کی نقل و حمل کے لیے کشتیوں کا ایک پُل بنایا جاتا تھا۔ پھر یہ قلعہ مراٹھوں، افغانیوں اور سکھوں سے ہوتا ہوا انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ انگریز دور سے پہلے جرنیلی سڑک قلعے کے اندر سے گزرا کرتی تھی جسے بعد میں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ یہ سڑک موری دروازے سے ہوتی ہوئی ایک بازار سے ہوکر لاہوری دروازے سے باہر پشاور کو نکل جاتی تھی۔ اس قلعے کی حدود میں ایک طرف بیگم سرائے واقع ہے جو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نورجہاں کی فرمائش پر تعمیر کروائی تھی۔ یہ اس فوجی قلعے کی واحد رہائشی عمارت تھی جہاں ملکہ اور بادشاہ قیام کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ملکہ اور کنیزوں کے یہاں آنے جانے کے لیے تین سرنگیں بنائی گئی تھیں جو انگریز دور میں بند کر دی گئیں۔ باون فٹ بلند اور پانچ فٹ سے زیادہ چوڑی فصیل، اٹھارہ بُرجوں اور چار دروازوں (موری، دہلی، لاہوری و کابلی) میں گھِرا اٹک کا قلعہ 1956 سے سپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کے زیرانتظام ہے اور یہاں کی جیل میں میاں نوازشریف جیسے سیاسی قیدی بھی اسیر رہ چکے ہیں۔ ایک دل چسپ بات یہ کہ 63-1962 تک برطانیہ کے نائب وزیراعظم رہنے والے ممتاز سیاست داں رچرڈ بٹلر 1902 میں اٹک سرائے میں پیدا ہوئے تھے جو اس قلعے کا حصہ ہے۔ (جاری ہے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل