Sunday, August 03, 2025
 

کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟

 



تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے سانحات پر ایک طبقہ مذمت کرتا ہے اور اپنی ذمے داری سے فراغت حاصل کر لیتا ہے۔ یعنی اس طبقہ نے یہ احساس پیدا کر لیا ہے کہ شاید کسی بھی انسانی المیہ یا کسی حادثے پر مذمت کردی جائے توکافی ہے۔ یہاں تک کہ آج کل ماڈرن دنیا میں جہاں نیشن اسٹیٹ کا تصور پیش کیا گیا ہے، ان ریاستوں کے سربراہان بھی بڑے بڑے قومی اور بین الاقوامی سانحات پر صرف مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جب کہ ایک نظریہ ہے کہ ان سربراہان مملکت کو عام آدمی سے الگ ہونا چاہیے، یعنی ان کو مذمت کرنے کی جگہ عملی اقدامات انجام دینے چاہئیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دنیا ایسی ہی دنیا بن چکی ہے جہاں ریاستوں کے سربراہان مملکت ہوں یا افواج کے سربراہ ہوں سب کے سب سانحات اور انسانی المیوں پر مذمت سے کام چلاتے ہیں۔ اس کالم میں یہی سوال ہے کہ کیا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس معاملے پر بھی مذمت کافی ہے؟ کیا دنیا کے حکمرانوں کی ذمے داری یہاں تک ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک جملہ مذمت کے لیے ادا کر دیں اور پھر یہ مذمت ان کو اپنی اصل ذمے داری سے آزاد کردے۔ پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان سربراہان مملکت کی جانب سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر مذمت سے مسئلہ حل ہوگیا ہے یا ہو جائے گا؟ سات اکتوبر کے بعد سے غاصب اسرائیل غزہ میں امریکا اور مغربی حکومتوں کی مدد سے مسلسل معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس قتل عام کو ایک منظم نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں بالخصوص مغربی دنیا میں عوام غاصب صیہونیوں کے اس ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں اور ایک مہذب انداز میں احتجاج کیے جا رہے ہیں، بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں جاری ہیں، مسلمان ممالک کے عوام بھی احتجاج اور ریلیاں نکال رہے ہیں، ہر عنوان سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے اقدام سے باز رکھا جائے اور غزہ میں جارحیت کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل یہ بات جانتی ہے کہ امریکا سمیت مغرب دنیا کی بیشتر حکومتیں اسرائیل کے ساتھ ہیں اور انھوں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کو جرم ہی قرار نہیں دیا اور نہ ہے نیتن یاہو جیسے جنگی مجرم کی مذمت کی ہے تو بس غاصب اسرائیلی گینگ یہ سمجھتی ہے کہ اس کا حق ہے وہ جیسے چاہے جب چاہے فلسطینیوں کو قتل کرتی رہے، ان کو بھوک اور پیاس کے ذریعہ بھی قتل کرے اور گولہ بارود کے ساتھ بھی۔ یہ سب کچھ آج پوری دنیا اپنی اسکرین پر براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا صرف احتجاج اور ریلیوں اور دیگر طریقوں سے غاصب صیہونی حکومت پر دبائو بنایا جا سکتا ہے؟ یا اب تک جو بڑے بڑے احتجاج دنیا میں ہو رہے ہیں وہ کیوں اسرائیل پر دبائو قائم نہیں کر سکے۔ یقینا اس کا جواب یہی ہے کہ جہاں مغربی حکومتیں اسرائیل کا کھل کر ساتھ دے رہی ہیں وہاں مسلم دنیا کے حکمران بھی اسرائیل کو کسی نہ کسی طرح مدد فراہم کر رہے ہیں اور غاصب اسرائیل اس بات سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جنگی جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب جب یہ بات واضح ہو چکی ہے تو ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یقینی طور پر غزہ میں جارحیت کے خاتمے کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کی کوشش جاری رکھی چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس سوال کے تناظر میں کہ آیا مذمت کافی ہے؟ راقم الحروف سمجھتا ہے کہ کچھ مزید عملی اقدامات ہیں جو ہمیں انجام دینے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں کو دبائو دینا پڑے گا کہ وہ ان اقدامات کی طرف آئیں، تاکہ غزہ میں باقاعدہ غاصب اسرائیل کی جارحیت اور نسل کشی کے اقدامات کو فی الفور روکا جائے۔ دراصل ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل نے ریلیوں اور مظاہروں کے دبائو سے خود کو باہر کر لیا ہے اب چاہے کتنا ہی احتجاج ہو اسرائیل مسلسل قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کچھ عملی نظریات جو غزہ کی صورتحال پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عوامی سطح پر حکومتوں سے مطالبات کی حد کو بڑھانا چاہیے اور مزید سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ یہاں کچھ مثالیں ہیں جیسا کہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے جس میں شمالی افریقی ممالک سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ شمالی افریقی ممالک غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے لیے بحیرہ روم کے راستے کو بند کردیں، جیسا کہ یمن نے بحیرہ احمر میں کیا ہے۔ایک اور مہم بھی چلائی جا سکتی ہے کہ لیبیا، الجزائر، مصر، تیونس اور مراکش ایک ہی دن اردن، مصر اور شام میں مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کی طرف مارچ کریں اور اسرائیل پر دبائو بڑھائیں۔اردن اور مصر میں بڑے پیمانے پر مارچ کیے جانے چاہئیں، تاکہ یہاں پر موجود امریکی ایجنٹ اور خود امریکا اپنے آپ کو ان ممالک میں غیر محفوظ محسوس کرے اور ان ممالک سے امریکی بالا دستی کا خاتمہ ہو۔ امریکا جوکہ غزہ میں جاری نسل کشی کا برابرکا شریک جرم ہے، عوامی سطح پر مطالبات اٹھائے جانے چاہئیں کہ حکومتیں امریکا کے ساتھ تعلقات منقطع کردیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جائیں، تاکہ امریکی حکومت کی فلسطین اور انسان دشمن پالیسیوں کو آشکار کیا جا سکے۔  مصر میں بین الاقوامی شخصیات اور علماء کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علماء اور بین الاقوامی شخصیات سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ رفح کراسنگ پر دھرنا دیں۔  اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلق رکھنے والے مسلمان ممالک کی حکومتوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ شدت کے ساتھ کیا جائے۔ عوام کو چاہیے کہ امریکا اور غاصب صیہونیوں سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے خلاف بائیکاٹ کی ایک وسیع مہم جاری رکھیں۔ اسی طرح مطالبات کی حد کو بڑھانے کے لیے اسلامی ممالک سے فوجی مداخلت کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ یہ وہ چند عملی اقدامات ہیں کہ جو انجام دیے جانے چاہیے اور یہ سب اقدامات عمل کے محتاج ہیں نہ مذمت کے بیانات کے۔ غزہ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مذمت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل