Loading
گزشتہ دہائی میں دنیا بھر میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، وہ مظاہرجو کبھی صدیوں میں ایک بار ہوتے تھے، اب ہر چند سال بعد دہرائے جا رہے ہیں۔ کیا یہ قدرت کا معمول ہے یا موسمیاتی تبدیلی کی ہولناک حقیقت؟ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، یورپ، کینیڈا اور افریقہ،کہیں زمین دھنس رہی ہے تو کہیں پانی سب کچھ بہا لے جا رہا ہے۔ کیا ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ’’ قدرتی آفت‘‘ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک مسلسل خطرہ بن چکی ہے؟عالمی سطح پر بارشوں اور سیلابوں میں ہونے والے اضافے کے بارے میںاقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ’’ اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ 2024 کے مطابق 2023 میں دنیا بھر میں بارش کے ریکارڈ ٹوٹے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2020 سے 2024 کے درمیان جنوبی ایشیا میں اوسطاً ہر سال پانچ بڑے سیلاب آ چکے ہیں، جن کی شدت اور تباہی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی چھٹی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے عالمی درجہ حرارت کو 1.2°C بڑھا دیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا کے نظام، بارش کے پیٹرن اور سمندری بخارات کو متاثر کر رہا ہے، جس سے شدید بارشوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گرم فضا میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں تھوڑی دیر میں انتہائی شدت کی بارش ہو سکتی ہے جسے ’’ کلائوڈ برسٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مظاہر نہ صرف ہنگامی صورتحال پیدا کرتے ہیں بلکہ زراعت، صحت اور پانی کی فراہمی جیسے شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کا سامنا دنیا بھرکو ہے، مگر ان کا بوجھ سب پر برابر نہیں پڑتا۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک ان آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ رواں سال بھی دنیا کے لیے موسمیاتی آفات کا ایک اور درد ناک باب ثابت ہو رہا ہے۔ شدید بارشیں، تباہ کن سیلاب،گلیشیئر پھٹنے کے واقعات اور زمین کھسکنے جیسے مظاہر اب محض علاقائی خبریں نہیں رہیں، بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکے ہیں۔ ایشیا ئی ممالک سے لے کر افریقا، امریکا سے چین تک، قدرتی آفات نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں، لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے، اور اربوں ڈالرکے معاشی نقصانات کا سبب بنی ہیں۔ ان واقعات نے ایک بار پھر موسمیاتی تبدیلی کے عالمی خطرے کی حقیقت کو اجاگرکردیا ہے۔2025 کا مون سون پاکستان، بھارت اور نیپال کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا۔ پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ اور تیز بارشوں نے 293 جانیں لے لیں اور 600 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ کئی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، جب کہ فصلیں، پل اور سڑکیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ قدرتی آفات کی شدت اپنی جگہ، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں شہری منصوبہ بندی اور واٹر مینجمنٹ کی کمزوری اس تباہی کو دوچند کر دیتی ہے۔کراچی میں نالوں پر تجاوزات، لاہور میں سیوریج نظام کی تباہی، اور شمالی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی وہ عوامل ہیں جو بارش کو سیلاب میں بدل دیتے ہیں۔ ڈھاکا، جکارتہ اور منیلا جیسے شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں آبادی کا دباؤ، ناقص ڈرینج سسٹم اور غیر رسمی آبادیاں سیلابی پانی کو تباہی میں بدل دیتی ہیں۔ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ جیسے عالمی مالی وعدے تاحال عمل میں نہیں آ سکے، جس کی وجہ سے متاثرہ ممالک کو ریلیف اور بحالی کے لیے قرضوں پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔ ماحولیاتی انصاف کی غیر موجودگی اس عالمی مسئلے کو ایک اخلاقی بحران میں بدل رہی ہے۔ شدید بارشیں اور مہلک سیلاب اب محض ’’ قدرتی آفت‘‘ نہیں رہے، بلکہ یہ موسمیاتی بحران کی واضح علامت ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی، سماجی اور انسانی بحران ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں پہلے ہی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، موسمیاتی تبدیلی کسی خاموش طوفان سے کم نہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ اگلا سیلاب کب آئے گا، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنا تیار ہیں؟ اور کیا دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی انصاف کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داری ادا کریں گے؟ 2025 کی ان آفات نے ہمیں خبردار کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کی بات نہیں بلکہ حال کا المیہ ہے، اگر عالمی برادری، ترقی یافتہ ممالک، اور مقامی حکومتیں فوری اور مشترکہ اقدامات نہیں کرتیں تو آنے والے برس مزید خونی اور تباہ کن ثابت ہوں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل