Loading
امریکا نے اس وقت بین الاقوامی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے اور اس نے بیک وقت خود کوکئی محاذوں پر الجھا لیا ہے، اس لیے اس نے قلیل مدت میں چین کے ساتھ (coexist) ہم وجود یا اکٹھے رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امریکا کو احساس ہو گیا ہے کہ حالات میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور ان بدلتے ہوئے حالات کے اپنے تقاضے ہیں جن کے مطابق پالیسیاں تشکیل نہ دی گئیں تو آنے والے وقت میں بہت سے معاملات امریکا کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ امریکا یہ جانتا ہے کہ روس سے سرد جنگ میں ہونے والی محاذ آرائی کے بعد وہ اگر چین سے بھی اسی طرح الجھ پڑا تو اس کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے اور چین بہت سے شعبوں میں امریکا کو پیچھے دھکیل دے گا اور دنیا میں بالادستی کی اس دوڑ میں وہ کمزور پڑ سکتا ہے، ایسی صورتحال امریکا کو قبول نہیں۔لہٰذا اس نے چین کی طرف تجارتی دوستی کا ہاتھ بڑھا لیا ہے تاکہ امریکا کی بالادستی قائم رہے۔ اسی لیے موجودہ حالات میں ہندوستان کی افادیت ختم یا کم ہوگئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندوستان سے حسب منشا نتائج لینے کے لیے اس کا بازو اور بہت کچھ مروڑا جا رہا ہو، کیونکہ شاید حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد ہندوستان وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو امریکا اس سے چاہتا ہے یا پھر امریکا کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ ہندوستان میں ایک بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی نہ سکت ہے اور نہ اہلیت، چنانچہ اس نے قلیل مدت میں چین کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اس کے ساتھ اکٹھا رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کو احساس ہو گیا ہو کہ آنے والے وقت میں اگر ہندوستان بہت زیادہ طاقتور ہو گیا تو وہ اس کی بالادستی کے لیے چیلنج بن سکتا ہے ، ایسی صورت میں چین کے بعد ہندوستان ایشیا میں اس کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ گویا ایک دفعہ پھردنیا یک قطبی سے دو قطبی طاقتوں کی جانب سفر کر رہی ہیں۔ پہلے بھی دنیا کو دو قطبی سے یک قطبی کرنے میں پاکستان نے کردار ادا کیا تھا اور ایک بار پھر اسٹیج سیٹ ہے کہ پاکستان آگے آکر چین اور امریکا کے تعلقات میں اعتماد سازی کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور دونوں طاقتوں کو اکٹھے رہنے پر آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، جیسا کہ ماضی میں وہ ایک دفعہ پہلے بھی ادا کر چکا ہے۔ ابھی لوگوں کی یاد داشت سے یہ بات محو نہ ہوئی ہوگی کہ دنیا کی انھیں طاقتوں نے ماضی میں ایسے نقشے جاری کیے تھے کہ جس میں پاکستان اپنی موجودہ جغرافیائی حالت میں نہیں تھا اور آج یہی قوتیں عالمی تناظر میں پاکستان کے کلیدی کردارکی معترف ہو رہی ہیں۔ میری ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ رائے ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقعہ ہے جو ہمیں سابق امریکی صدر نکسن کے دور کے بعد دوبارہ حاصل ہو رہا ہے اور اگر ہماری اشرافیہ نے اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر قوم کا مفاد ملحوظ خاطر رکھا تو یہ موقعہ پاکستان کی کایا پلٹ دے گا۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ آج بھی چینی اور دیگر اشیاء اور پٹرول سے پیسے بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کو ان چھوٹے چھوٹے فوائد کو چھوڑ کر عالمی بساط پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں بہت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور یہ دنیا میں ایک نئی صف بندی کرے گا۔ اس سے آگے میں لکھنے سے قاصر ہوں اور اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیے اور اس کالم کو تار سمجھیے کیونکہ وقت بہت کم ہے۔ اگر پاکستان نے اس موقعے سے فائدہ اٹھا لیا تو اقوام عالم کی صف میں پاکستان کو اس کا وہ مقام بھی حاصل ہوجائے گا کہ جس کے حصول کے لیے بانی پاکستان نے اس ملک کو بنایا تھا اور اس کو اس راہ پر بھی ڈالنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ہم کہیں راستے میں بھٹک گئے۔ قسمت اور اللہ تعالی ہمیں ایک اور موقعہ دے رہے ہیں اور اس وقت جن کے ہاتھ میں عنان اقتدار ہے ان کے اوپر بہت بڑی ذمے داری ہے کیونکہ یہ ایک دو لوگ کی نہیں بلکہ پورے پچیس کروڑ لوگوں کی بلاواسطہ اور امت مسلمہ کے مستقبل کی بلواسطہ ذمے داری ان پر ہے۔ کالم کے آخر میں ایک واقعہ یا کہانی اور اختتام۔ حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ایک شخص بہت کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ ایک وقت کا کھانا ملتا تو اس کے بعد کئی وقت تک کھانا نہ ملتا۔ ایک مرتبہ حضرت موسی علیہ السلام اللہ سے کلام کی غرض سے جا رہے تھے تو یہ شخص راستے میں ملا اور ان سے درخواست کی کہ میرے بارے میں اللہ سے پوچھیے گا کہ ’’ مجھے کب تک رزق اس طرح ملتا رہے گا؟‘‘ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا کہ ’’ میں ضرور پوچھوں گا اور اللہ کا جو بھی جواب ہوگا ، اس سے بھی مطلع کردوں گا۔‘‘ واپسی پر حضرت موسی علیہ السلام نے اسے بتایا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’ تمھیں رزق اسی طرح ملے گا‘‘ اس پر اس شخص نے اللہ کے نبی سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے درخواست کیجیے کہ ’’ میرا تمام رزق ایک ساتھ مجھے دے دیں تو میں کم ازکم ایک وقت تو پیٹ بھر کر کھانا کھا لوں۔‘‘ اللہ کے نبی نے درخواست پیش کرنے کی حامی بھر لی اور یوں اس کو تمام رزق ایک ساتھ مل گیا۔ کچھ عرصے بعد جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ سے کلام کرنے جا رہے تھے تو دیکھا کہ اس شخص کے ڈیرے پر رونق لگی ہوئی ہے اور اس کی آسودگی تو قابل رشک ہے۔ دیگیں پک رہی ہیں اور ایک خلقت وہاں کھانا کھا رہی ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے جب اس بارے میں پوچھا تو اللہ نے فرمایا کہ ’’ اے موسی اس نے تو میرے ساتھ کاروبار شروع کردیا۔ میں نے جب تمام رزق اس کو ایک ساتھ دے دیا تو اس نے کھانا کھانے کے بعد بقایا رزق صدقہ کردیا اور میری مخلوق کو کھانا کھلایا تو اب تم ہی بتاؤں کہ میں اس کا رزق کیسے روک سکتا ہوں۔‘‘ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بھی اس وقت اس شخص کی طرح ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کیا فیصلہ کرتا ہے؟ کیا ہم خود کو اللہ کی راہ کے مطابق کر پاتے ہیں یا نہیں؟ اگر کردیا کہ جس کے لیے یہ ملک وجود میں آیا تھا تو ہم اپنے سارے مقاصد حاصل کر لیں گے۔ وقت بہت بے رحم ہوتا ہے وہ کسی کے لیے نہیں ٹھہرتا ہے اگر یہ موقعہ ہم نے گنوا دیا تو یہ موقعہ کسی اورکی قسمت بدل دے گا۔ اب ہمیں بھی یہ وقت ہی بتائے گا کہ کون کیا فیصلہ کرتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل