Loading
جب آپ سوچتے سوچتے تھک جائیں اور ذہن کام کرنا بند کردے تو آپ کو چاہیے کہ تھوڑی دیرکے لیے رک جائیں اور ذہن کو خالی چھوڑ دیں۔ دیکھیں اس خالی گنبد کی صداؤں سے کیا لہر اٹھتی ہے اور جو بھی خیال ابھرے اسے سوچ کر پھر مسکرا دیں کیوں کہ خالی ذہن۔۔۔۔ سوال انسان کو اسی طرح تنگ کرتے ہیں جیسے برسات کے بعد روشنی دیکھ کر پٹ پٹ گرنے والے پتنگے، اپنے آپ کو ہی جلاتے رہتے ہیں اور گر کر مر جاتے ہیں، یہ صرف ایک مثال ہے کہ انسان کی منفی سوچ کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے، کچھ بھی نہیں، یہ سوچیں اس وقت بے اثر ہو جاتی ہیں جب ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور اگر اس منفی سوچ کو ذرا جو توجہ ملتی ہے تو پھر اس کی شاخیں در شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں، ذہن ایسی بنت میں لگ جاتا ہے کہ گویا اس سے ضروری تو کوئی کام ہی نہیں اور جتے جتے شل ہو جاتا ہے ایسے میں ہائی بلڈ پریشر، ہائی شوگر، دل کے عوارض اور دیگر لپکتے آگے بڑھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم مسلمان یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی بیماری رب العزت کے حکم کے بغیر وارد نہیں ہو سکتی، پھر یہ شاخسانے کیسے پر یہاں آ کر عقل پھر تک کے بیٹھ جاتی ہے کہ نہیں پتا کیوں منفی بات کو سوچنے نکلے تھے اور معاملہ ایک معمولی سی سوئی گرنے یا کسی عزیز کے دل دکھانے، خوانچہ والے کی مسکراہٹ یا بدتمیزی جیسے چھوٹے یا غیر اہم واقعے پر ختم ہوتا ہے۔ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا وجہ تھی؟ آخرکیسے؟ اس طرح کے سوالات جو کسی نہ کسی واقعے یا توجیہ کے منتظر ہوتے ہیں، ان کے جواب کے شروع میں زبان سے نکلتا ہے، میرے دل نے کہا، مجھے لگا، میرے ذہن میں آیا۔ اس طرح کے جواب پر کیا تاثر ابھرتا ہے۔ اگر برا ہوا تھا تو کیا آپ کے دل میں اتنا ہی برا تھا کہ جس نے تمام خیالات و سوچوں کو عملی جامہ پہنا ڈالا۔ سب سے زیادہ بات ہوتی ہے دل کی، جسے اگر چیر کر دیکھا جائے تو اس میں سوائے خون کی آتی جاتی باریک نلکیوں کے کیا نظر آتا ہے کچھ والو جو بظاہر غیر اہم لگتے ہیں پر سچ تو یہ ہے کہ دل رک جائے تو انسان کی موت۔۔۔ کہ یہ ایک اہم عضو جو سارے جسم کو خون کے ساتھ اپنے احکامات بھی پہنچا رہا ہے۔ اگر آپ کو مطالعہ کرنا ہے تو دل شریانوں کو کھلا کر دے گا جو دماغی یاد داشت کے مراکز میں آپ کے احکام کی منتظر ہوتی ہیں۔ اسی طرح آپ نے کوئی مشروب پینا ہے تو معدے کی نسیں پھیل جائیں گی اور کچھ نہ کھانے پینے کی حالت میں سکڑ جائیں گی۔ ہم آرام سے بیٹھے ہیں تو دل بھی ناراض انداز میں دھڑک رہا ہے۔ ہمیں دوڑ لگانی ہے یعنی خون کو جسم میں اتنا ہی تیز گردش کرنا ہے تو ہمارے دل کی دھڑکن بھی اسی لحاظ سے تیز ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اوپر نیچے آگے پیچھے دوڑ بھاگ کر کام کر رہے ہیں اور ہمارا دل آرام سے نارمل دھڑک رہا ہے۔ محبت میں بے چارے دل کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ یہ اٹک گیا۔ دراصل یہ ایک نہایت حساس نظام سے مربوط ہے جو کسی کو دیکھتے ہی دل کی مقناطیسی سطح پر دستک دیتا ہے یہ سطح ایک پراسرار نظام کے تحت ردعمل پیش کرتی ہے اور کوئی دل کو چھو جاتا ہے، آنکھیں کسی کی محبت میں نم ہو جاتی ہیں، ایسے جیسے بندہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلائے پوری توجہ سے یک ٹک اسے سوچ رہا ہے اور دل کی مقناطیسی سطح پر دستک ہوتے ہوتے آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ آنسو پیدا کرنے والا غدود lackrynialدل کی دستک کو پہچانتا ہے، برقی رو اسے پیغام پہنچاتی ہے اور وہ آنسوؤں کی پروڈکشن جاری کر دیتا ہے۔ دل کی مقناطیسی سطح دنیا کی مقناطیسیت کو کشش کرتی ہے اور کئی دل بلکہ اکثر دل اس کی کشش کو محسوس کرتے ہیں اور تھام لیتے ہیں۔ یہ بہت حساس نظام ہے جسے سائنسی نظام سے مربوط کرکے ایک الگ حالت ابھرتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک روحانی کیفیت ہے جسے محسوس کرنے کا عمل بھی خاص ہے۔ دل والی دوسری قسم کی محبت میں دل کا دھڑکنا گواہی دیتا ہے کہ معاملہ کس نوعیت کا ہے کیونکہ شدت نفرت کی بھی ہوتی ہے جس میں دل کا دھڑکنا عام ہے پر احساس لطیف اور تنفر اس دھڑکنے کا احاطہ کر سکتے ہیں جسے انسان کی ظاہری کیفیت ہی واضح کر سکتی ہے ورنہ اس کو پہچاننے کے لیے سائنسی اسکرین بھی بہرحال محبت سے بھرا دل ایک لاکھ پچاس ہزار کلومیٹر طویل نسوں کو خون کو باہم پہنچانے کا کام بہت اچھی طرح بہت ر توانائی کے ساتھ کرتا ہے، خون پہنچانے والی نالیاں کشادہ اور زیادہ لچک دار ہوتی ہیں باالفاظ دیگر وہ بھی خوشی سے معمور اپنا کام انجام دیتی ہیں۔ نفرت بھرے دل جو بغض، حسد، لالچ اور عناد کی کیفیت میں ہوتے ہیں اپنے دل کی شریانوں کو بھی اذیت دیتے ہیں گویا اپنے ذہن و دل کی بیماری کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ دل کی اناٹومی یعنی یوں کہا جائے کہ دل کو اگر دو حصوں میں عموداً تقسیم کیا جائے تو اس پر ایک تصویر نمایاں ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس کے حصے لفظ ’’اللہ‘‘ کی شکل میں واضح ہوتے ہیں یہ حرف تہوں کی صورت میں اس طرح پائے جاتے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی ہوتی ہے۔ نارمل دل ایک منٹ میں 80 بار دھڑکتا ہے گویا ہر دھڑکن پر کھلتا اور ہر بار یہ دستخط اللہ کو واضح کرتا ہے، یہ اس رب کی کس قدر خوب صورت تخلیق ہے جس پر غور کرنے کی ہمیں فکر ہی نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کے دل پر مہر لگا دی۔ اس کے معنی کیا ہیں، کبھی ہم نے غور کیا ہے۔ دراصل اللہ اپنے دستخط ہر انسان کے دل پر کر کے اسے اس دنیا میں بھیجتا ہے لیکن بہت سے نامراد اس بڑی ہستی کے وجود کے منکر، اس کے کہے کے خلاف، دنیا میں فساد اور نفرت کے بیج بونے میں لگے رہتے ہیں تو ان کے دل پر مہر یعنی رب العزت کی ناراضی اور دنیا میں مگن رہنے کا کھلا نشان ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔آیت7) یہ حقیقت ہے کہ جن کے دلوں پر پردہ یا مہر لگ گئی، وہ سچ کو پہچان ہی نہیں پاتے، وہ اپنی فرعونیت میں مگن اپنے آپ کو طاقت ور، عقل مند، چالاک اور بادشاہ سمجھتے ہیں، دراصل وہ خسارے میں ہیں۔ دل جیسے ایک عضو ہی تو ہے پر بڑی طاقتوں کا مظہر ہے کہ اس پر اس کائنات کے بادشاہ کے دستخط ہیں۔ ہمیں اپنے دل کی الیکٹرو مقناطیسی سطح پر کیسے پیغامات بھیجنے چاہئیں کہ جس سے اس کا تخلیق کار خوش ہو۔ ہمارا تخلیق کار ہم سے کیا چاہتا ہے، ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے، ورنہ عبادت کے لیے تو اس کے پاس ان گنت فرشتے تو پہلے ہی تھے، پھر ہم انسان ہی کیوں۔ اپنے اپنے دل کی مقناطیسی سطح پر پیغام سینڈ کریں اور جواب حاصل کریں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل