Wednesday, July 16, 2025
 

غزہ کے اسرائیل اور امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر بھگدڑ؛ 20 فلسطینی کچل کر جاں بحق

 



غزہ کے علاقے خان یونس کے اسرائیل اور امریکی حمایت یافتہ متنازع امدادی مرکز غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) ایک بار پھر خوراک کے منتظر فلسطینیوں کے لیے مقتل گاہ ثابت ہوا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں واقع ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے مرکز پر امدادی سامان کے لیے سیکڑوں فلسطینی موجود تھے۔ بدانتظامی اور غفلت کے باعث شدید بھگدڑ مچ گئی اور خوراک کے حصول کے لیے جمع ہونے والے 20 فلسطینی قدموں تلے کچل کر جاں بحق ہوگئے۔ سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ان میں سے 19 افراد کچلے جانے کے باعث جب کہ ایک شخص چاقو کے وار سے جاں بحق ہوا۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ چاقو کے وار کس نے اور کیوں کیے تھے۔ چاقو کے وار سے جاں بحق ہونے والی شناخت بھی ظاہر نہیں کی گئی۔  ادھر غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس کے مسلح جنگجوؤں نے امدادی مرکز پر جمع ہجوم کو جان بوجھ کر اکسایا۔ جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غلط معلومات، خاص طور پر ٹیلیگرام پر پھیلنے والی جعلی خبروں نے حالات بگاڑے اور گنجائش سے زیادہ تعداد میں لوگ امداد لینے جمع ہوگئے۔ دوسری جانب حماس کے زیرِ انتظام محکمہ صحت نے بتایا کہ زیادہ تر افراد دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے، کیونکہ امداد کے لیے آئے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک تنگ جگہ پر کھڑے رہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے عرب رکنِ پارلیمان احمد طیبی نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکی کنٹریکٹرز پر الزام لگایا کہ انہوں نے بھوک سے نڈھال لوگوں کو خوراک کا جھانسا دیکر اپنے جال میں پھنسایا۔ خیال رہے کہ امدادی تنظیم GHF خان یونس میں امریکا اور اسرائیل کے تعاون سے کام کر رہی ہے اور اس مرکز پر انسانی حقوق کی تںظیموں اور عالمی اداروں نے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 6 ہفتوں کے دوران غزہ میں امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے امدادی مراکز میں اب تک 875 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں کم از کم 201 افراد دیگر مقامات پر امداد حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران بھی ہلاک ہوگئے۔ اس طرح مجموعی تعداد 1100 کے قریب پہنچ گئیں۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل