Loading
کراچی میں اگر زلزلہ یا کوئی قدرتی آفت کے باعث ایک سے زائد عمارتیں گر جانے کا کوئی سانحہ پیش آجائے تو حکومت سندھ یا کے ایم سی یا ٹاون کی سطح پر فعال ریسکیو اور ریلیف کے وسیع تر انتظامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ شہر میں کے ایم سی اور ریسکیو ادارے 1122 کے تحت صرف 2 اربن سرچ اینڈ ریسکیو کے ونگز ہیں، جن میں ڈیڑھ سو سے زائد تربیت یافتہ اہلکار محدود آلات اور مشینری کے لیے موجود ہیں۔ شہر میں ضلعی سطح پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا کوئی شعبہ موجود نہیں ہے۔ کسی بھی سانحہ کے وقت ریسکیو اور ریلیف اداروں کے درمیان مشترکہ رابطے کا کوئی نظام بھی موجود نہیں، جس کی وجہ سے سانحہ لیاری جیسے حالات میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں تاخیر اور بدانتظامی کا منظر سامنے آیا۔ ایکسپریس ٹریبیون نے کراچی میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے۔ کراچی اربن لیب (آئی بی اے) کے کو ڈائریکٹر اور اربن پلانر محمد توحید نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں گزشتہ دنوں ایک پانچ منزلہ عمارت گر گئی۔ اس افسوس ناک واقعے میں 27 افراد جاں بحق اور 9 افراد زخمی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر افراد کا تعلق ہندو کمیونٹی سے تھا۔ سانحے کے پہلوؤں پر رائے دیتے ہوئے محمد توحید نے کہا کہ کراچی میں اندازے کے مطابق گزشتہ 20 برسوں سے شہر غیر قانونی عمارتوں کی تعمیرات کے جنگل میں تبدیل ہوگیا ہے اور یہ غیر قانونی تعمیرات تاحال جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ رہائشی چھوٹے یونٹس پر پورشنز کے حامل چھوٹے فلیٹس بنائے جا رہے ہیں۔ 40، 60 اور 80 گز پر 3 سے 6 یا اس سے زائد غیر قانونی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اور ان عمارتوں کے ہر فلور پر دو دو چھوٹے فلیٹس ہیں۔ محمد توحید نے کہا کہ بعض فلیٹس تو ایسے ہیں کہ جو دن میں بھی رات کا سماں پیش کرتے ہیں اور ان میں ہوا کا گزر بھی نہیں ہوتا ہے۔ ان غیر قانونی تعمیرات میں کون ملوث ہے یہ ایک طویل بحث ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لیاری کا سانحہ ہمارے لیے سبق ہے۔ اس عمارت کے گرنے کا ریسکیو آپریشن 50 گھنٹوں سے زائد وقت میں مکمل ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی لگ بھگ تین کروڑ کے قریب ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق 7 ویں ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 2 کروڑ 3 لاکھ 82 ہزار 881 نفوس پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ملک کا معاشی اور پورٹ سٹی ہے۔ اس شہر میں جہاں دیگر مسائل ہیں، وہاں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں سرکاری سطح پر ریسکیو اور ریلیف کی سہولیات آبادی کے اعتبار سے نا کافی ہیں۔ کراچی میں حالیہ دنوں میں زلزلے کے معمولی جھٹکے آئے ہیں۔ ان جھٹکوں سے کوئی نقصان تو نہیں ہوا تاہم ماہرین ارضیات کو خدشہ یہ ہے کہ زلزلے کے مزید جھٹکے آسکتے ہیں اگر خدانخواستہ کراچی میں کسی بھی وجہ یا قدرتی آفت سے ایک سے زائد عمارتیں گر جائیں تو صوبائی یا ضلعی یا ٹاون کی سطح پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا فعال نظام نہیں ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی اور ریسکیو ادارے 1122 کے پاس اربن ریسرچ اینڈ ریسکیو کی سہولیات ہیں لیکن یہ سہولیات آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہیں، ان ریسکیو ٹیموں کی نفری اور آلات ناکافی ہیں۔ کسی بڑے سانحہ کی صورت میں ریسکیو آپریشن میں کئی دن یا ہفتے لگ سکتے ہیں۔ محمد توحید نے رائے دی کہ ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کا نظام جدید ماڈل کے مطابق ٹاونز کی سطح پر ہونا چاہیے اور ٹاون ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ہونا چاہیے، جو مقامی حکومتوں کے مطابق کام کرے۔ اس تجویز پر عمل کرنے سے کراچی میں 25 ریسکیو اینڈ ریلیف کا نظام قائم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ریسکیو یا ریلیف ٹیم ہو اس کے اہلکار کو جدید ٹریننگ عالمی معیار کے مطابق دی جانی چاہیے اور کے ایم سی کی سطح پر کراچی میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا مرکزی شعبہ ہونا چاہیے، جو ٹاونز کے ساتھ رابطے میں ہو اور ہنگامی صورت حال میں فوری ریلیف اور ریسکو آپریشن کیا جا سکے۔ ایسوسی ایشن آف بلڈنز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین حسن بخشی نے بتایا کہ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق کئی برسوں میں 60 ہزار عمارتیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں جبکہ 6 سے زائد عمارتیں مخدوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنانے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ مخدوش عمارتوں کے مکینوں کی آبادکاری کے لیے حکومت کوئی پالیسی بنائے تو ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔ ریسکیو اداروں کو وسعت دینا ہوگی۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے چیف فائر اینڈ ریسکیو آفیسر ہمایوں خان نے بتایا کہ 2005ء میں ملک میں جب زلزلہ آیا تھا تو اس وقت اسلام آباد مرگلہ ٹاور گرا تھا۔ اس سانحہ کے بعد ملک کے ریسکیو اداروں میں اربن سرچ اینڈ ریسکیو کا شعبہ قائم کیا گیا۔ کے ایم سی کو یہ اعزاز ہے کہ سرکاری سطح پر پہلی عالمی معیار کی اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم قائم کی گئی۔ اس ٹیم میں 88 تربیت یافتہ عملہ موجود ہیں، جن میں 54 ریسکیو اہلکار پلانر اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیم نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور کے ایم سی کے اشتراک سے کام کرتی ہے۔ اس ٹیم کے پاس جدید آلات اور مشینری ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی بلڈنگ گر جائے اور ملبے تلے کوئی شخص موجود ہو تو اس کی زندہ ہونے کی نشاندہی کے لیے ریڈار، کیمرے، سینسر اور دیگر آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ ٹیم ملبے سے کسی زندہ شخص کو باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس ریسکیو ٹیم کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے جہاں ایک ٹریننگ اسکول بھی ہے اور اس ٹیم کے ماتحت تین ذیلی بھی کام کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 200 سے زائد ایسے رضا کار موجود ہیں جو اربن ریسرچ اینڈ ریسکیو کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو کے مختلف شعبے ہیں، جن میں سمندری ریسکیو سروس، میڈیکل سروس، فائر بریگیڈ سروس اور اربن ریسرچ اینڈ ریسکیو سروس شامل ہیں۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے ایم سی ریسکیو سروسز کو جدید سہولیات سے آراستہ کر رہے ہیں۔ اس وقت اگر کسی بلند عمارت میں کوئی آدمی پھنس جائے تو اسے نکلانے کے لیے ہمارے پاس پانچ اسنارکلز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضائی ریسکیو سروس کا شعبہ بھی الگ ہوتا ہے۔ لیاری میں جو بلڈنگ گری تھی، اس میں کے ایم سی کے شعبہ فائر اور ریسکیو سروس نے ریلیف آپریشن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ سندھ حکومت کے ریسکیو ادارے 1122 کے ترجمان حسان الحسیب نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کا اربن ریسرچ اینڈ ریسکیو ونگ اقوام متحدہ باڈی انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکی گروپ کے طرز پر عالمی قوانین کے مطابق کام کرتی ہے۔ یہ باڈی پوری دنیا میں ریسکیو ٹیموں کو سرٹیفکیٹ دیتی ہے کہ وہ عالمی طرز کے ریسکیو کا کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کی ریسکیو 1122 کی اربن ریسرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں عالمی طرز کی پہلی ریکسیو ٹیم ہے، جو قدرتی آفات کے باعث پیدا ہونے والے حالات میں ریسکیو اینڈ ریلیف کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 1122 کی اربن ریسرچ اینڈ ریکسیو ٹیم میں 55 اہلکار شامل ہیں اور ریسکیو ٹیم کے کمانڈر ڈاکٹر عابد جلال الدین شیخ ہیں، جو عالمی سطح کے ریسکیو ٹرینر بھی ہیں اور انہیں کی نگرانی میں لیاری میں عمارت گرنے کے واقعہ میں ریسکیو اور ریلیف کا کام کیا گیا۔ حسان الحسیب نے بتایا کہ اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کے حامل آلات ہوتے ہیں، جب کوئی عمارت زلزلہ یا کسی وجہ سے گر جائے تو اس کے ملبے تلے دبے افراد کو باہر نکالا سب سے اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ ملبے کو کاٹنے کے لیے جدید کٹرز اور جدید ڈرل مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملبے میں جو افراد دب جاتے ہیں۔ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے حامل آلات جن میں سرچ کیمرے، زندگی کا پتہ لگانے والا آلہ اور ریڈارز شامل ہیں۔ لائیو ڈیٹیکٹر کے ساتھ اسکینر پر مشتمل ایک نظام ہوتا ہے، جو ملبے کے نیچے موجود زندہ افراد کے دل کی دھڑکن یا آواز سے اس کی زندگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ریڈار اور سرچ کیمرے بھی زندگی کی علامت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حسان الحسیب نے بتایا کہ اس کے علاوہ بیٹری، ہائیڈرولک اسپیڈی کٹر اور جیکرز، ہائی پاور ڈرلز اور دیگر آلات بھی اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کو حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیم قدرتی آفت خصوصاً بلڈنگ گرنے کے بعد ریسکیو اور ریلیف کا کام کرتی ہے۔ یہ ٹیم جدید آلات کے ساتھ مینول طریقہ کار کے مطابق بھی اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ مقامی فلاحی ادارے کے ریسکیو انچارج عمران الحق نے بتایا کہ قدرتی آفت یا ہنگامی حالات میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے لیے تمام اداروں کے درمیان رابطے کا مربوط نظام ہونا چاہیے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ کراچی میں اگر کوئی بڑا واقعہ ہو جائے تو ریسکیو اور فلاحی اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہوتا ہے، جس کا حالیہ نمونہ سانحہ لیاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ریسکیو اور ریلیف کے اداروں کے درمیان رابطوں اور مشترکہ آپریشن کے لیے ایک مرکزی نظام ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت تقریباً ایک اندازے کے مطابق 1500 سے زائد ایمبولینس کا نیٹ ورک ہے، جو مختلف حکومتی اور فلاحی ادارے چلا رہے ہیں۔ محکمہ بلدیات حکومت سندھ کے ترجمان نے بتایا کہ کراچی میں 588 عمارتوں کو مخدوش قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ گھر آسانی سے خالی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت مخدوش عمارتوں کو خالی کرانے اور مکینوں کو متبادل رہائش فراہم کرنے کے لیے پالیسی مرتب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو اور ریلیف کی سروسز میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل