Loading
ملک میں جو غیر یقینی صورت حال برپا ہے۔ اس کے حتمی نتائج کیا ہونگے، اس پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سنجیدگی اور وطن دوستی کا منصب یہ ہے کہ معاملات کو دلیل کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ کوشش کی جائے کہ حقیقت کے قریب تر رہا جائے۔ پہلے تو یہ عرض ہے کہ ہیجان اور جذباتیت مکمل طور پر لا حاصل ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا انسان بغیر ذاتی جذبات‘ منفی یا مثبت‘ زندہ رہ سکتا ہے۔ جواب آپ کی عقل سلیم کے حوالے کرتا ہوں۔ سیاست کی دھند ملک کے ہر محلہ ‘گلی اور گھر کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کچھ نظر آ رہا ہے مگر بہت کچھ ‘ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اب ہمارے خطہ کا ہر انسان کوئی نہ کوئی پختہ رائے رکھتا ہے۔ یہ بہت بڑا فکری انقلاب ہے۔ جو سیاسی پیچیدگیاں ‘ اس وقت دیو کی طرح‘ ہمیں چاٹ رہی ہیں ان کے متعلق ہر ذی شعور سوچتا ضرور ہے۔ یہ شعور کی وہ سطح ہے جو برصغیر کے بٹوارے کے وقت قطعاً موجود نہیں تھی۔ کھیل اب بھرپور طرز پر ‘ سامنے آ چکا ہے۔ گہرائی سے دیکھیں تو سیاسی میدان میں بڑے دو فریق ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ اور دوسرا سیاستدان ۔ پیہم زوال سے نکلنا تو دور کی بات‘ اسے روکنا تک محال نظر آتا ہے۔ ایک المیہ اور بھی ہے ۔ فیصلہ ساز قوتیں اردو اخبارات پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں، انگریزی کالم بہرحال کچھ نہ کچھ پرتاثیر ہوتے ہیں۔ اردو کے بہترین قلمکار بھی اس قبیلے میں شامل نہیں ہوتے ۔ جو گھڑ سواروں کے گرگ جہاں دیدہ نظر میں رکھتے ہیں۔ یہ دشواری‘ سب کو معلوم ہے۔ پر اس کا مداوا کوئی نہیں ہے۔ منطقی انجام یہ ہے اردو میں لکھے جانے والے بہترین حل بھی محض‘ کاغذ کے ٹکڑے پر رہتا ہے۔ مقتدر طبقے کی میز اور ان کے شعوری فیصلہ سازی کا حصہ نہیں بن پاتا۔ اس نکتے پربحث کسی اور وقت پراٹھا کر رکھتے ہیں۔ سابقہ وزیراعظم‘اپنے زمانے کے گھڑ سواروں کی بھرپور مدد سے ہی تخت نشین ہوئے تھے۔ ملک میں ‘ دربار میں ایستادہ ہونے کا کوئی اور طریقہ ہے ہی نہیں۔ یہ ہماری اجتماعی سیاست کی جڑ ہے، پر اس کا حل اب کوئی نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں‘ کہ کسی بھی وزیراعظم کو مضبوط نہیں ہونے دیا جاتا۔ جیسے ہی وہ حلف اٹھاتا ہے، اسی دم افواہوں ‘ بدگمانیوں اور سازشوں کا ایسا قہربرپا کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی قوت آندھی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کیا یہ سچ بات نہیں ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر‘آج تک ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت ملازمت پوری نہ کر سکا۔ گھڑسوار سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو منتخب شدہ بندوں سے بہتر چلا سکتے ہیں۔ اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ طالب علم، کیڈٹ کالج حسن ابدال سے فارغ التحصیل ہے۔ ان گنت دوست‘ گھڑسواروں کے سرخیل رہے ہیں۔ ان کی ذاتی سوچ بھی ذہن نشین ہے۔ ذمے داری سے عرض کروں گا کہ وہ ہر وزیراعظم کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس کی مدد کرنے میں مصروف کار ہوتے ہیں۔ پیچیدہ ترین معاملات میں اداروں کی بے لاگ رائے دینے سے گھبراتے نہیں ہیں۔ مگر ہمارے اکثر سیاسی لوگ‘ ایسے ایسے کارنامے انجام دینے شروع کر دیتے ہیں جس سے بدگمانی برہنہ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ پھر ایک سرد جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کے انجام کے بارے میں بات کرنا قدرے مشکل بن جاتا ہے۔ خفیہ فرمان جاری ہوتا ہے کہ ہوشیار باش ۔ پھر منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ دو تین دہائیاں قبل‘ ایک دور پار کے عزیز جو خفیہ ادارے کے سربراہ تھے‘ ملنے گیا۔ گپ شپ کافی طویل ہو گئی۔ اس وقت موبائل فون نہیں تھے۔ پوچھا‘ کہ پوری دنیا میں‘ کوئی بھی اہم واقعہ ہو تو آپ تک معلومات پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ جواب کافی دلچسپ تھا۔ صرف اور صرف سات منٹ۔ یاد رہے کہ یہ تیس برس پہلے کی بات ہے۔ جب ابلاغ کے افق پر ‘ سوشل میڈیا اور سیل فون کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اب کیا صورت حال ہو گی، معلوم نہیں ۔ پھر یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اداروں میں اصل وفاداری ‘ اپنے لشکر کے سربراہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک اور بات‘ بتانا ضروری ہے کہ مقتدر قوتوں کے تمام اہم فیصلے ‘ بھرپور مشاورت سے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی رائے سنی جاتی ہے، اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ مگر ایک دفعہ‘ سردار جو فیصلہ کر دے ، وہ حتمی بن جاتا ہے۔ گزشتہ پانچ ‘ چھ برس کے سیاسی معاملات بہت ہی نازک ہیں۔ اڈیالہ میں مقیم قیدی کو حسب دستور شاہی کرسی عنایت کی گئی۔ مقصد‘ حکمران خاندان کو آئینہ دکھانا تھا۔ وہی ہوا۔ نہ کوئی جلسہ‘ نہ چاہنے والوں کا کوئی ہجوم۔پھر مشکل سے لندن یاترہ ملی۔ کرکٹ کی دنیا کا بادشاہ‘ آنکھ کا تارہ بن گیا۔ مگر اس شخص میں مردم شناسی کا عنصر موجود نہیں تھا۔ سوچ میں کھلاڑیوں والی بے اعتدالی پیہم موجود تھی۔ نقصان یہ ہوا‘ کہ گھڑ سواروں کے سابقہ سرخ پوش نے معاملات کے بگاڑ کو بھانپ لیا ۔ فاش غلطیاں ہونے لگیں۔ ایک ایسی لامحدود جنگ شروع ہو گئی‘ جس نے پورے ملک کو ہر طور پر دلدل بنا کر رکھ ڈالا۔ معاشی عدم استحکام بڑھنے لگا‘ جو آج کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہے۔ لندن کے مقیم نے اس کشمکش سے بہترین فائدہ اٹھایا اور اپنی دولت اور خاندان کو محفوظ کر لیا۔ تخت بھی واپس مل گیا ۔ نقصان یہ ہوا کہ سیاسی ساکھ مکمل طور پر دفن ہو گئی۔ اور اس پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ بلکہ آج بھی سیاسی لاش ‘ بے کفن درگور ہے۔ کرکٹر کی بے اعتدالیاں اسے اڈیالہ تک لے آئیں۔ زندان کے دروازے کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔ سابقہ وزیراعظم کے چند سنجیدہ رفقاء نے مشکل صورت حال میں بہت صائب کوشش کی کہ جیل کا کواڑ کھل جائے۔ معاملہ سلجھ جائے مگر ایسا نہ ہو پایا۔ حد درجہ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ چار مرتبہ قیدی کو امن کا عندیہ دیا گیا۔ جو سیاسی قائدین ‘ درمیان میں رابطہ کار تھے، انھوںنے کرکٹر کو آمادہ بھی کر لیا۔ گرد کم ہونے کے امکانات واضح ہونے لگے۔ مگر سابقہ وزیراعظم کے اہل خانہ‘ جو کسی سیاسی سوچ سے مبرا ہیں، انھوں نے کرکٹر کا ذہن بدل ڈالا۔ بلکہ انھوںنے فاش غلطی یہ کی کہ جو معتبر سیاست دان‘ معاملہ کوسمیٹ رہے تھے، انھیں غدار بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ مغرب کی پرامن فضاؤں میں مقیم کاریگر وی لاگرز نے ‘ غیر سیاسی بیانیے کو معتبرکر دیا۔ ان کا مقصد پہلے بھی پیسہ کمانا تھا اور آج بھی محض دولت کا حصول ہے۔ اس تمام واقعہ میں اصل نقصان‘ سابقہ وزیراعظم کو ہوا۔ کسی کی نیت پر شک نہیں ہے۔ خان کے لیے ‘ ان کے غیر سیاسی رفقا نے اتنے کانٹے بو دیے ہیں کہ انھیں ہاتھوں کے بجائے‘ آنکھوں سے چننا پڑے گا۔ تقریباً تین چار ہفتے سے‘ بات چیت کا معاملہ مسلسل شروع ہے۔ مگر اب فریقین کے درمیان‘ بداعتمادی کی فضا‘ اتنی کثیف ہے کہ سانس بند ہونے لگا ہے۔ خان کے سنجیدہ دوست انھیں صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے۔ مگر قومی بیانیہ کی سیڑھی پر ‘ اس شخص کو اتنا اوپر چڑھا دیاگیا ہے کہ نیچے دیکھنا محال ہے۔ حل کیا ہے۔ سوچنا اشد ضروری ہے۔ خفیہ عقاب اہل اقتدار کی معاشی کرپشن کوپردے کے پیچھے سے ‘ نانظرین کے سامنے پیش کرنے لگے ہیں۔ مقتدر حلقوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ اڈیالہ کے اسیر پر دوبارہ اعتماد کیا بھی جا سکتا ہے کہ نہیں؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل