Loading
49 سالہ احمد حسن نندا نگر کا باسی ہے ۔نندا نگر بھارت کے دارالحکومت، نئی دہلی سے دس گھنٹے کی مسافت پر اور ریاست اترکھنڈ میں واقع ہے۔ بھارت۔چین سرحد کے قریب واقع یہ قصبہ ننداکینی کی معاون ندیوں کے سنگم پر آباد ہے اور اس کی آبادی تقریباً دو ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ دریائے نندکینی دریائے گنگا کی چھ معاون ندیوں میں سے ایک ہے اور اسے ہندو مقدس سمجھتے ہیں۔ اس قصبے میں احمد حسن ڈرائی کلیننگ کی دکان کا مالک ہے۔ وہ عام طور پر صبح آٹھ بجے اپنی دکان کھول لیتا ہے۔وہ دکان کی گلابی دیواروں پر پلاسٹک کے غلافوں میں لپٹے ڈرائی کلین کپڑے صفائی سے لٹکا دیتا ہے اور پھر گاہکوں کا انتظار کرتا ہے۔ ستمبر 2024ء تک دوپہر کے کھانے کے وقت تک اس کے پاس بیس سے پچیس کے درمیان گاہک آجاتے جو اپنی شیروانی، سوٹ، کوٹ، پتلون اور دیگر لباس ڈرائی کلیننگ چھوڑ جاتے ۔ کچھ لوگ سیاست اور دیگر روزمرہ موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی مسکراہٹوں اور دکھوں کو بانٹتے ہوئے اس کے ساتھ چائے کا کپ پیتے۔ زیادہ تر گاہک ہندو تھے اور چند مسلمان۔ لیکن اس دن دوپہر تک پانچ سے کم ہندو گاہک اس کی دکان پر آئے … اور وہ جانتا ہے کہ مسلمان گاہک کا انتظار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ احمد حسن قصبے کا آخری مسلمان باسی ہے۔ نسلوں سے پندرہ مسلم خاندان نندا نگر میں آباد تھے اور اس کو اپنا گھر کہتے ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں حسن کی پیدائش اور پرورش ہوئی۔جہاں اس کے خاندان کو ہندو تہواروں کے لیے دعوتیں موصول ہوتیں اور عید پر پڑوسیوں کی میزبانی کی جاتی۔ اس نے ہندوؤں کی ارتھیاں جلانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کیں اور اپنے ہندو دوستوں کی لاشوں کو کندھا دیا۔ ستمبر 2024ء میں مگر ایک ہندو لڑکی کو ہراساں کرنے کے الزام سے شروع ہونے والے مسلم مخالف تشدد نے سب کچھ بدل دیا۔ یہ واقعہ قصبے میں بستے مسلمانوں کے لیے ایک دہماکہ ثابت ہوا۔ اس واقعے کے بعد وہ ہندوبھی مسلم خاندانوں کے خلاف ہو گئے جو پہلے ان سے میل جول رکھتے تھے۔ احمد حسن کو تو محسوس ہوا کہ نئی کوویڈ وبا نے قصبے کے مسلم باسیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ اپنے ہی علاقے میں اچھوت بن کر رہ گئے۔ نفرت سے بھرے نعروں اور مارچ کا اختتام مسلمانوں کے خلاف جسمانی حملوں پر ہوا کہ ان کی دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ اپنی جان جانے کے خوف سے قصبے کی چھوٹی سی مسلم برادری رات کے پردے میں بھاگ گئی۔ جب حالات کچھ معمول پر آئے تو صرف حسن واپس آیا، اپنی بیوی، دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ! حسن اس بات پر بضد تھا کہ وہ صرف اسی جگہ کام کر سکتا ہے جسے وہ گھر کے طور پر جانتا تھا۔ لیکن حسن کے گھر والے مسلسل خوف کے عالم میں رہتے ہیں۔ ان کے ہندو پڑوسی ان سے بات نہیں کرتے۔ وہ اب دریا کے کنارے چہل قدمی کرنے نہیں جاتا جیسا کہ پہلے وہ ہر شام کرتا تھا۔ وہ اپنے بچوں اور بیوی کو کسی سے ملنے نہیں دیتا اور اسے فکر ہے کہ کسی بھی وقت اکثریتی طبقہ اس کے خاندان پر حملہ کر سکتا ہے۔ حسن کہنا ہے "میں ابھی دن میں صرف اپنی دکان پر جاتا اور شام کو گھر واپس آتا ہوں۔ اب یہی ہماری زندگی ہے۔اپنی پوری زندگی اس شہر میں گزارنے کے بعد اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں کوئی بھوت ہوں، میں کوئی غیبی انسان ہوں، کوئی مجھ سے بات تک نہیں کرتا۔‘‘ مسلمانوں کو جوتوں سے مارو احمد حسن کے دادا 1975ء میں پڑوسی ریاست اتر پردیش کے بجنور ضلع کے ایک قصبے نجیب آباد سے ہجرت کرنے کے بعد نندا نگر آئے تھے۔ان کا خاندان اسی قصبے میں آباد ہو گیا۔ حسن ہجرت کے ایک سال بعد پیدا ہوا۔ وہ یاد کرتے بتاتا ہے کہ 2021ء تک زندگی بڑی حد تک پْرسکون تھی۔ گو کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھارت بھر میں مسلمانوں کو انتہائی دائیں بازو کے ہندو گروپوں کی طرف سے پھیلائے گئے سازشی نظریات کی وجہ سے بدنام کیا گیا۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی پر اپنے مذہبی طریقوں اور بڑے اجتماعات کے ذریعے جان بوجھ کر وائرس پھیلانے کا الزام لگایا ۔ انتہائی دائیں بازو نے اسے ’’کورونا جہاد‘‘ کا نام دیا۔ اس کے بعد ہی حسن نے محسوس کیا کہ اس کے ہندو دوست دور ہو گئے ہیں۔’’کوویڈ 19 سے پہلے عید پر ہمارے گھر میں بہت سے لوگ آتے تھے، اور دیوالی پر ہمیں اپنے ہندو دوستوں کی طرف سے بہت سے دعوت نامے ملتے تھے۔ لیکن کوویڈ 19 کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا۔" وہ کہتے ہیں۔ لیکن یکم ستمبر 2024ء کو جنم لینے والے واقعات نے اقلیتی فرقے کی دنیا ہی تلپٹ کر دی۔ ایک ہفتہ قبل 22اگست کو ایک نوجوان ہندو طالب علم نے ایک مسلمان حجام، محمد عارف پر اس وقت ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا جب وہ اپنا سیلون کھول رہا تھا۔ حجام جلد ہی شہر سے بھاگ گیا۔ یکم ستمبر کو قصبے کے دکانداروں کی انجمن نے طالبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی مذمت کی اور پولیس سے کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لیے ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا۔ حسن نے قصبے کے دیگر مسلمانوں کے ساتھ احتجاج میں حصہ لیا۔ "ہم اس لیے گئے کیونکہ نہ جاتے تو ہندو الزام لگاتے کہ ہم مسلمانوں کے جرائم کی حمایت کرتے ہیں،" وہ یاد کرتے ہیں۔ تاہم ہجوم نے جلد ہی تشدد کی دھمکی دیتے ہوئے مسلمانوں کے مخالف نعرے لگانے شروع کردیئے۔’’جب ہم مظاہرین کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے تو مسلم مخالف نعرے لگائے گئے جیسے 'مولوں کے دلالوں کو... جوتے مارو سالوں کو۔‘‘ جیسے ہی ریلی نندا نگر کے پولیس اسٹیشن تک پہنچی، مظاہرین کے ایک گروپ نے ایک تیس سالہ مسلم شخص، ہارون انصاری کو پکڑ لیا اور اس کی پٹائی شروع کردی۔ حسن نے کہا کہ بہت سے ہندوؤں نے یہ الزام لگا کر انصاری کی پٹائی کا جواز پیش کیا کہ قصبے کے مسلمانوں نے ملزم حجام عارف کو فرار ہونے میں مدد کی تھی۔ نجیب آباد سے ایک فون انٹرویو میں جہاں وہ حملے کے بعد چلا گیا، انصاری نے بتایا کہ اس کے سر میں متعدد چوٹیں آئی ہیں۔ "مجھے بس یاد ہے کہ ہجوم مجھ کو گھسیٹ کر لے گیا اور اندھا دھند مارنے لگا۔ اس کے بعد کیا ہوا، مجھے کچھ یاد نہیں۔" وہ کہتے ہیں۔ انصاری کی پٹائی کے بعد حسن سمیت دیگر تمام مسلمان ریلی سے بھاگ گئے اور خود کو گھروں میں بند کر لیا۔ جلد ہی سینکڑوں لوگوں کا ہجوم آیا اور ان کے گھروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ حسن کا کہنا ہے کہ مسلمان خاندان پولیس کو مدد کے لیے فون کرتے رہے۔ ’’لیکن کوئی نہیں آیا۔‘‘ اس نے اپنے ہندو دوستوں کو بھی بلایا۔ "مگر وہ میری کال بھی نہیں اٹھا رہے تھے۔" وہ کہتا ہے۔ مسلمان خاندان شام گئے تک گھروں کے اندر ہی مقید رہے۔ آدی رات گذر گئی تو ہجوم چلا گیا۔ جیسے ہی ماحول میں خاموشی ہوئی ، حسن چپکے سے نکلا اور اپنی دکان کی طرف چلا گیا جو گھر کے سامنے ہے۔ اس نے دیکھا کہ دکان کا شٹر ٹوٹا ہوا اور مڑا ہوا تھا۔ ڈرائی کلین کپڑے سڑک پر بکھرے ہوئے تھے۔ کاؤنٹر ایک مضبوط لکڑی کی میز پر مشتمل تھا جہاں اس نے ایک بند دراز میں چار لاکھ روپے کی بچت رکھی تھی۔دراز ٹوٹا پڑا تھا اور رقم چوری ہو گئی تھی۔ یہ رقم اس نے اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے بچائی تھی۔ دکان کا بورڈ ، حسن ڈرائی کلینرز ٹکڑوں کی صورت نندکینی کے کنارے ملبے کی طرح پھینک دیا گیا تھا۔ "میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا۔" حسن نے اپنی توڑ پھوڑ کی گئی دکان کی تصاویر دکھاتے ہوئے کہتا ہے۔لیکن اگلا دن اس سے بھی بدتر ثابت ہوا۔ 2 ستمبر کو انتہائی دائیں بازو کے ہندو گروپوں کی طرف سے ایک اور بھی بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔اس میں انہوں نے دوسرے قصبوں کے لوگوں کو بھی نندا نگر میں جمع ہونے کی دعوت دی ۔ "وہاں ہزاروں آدمی تھے اور صرف ساٹھ سترپولیس والے،" ہارون انصاری کہتے ہیں جن پر گزشتہ روزتشدد ہوا تھا۔ "ہماری شکایات کے باوجود کوئی اضافی پولیس فورس نہیں بلائی گئی۔" مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرنے میں مشہور انتہائی دائیں بازو کے ہندو رہنما ، درشن بھارتی نے بھی اس دن نندا نگر کا دورہ کیا۔ حسن کہتا ہے کہ اس کی تقریر کے بعد "ہجوم نے پھر ہنگامہ آرائی کی اور ہماری املاک کو توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے ایک عارضی مسجد کو تباہ کر دیا اور ایک مسلمان رہائشی کی گاڑی کو دریا میں پھینک دیا۔ حسن بتاتا ہے "قصبے کے تمام مسلمان خاندان میرے گھر کی بالائی منزل پر چھپ گئے جب بھیڑ ہم پر پتھراؤ کر رہی تھی۔ میں آج بھی اس دن کو یاد کر کے کانپ جاتا ہوں۔" اس کے گھر میں لوہے کی گرلز اور ایک گیٹ لگا ہے اور یہ ایک کثیر المنزلہ عمارت ہے۔ ان خوبیوں نے اسے مسلمان خاندانوں کے لیے پناہ کے لیے ایک محفوظ انتخاب بنادیا تھا۔ جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والے حجام عارف کو اس دن اتر پردیش سے گرفتار کیا گیا جب پولس نے یکم ستمبر کو اس کے خلاف باضابطہ شکایت درج کی تھی۔ عارف کو ایک ہفتے کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا گیا ۔ اور پھر اسے ضمانت پر رہا کیا گیا۔ تاہم پولیس نے مسلم خاندانوں کو مطلع کیا کہ وہ ان کی مزید حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ اندھیرے میں افسران انہیں پولیس کی گاڑیوں میں نندا نگر سے باہر لے گئے اور قریبی قصبے میں چھوڑ دیا۔ زیادہ تر مسلم خاندانوں کے لیے یہ نندا نگر میں ان کی زندگی کا خاتمہ تھالیکن حسن کے لیے نہیں۔ "یہ میرا گھر ہے۔ میری پیدائش اور پرورش یہیں ہوئی۔ میری زندگی کے بارے میں سب کچھ بشمول میری شناخت اسی قصبے سے تعلق رکھتی ہے،" وہ کہتا ہے۔ حسن نے مزید کہا کہ اس کی تمام شناختی دستاویزات میں نندا نگر کا ہی پتا درج ہے۔ ویسے بھی میرا پورا خاندان ریاست اتراکھنڈ میں رہتا ہے۔‘‘ مکمل بائیکاٹ پڑوسی شہر سے جہاں پولیس نے انہیں چھوڑا، حسن اور اس کے خاندان نے 266کلومیٹر دور واقع ریاستی دارالحکومت دہرادون کا راستہ اختیار کیا۔دہرادون میں کچھ دنوں کے بعد حسن اور48 سالہ محمد ایوم نے جو نندا نگر کا رہنے والا تھا، 26ستمبر کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رابطہ کیا اور انھیں تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ ہائی کورٹ نے چمولی ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کو حکم دیا، جہاں نندا نگر واقع ہے، "اس بات کو یقینی بنائیں کہ امن و امان کو سختی سے نافذ کیا جائے اور کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے"۔ ایس ایس پی ضلع کا سب سے سینئر پولیس افسر ہونے کے ناتے امن و امان کا ذمے دار ہوتا ہے۔ "ہائی کورٹ کی طرف سے ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ میں اب نندا نگر جا سکتا ہوں لیکن کوئی اور مسلمان خاندان انتہا پسندوں کے خوف کی وجہ سے میرا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوا۔‘‘ حسن یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے۔ حسن کا بھائی نندا نگر میں سیلون چلاتا تھا۔ حسن کا کہنا ہے "لیکن اس کے مالک مکان نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنی دکان خالی نہیں کی تو وہ ساا سامان باہر پھینک دے گا۔" حسن کا کہنا ہے کہ اس کے دیگر رشتے داروں نے جو چمولی کے ایک بڑے قصبے گوپیشور میں رہتے ہیں، اس کے خاندان کو کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ "بہت سوچ بچار کے بعد، میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے واپس جانا چاہیے کیونکہ میرا گھر اور دکان سمیت سب کچھ نندا نگر میں تھا۔"حسن نے مزید کہا کہ اس کی اہلیہ زیادہ بہادر تھی۔ "وہ پہلے ہمارے بچوں کے ساتھ نندا نگر گئی۔ میں بعد میں قصبے پہنچا۔ خوف کے باوجود بیوی نے مجھے کہا کہ اگر ہم واپس نہیں گئے تو ہماری روزی روٹی ختم ہو جائے گی۔" یقینی طور پر حسن کے خاندان کو اب بھی ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ حسن اپنے خاندان کو تب دہرادون منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے جب اس کی بڑی بیٹی ، چار بچوں میں سب سے بڑی ، اسکول مکمل کرلے گی۔ تاہم اس کی اہلیہ کا خیال ہے کہ اگر وہ کہیں اور چلے گئے تو مقامی لوگ ان کے گھر اور دکان پر قبضہ کر لیں گے۔ حسن بالآخر 15 اکتوبر کو نندا نگر پہنچا۔اسے یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ ایک ہندو شخص نے براہ راست مقابلے کے طور پر اس کی دکان کے سامنے ڈرائی کلیننگ کی اپنی دکان کھول لی تھی۔ اس نے اپنی دکان کی مرمت کروانے کی کوشش کی لیکن کوئی ہندو مستری و مزدور مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ "یہ مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ ہے۔" وہ کہتا ہے۔ ’’انتہا پسند ہندو لیڈروں نے اتنا زیادہ خوف پھیلا دیا ہے کہ کوئی مزدور چاہتے ہوئے بھی ہماری دکان کی مرمت کے لیے تیار نہیں ۔ مزدوروں نے اسے بتایا کہ انھیں ہندوتوا گروپوں نے مسلمانوں کی مدد نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔‘‘ اس قصبے میں بھی آر ایس ایس ( راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا زور ہے جو قوم پرست ہندوتوا نظریہ رکھتی ہے۔ ایک نیم فوجی تنظیم ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت بڑی تعداد میںمختلف انتہا پسند تنظیموں کی سرخیل ہے۔ حسن بالآخر اپنی دکان خود مرمت کرنے کے بعد اسے کھولنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اب وہاں کوئی گاہک نہیں آتا۔ اس نے اپنے باقاعدہ ہندو گاہکوں کو فون کیے لیکن انہوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی آئے گا اسے "ہندوتوا کے غنڈوں" سے ڈرایا جائے گا اور اس کے بجائے ہندو ڈرائی کلینر کے پاس جانے کو کہا جائے گا۔احمد حسن کہتا ہے ’’اس دن میں نے محسوس کیا کہ ڈرائی کلیننگ کا بھی ایک مذہب ہوتا ہے۔" ایک مسکراہٹ مل ہی گئی حسن کی طرح اس کا خاندان بھی نئے نندا نگر میں جدوجہد کر رہا ہے۔ اس نئی صورت حال میں وہ اپنے مذہب کی وجہ سے قصبے میں اچھوت بن گئے تھے۔ جلد ہی حسن کی سولہ سالہ بڑی بیٹی کو اس کے مذہب کی وجہ سے اسکول میں غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا گیا۔اس کی ایک ہم جماعت نے اس کو کہا کہ اسے اسکول سے نکال دیا جانا چاہیے کیونکہ وہ مسلمان ہے۔حسن کہتا ہے ’’ جب ہم شکایت لے کر پرنسپل کے پاس پہنچے تو یہ معاملہ مذید بڑھنے سے رک گیا۔" حسن اور قصبے سے بھاگنے والے سبھی مسلم گھرانوں کے لیے انصاف اب بھی ناپید ہے۔ یکم ستمبر والے حملے کے بعد اتراکھنڈ پولیس نے ایک رسمی شکایت درج کی جس کا احوال نندا نگر پولیس اسٹیشن کے سربراہ سنجے سنگھ نیگی نے سنایا تھا۔ نیگی نے اپنی شکایت میں لکھا "میں نے دیکھا کہ ڈھائی سو سے تین سو لوگ اونچی آواز میں 'ایک مخصوص کمیونٹی' کو گالیاں دے رہے تھے۔ جب میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے ایک طرف دھکیل دیا۔ پھر میں نے اپنے سینئرز کو بلایا اور اضافی پولیس فورس طلب کی۔" اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ ہجوم نے مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ شروع کردی اور ایک مسجد میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ مشتعل ہجوم ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنا رہا تھا جس کی وجہ سے ان خاندانوں کی خواتین اور بچے خوف سے چیخنے لگے۔ نیگی نے لکھا کہ ہجوم کے ارکان نے لاٹھیاں، بیلچے اور لوہے کی سلاخیں اٹھا رکھی تھیں۔ پھر بھی اتراکھنڈ پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ۔ مسلمانوں نے چمولی ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سرویش پنوار سے رابطہ کیا لیکن انھیں کوئی موثر جواب نہیں ملا۔ نندا نگر میں اکثریتی طبقے نے مسلمانوں پو جو ظلم وستم کیا، وہ کسی نہ کسی شکل میں پوری ریاست اتراکھنڈ میں آباد مسلم خاندانوں پر توڑا جا رہا ہے۔ مودی کی بی جے پی کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی کے تحت ریاست کے متعدد شہروں میں نفرت انگیز جرائم اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہر شہر و قصبے میں انتہائی دائیں بازو کے ہندو گروہوں نے مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مہم شروع کی ہے تاکہ انھیں اچھوتوں کی طرح پسماندہ بنا دیا جائے۔ مسلمانوں کی دکانوں کو توڑا پھوڑا جاتا یا جلا دیا جاتا ہے۔ غیر سرکاری طور پر معاشی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اور اکثر مسلمانوں کو جسمانی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں دھامی کی حکومت نے یکساں سول کوڈ (UCC) کے قوانین لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ریاست میں مذہب کی بنیاد پر ذاتی قوانین کی پیروی کرنے سے روک دیتے ہیں۔ عدالتوں نے کئی مواقع پرانتہا پسندوں کی سرگرمیاں روک دی ہیں لیکن مسلمانوں کا خیال ہے کہ انہیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کے دارالحکومت، دہرادون میں مقیم مسلم راہنما ، خورشید احمد کہتے ہیں، ’’ہمارے ملک کی عدالتیں اس وقت مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا ادراک نہیں کر پا رہیں۔ ‘‘ انھوں نے حسن کی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے میں مدد کی تھی۔ بھارتی مسلمانوں پر ہر محاذ پہ ظلم ہو رہا ہے … جسمانی، جذباتی، مالی۔" پھر بھی حال ہی میں حسن کو اُمید کی کرن نظر آئی ہے۔ ستمبر والے پُر تشدد واقعات کے سات ماہ بعد اپریل کے ایک دن وہ ہندو لیڈر حسن کی دکان پر آیا جس نے مسلم مخالف مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ تب حسن کی بیوی دکان سنبھال رہی تھی۔ ہندو آدمی ایک کوٹ اور پتلون لے کر آیا تھا اوراس نے پوچھا کہ کیا انہیں جلدی سے ڈرائی کلین کیا جا سکتا ہے؟ حسن کی بیوی نے اس سے کہا ، تم نے مجھے بہن کہا ہے اور اس کے باوجود چاہتے ہو کہ مسلمان یہاں سے چلے جائیں؟ آدمی نے جواب دیا: ’’جو ہوا اسے بھول جاؤ، تمہارا کام بہت اچھا ہے، اسی لیے تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘ وہ واقعہ یاد کرتے ہوئے حسن مسکراتا اور کہتا ہے۔ "ہم یہ دن دیکھنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ ہم نے ہار نہیں مانی، گھر چھوڑ کر نہیں گئے اور دلیری سے لڑائی لڑی۔‘‘ قصبے کے واقف کار ہندوؤں سے ٹوٹی دوستی کا درد آج بھی دکھ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’جب مسلمان خاندان اپنا سامان لینے واپس آئے تو جن لوگوں کے ساتھ ہم بیٹھ کر ہنستے تھے، وہ ہمیں طعنے دے رہے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہم واپس کیوں آئے؟ اس رویّے نے میرا دل توڑ دیا۔ جسمانی تشدد کم ہو گیا ہے مگر خاموش سماجی تشدد جاری ہے۔‘‘ اس کے باوجود حسن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتا اور نہ ہی نندا نگر کو جہاں وہ پیدا ہوا اور اسی کو اپنی آخری آرام گاہ بنانے کا متمنی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل