Saturday, July 12, 2025
 

معاشرتی زوال (پہلا حصہ)

 



 اپنے ملک پاکستان کی سالمیت اور معاشرتی امن و سکون کی ہر لمحہ دعا کی جاتی ہے اور بے اختیار ایسے اشعار تخلیق کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ اے میرے ملک ! تیری فضاؤں کی خیر ہو دریاؤں، جھیلوں، چشموں، ہواؤں کی خیر ہو ہمارے ملک کے حالات شروع ہی سے خراب ہیں،کبھی باد سموم، باد بہار میں بدل جاتی ہے تو اس کی مدت کم ہوتی ہے۔ فیض نے وطن سے محبت اور اس میں ہونے والے ستم کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے۔ نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے پاکستان کے ہر دور اور ہر حکومت کا یہی المیہ ہے کہ حق بات کہنے اور سچائی کی راہوں پر چلنے والے مسافروں کا نان نفقہ بند کردیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس کذاب اور منافقین کی تو چاندی ہی چاندی ہے، جیل میں بے قصور بند کردینا، پرانی ریت ہے۔ اگر حقیقی ڈاکو، چور، قاتل گرفتار بھی کرلیتے جاتے تو وہ تھوڑے ہی عرصے بعد تعلقات اور رشوت کے عوض چھوڑ دیے جاتے ہیں جب کہ ’’ سچ ‘‘ کی مالا جپنے والے یا تو ساری عمر پابند سلاسل رہتے ہیں یا پھر دار پر لٹکا دیے جاتے ہیں، ان کا کوئی مقدمہ سننے والا اور انھیں بری کرنے والا کوئی منصف نہیں۔ انھی حالات اور سنگین و غیر منصفانہ رویے نے معاشرے میں انارکی اور ظلم و بربریت کی فضا کو پروان چڑھایا ہے۔ اب کسی کو پرواہ نہیں ہے کہ وہ گرفتار بھی ہو سکتے ہیں اور سزا کے حق دار بھی، وہ لمبی سزا جس کے ملنے سے وہ آزار و ذلت کی کھائی میں گر ہی جائیں گے، ان کے ساتھ ہی ان کا گھر بار، بیوی، بچے اور والدین پوری زندگی غم سہیں گے اور معاشرتی مسائل انھیں جینے نہیں دیں گے، ان کے بچوں کی شادیاں ہونا بھی مشکل ہو جائیں گی۔ ایسی سوچوں سے تخریب کار آزاد ہوچکے ہیں۔ قتل و غارت کا بازار بلا ناغہ سجایا جاتا ہے خاص طور پر کراچی کو ڈاکوؤں کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا، پل بھر میں غریب کی محنت کی کمائی اسلحے کے زور پر لے اڑتے ہیں، والدین کے سامنے تو کبھی اولاد کے روبرو غلیظ حرکتیں جن میں بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی عزت و آبرو کو تار تار کیا جاتا ہے اور یہ بے ہودہ حرکات کی صورت نازل ہوتی ہیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قاتل سیاسی اور خاندانی دشمنی اور نفرت کی بنا پر انسانیت کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں۔ چند روز پرانا ہی واقعہ ہے جب میٹرک کی طالبہ کے ساتھ رکشہ ڈرائیور نے زیادتی کی اور تین چار ماہ تک اسے ہراساں کرتا رہا، معلوم اس وقت ہوا جب اس لڑکی کو زخمی حالت میں ویرانے میں پھینکا گیا، لڑکی کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے لرزہ خیز انکشاف کیا کہ والدین کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، اس پورے واقعے میں والدین زیادہ قصور وار نظر آتے ہیں، اور وہ لڑکی بھی جس نے زبان بند رکھی۔ والدین نے اپنی بیٹی کی حفاظت اسکول جانے اور لانے کے لیے ماہانہ تنخواہ پر رکشے کا انتظام کیا تاکہ باہر گھات لگائے درندے ان کی لخت جگر کو ترنوالہ نہ بنا لیں، اس قدر حفاظت کرنے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔ مذکورہ والدین اور دوسرے والدین کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دوست نہیں بناتے ہیں، انھیں اعتبار نہیں بخشتے ہیں کہ وہ ان کی ہر غلطی، ہر خطا کو معاف کر سکتے ہیں۔ جو بھی بات ہو وہ ان کے علم میں ضرور لائی جائے تاکہ قبل از وقت ازالہ کیا جاسکے، ساتھ میں یہ بات بھی گوش گزار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا وہ ان کی عزت اور محبت کے حوالے سے جان ہیں، روح ہیں، ان کے بغیر ان کا جینا محال ہے، آپ بھی انسان ہیں، انسانوں ہی سے غلطی ہو جاتی ہے اور پھر جب ہمارا رب ہمیں معاف کر سکتا ہے تو والدین کیوں اپنے بچوں پر کسی بھی کوتاہی پر تشدد کریں گے، ان حالات میں اعتماد کی فضا قائم رہتی ہے۔ اب اگر والدین خود ہی اپنی اولاد کو ڈرا اور دھمکا کر رکھیں گے، خاص طور پر مائیں کہ ’’دیکھو بیٹا! اگر تم نے کوئی بھی لغزش کی تو تمہارے ابا تمہیں جان سے مار دیں گے، تمہارے جسم کے ٹکڑے کرکے دفنا دیں گے، کسی کو کانوں کان پتا نہیں چلے گا‘‘ اسی طرح رزلٹ کے مواقعوں پر یہ کہتے سنا گیا ہے۔’’ بیٹا جی! فیل ہوئے تو تمہاری خیر نہیں، ہماری ناک نہیں کٹوا دینا، خاندان میں تو بچے ٹاپ کر رہے ہیں، دیکھا نہیں شاہ رخ کو، پوری کلاس میں اول آتا ہے، اور اب تو اس نے ٹاپ کر لیا۔ ننھیال، ددھیال میں واہ، واہ تو ہوئی، اس کے علاوہ اپنے ملک اور پوری دنیا میں شان دار کامیابی کی خبر نے دھوم مچا دی، دور دور سے فون آتے رہے کئی ماہ تک۔‘‘ حقیقی زندگی میں ہمیں بہت سے گھرانے ایسے نظر آتے ہیں جہاں گھر کا سربراہ بیوی بچوں کے لیے ظالم ترین شخص کا کردار ادا کرتا ہے، بچوں کی ہر خواہش کو پیروں تلے مسل دیتا ہے اور بیوی کو ڈانٹ، ڈپٹ کے ساتھ مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے ماحول میں حبس اور گھٹن کا عنصر شامل ہو جاتا ہے، بیوی بچوں کو اسی طرح ڈراتی رہتی ہے جس طرح مائیں بچوں کو جنگل یا ویرانے میں جانے کے لیے منع کرتی ہیں، رات کو ریچھ سے ڈراتی ہیں یا بھوت یا دوسری بلاؤں سے۔ ’’ چپ ہو جاؤ، خاموش رہو، نہیں تو ریچھ آ جائے گا اور اٹھا کر لے جائے گا‘‘ اصل میں وہ ریچھ نہیں بلکہ شوہر صاحب ہوتے ہیں، اگر بچوں نے شور کیا تو صاحب کی آنکھ کھل جائے گی اور پھر جو صورت حال ہوگی وہ بے بس عورت ہی جانے، یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جنھیں ان کے گھر والے بوجھ سمجھ کر بھیڑیے یا قصائی کے آگے ڈال کر بھول جاتے ہیں۔  بعض گھرانوں میں تربیت کا فقدان ہوتا ہے، باپ اپنی ذمے داری کو پورا نہیں کرتا ہے اور ماں کو احساس اور نہ اتنی فرصت کہ اپنی اولاد پر توجہ دے، ایسے ہی گھرانے کے بچے محض فیل ہونے پر یا کوئی بڑی غلطی سرزد ہو جانے پر خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں، خودکشی کرنے والے بچوں میں 10 سے 16 سال تک کے طالب علم شامل ہیں جو محض والد کی ڈانٹ ڈپٹ یا فیل ہو جانے کی صورت میں سزا کے خوف سے زندگی سے کھیل جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کا انجام موت یا ہاتھ پیر ٹوٹنے سے کم ہرگز نہیں ہوگا، لہٰذا زندگی بھر کی معذوری اور درد ناک سزا سے بہتر ہے خود ہی اجل کو گلے لگا لیا جائے۔ گزشتہ مہینوں میں بڑے درد ناک واقعات نے جنم لیا۔ پہلے اداکارہ عائشہ خان اور اب حمیرا اصغر ۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے۔)  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل