Wednesday, June 18, 2025
 

ایران، اسرائیل جنگ سنگین مرحلے میں

 



 ایران نے چوتھی بار اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب اور حیفہ شہر پر بیلسٹک میزائل و ڈرون داغ دیے، ایرانی حملے کے بعد اسرائیل میں حیفہ ریفائنری کو مکمل بندکردیا گیا۔ دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ چین نے امریکا کے کردار پر سخت تنقید کی ہے۔  ایران نے اسرائیل پر حملے کر اپنی اسٹرائیک بیک کی عسکری صلاحیت ثابت کردی ہے، عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران فوجی دفاعی شعبے میں پیشرفت کی سمت گامزن ہے۔ مغربی ایشیا میں ایران کا جغرافیائی محلِ وقوع اور آبنائے ہرمز پر اس کا کنٹرول اسے خطے میں ایک اسٹرٹیجک عسکری برتری فراہم کرتا ہے۔ اس تمام افراتفری میں ڈونلڈ ٹرمپ فخریہ کہتے نظر آتے تھے کہ امریکا دنیا کا بہترین فوجی ساز و سامان تیارکر رہا ہے اور اس نے یہی سامان اسرائیل کو دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے استعمال کیے جانے والے دو یا تین امریکی ساختہ ایف35 اسٹیلتھ طیارے بھی اس جنگ میں تباہ ہوئے ہیں، اگر ایک بھی ایف35 طیارہ گرا ہے تو یہ مغربی ملٹری انجینئرز کی ناکامی جب کہ نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ بات اپنے آپ میں ہی کافی حیران کُن ہے کہ بھاری پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ایران جس کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے، اسرائیل نے پہلے وار کرکے ایرانی موج کی اعلیٰ قیادت کو قتل کردیا لیکن اس قدر نقصان کے باوجود ایران نے اسٹرائیک بیک کرکے طاقتور دشمنوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایران اتنا مضبوط دفاع بنانے میں کیسے کامیاب ہوگیا ہے۔ ایک جدید ترین جنگی طیارے کو گرانے کے عالمی اسلحے کی مارکیٹ پر نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکی تجزیہ کار پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپ میں بھارتی نقصانات کا ذمے دار فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کو ٹھہراتے ہوئے خوش تھے، لیکن اب امریکا کو تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسرائیل امریکا کی بیس بن بن چکا ہے؟ سرد جنگ کے دوران، اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں مغرب کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا خاص طور پر اس نے دو بڑی جنگوں میں سوویت حمایت یافتہ عرب ممالک کو شکست دی۔ یہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر، مغرب نے خاموشی سے اسرائیل کو جوہری طاقت بننے کی اجازت دی۔ اب جب وہ ایران پر ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کرنے پر تنقید کرتے ہیں تو مغرب کا یہ رویہ دوہرا معیار لگتا ہے جب کہ ایران مسلسل کہہ رہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ لیکن پھر وہی بات ہے کہ عراق کو بھی انھوں نے اسی طرح تباہ کیا، یہ جھوٹ بولا کہ ’’صدام حسین ایٹم بم تیار کررہے تھے۔ ‘‘  ایرانی میزائلوں کا اسرائیلی ڈیفنس سسٹم کو عبور کر کے ہدف کو نشانہ بنانا پوری دنیا میں موضوع بحث بن گیا اور دفاعی تجزیہ نگار ایرانی سرپرائز پر حیرانی کا اظہار بھی کرتے دکھائی دیے۔ایران کی مزاحمت کے نتیجے میں لگتا یہی ہے کہ اسرائیل کو پریشانی لاحق ہوئی ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شاید پریشر میں آئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جی 7کانفرنس سے فوری طور پر امریکا روانگی کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں ایران کے حوالے سے خاصی معنی خیز لیکن سنگین نتائج والی گفتگو کی ہے تاہم اس میں مذاکرات کے حوالے سے بھی اشارہ ملتا ہے۔لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ممکنات میں سے ہے کہ کوئی معاہدہ طے پا جائے تاہم قرائن کو دیکھا جائے تو صورت حال برعکس نظر آتی ہے۔ایران کے موقف میں بھی بدستور سختی موجود ہے جب کہ نیتن یاہو کے عزائم اچھے نظر نہیں آ رہے۔عوامی جمہوریہ چین نے جو موقف دیا ہے وہ قدر حوصلہ افزا ہے لیکن یہ کتنا موثر ثابت ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنی مقامی دفاعی صنعت کو ترقی دی ہے اور مختلف فوجی سازوسامان کی اندرون ملک تیاری میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایران کا دفاعی بجٹ امریکا، چین یا روس جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہ کمی اقتصادی پابندیوں اور داخلی مالی مشکلات کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے کسی صورت ان عالمی طاقتوں کے بے تحاشا فوجی اخراجات سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایران پر اسرائیلی حملوں نے خطے کی سلامتی اور امریکا کی غیریقینی پوزیشن پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات اور اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی امریکا کے لاتعلقی کے بیانیے کو مشکوک بنا رہے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل