Loading
پاکستان کے لیے اچھی خبریں ہی سامنے آرہی ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری یقیناً اچھی خبر ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی بھی اچھی خبر ہے۔ دوست ممالک کے ساتھ دن بدن تعلقات میں بہتری اور مضبوطی آرہی ہے۔ حال ہی میں ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر کے گئے ہیں۔ پاک ایران تعلقات میں بھی دوستی کا نیا باب شروع ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس لیے بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری یقیناً پاکستان کے لیے اچھی خبریں ہیں۔ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدر ڈونلڈٹرمپ سے ملاقات کے بعد فیلڈ مارشل دوبارہ امریکا کے دورہ پر جا رہے ہیں۔ وہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں کمان کی تبدیلی میں بطور مہمان خصوصی جا رہے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیرولا ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئے سربراہ آرہے ہیں۔ اس انتہائی اہم تقریب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر جا رہے ہیں۔ یہ ان کا دو ماہ میں دوسرا دورہ امریکا ہوگا۔ اس موقع پر ان کی امریکی اعلیٰ حکام سے ملاقات بھی ہوگی۔ یقیناً میرے وہ دوست جو امریکا میں پاکستان کے خلاف بھر پور لابنگ میں مصروف تھے، ان کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ وہ دوست جو امریکا میں ڈیموکریسی ایکٹ کو پاس کرانے کے لیے لابنگ کر رہے تھے، ان کے لیے بھی یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ امریکی عسکری حکام اور سول قیادت جس طرح فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اہمیت دے رہی ہے، اس سے بھارت کو تو شدید تکلیف ہو ہی رہی ہے، ساتھ ساتھ ہمارے ان دوستوں کو بھی تکلیف ہو رہی ہے جو امریکا کے سہارے پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یقیناً جنرل عاصم منیر کا دوسرا دورہ امریکا ان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مارکو روبیو کے درمیان بھی واشنگٹن میں ملاقات ہوئی ہے۔ پاکستان اور امریکی وزرا خارجہ کے درمیان یہ نو سال بعد ملاقات ہوئی تھی۔ نو سال دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان کوئی ملاقات ہی نہیں ہوئی ۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان دوری اور سرد مہری کا انداذہ لگایا جا سکتا تھا۔ اسی دوری کا بھارت نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ پاکستان فیٹف میں پھنسا رہا اور عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتکاری کو بہت نقصان ہوا۔ آج بھی جب امریکا آپ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے تو دنیا میں آپ کی حیثیت بڑھ جاتی ہے۔ آپ بھارت کی مثال دیکھ لیں۔ امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا تھا تو پاکستان میں لگتا تھا کہ پاکستان سفارتی سطح پر بہت تنہا ہے۔ دنیا بھارت کے ساتھ ہے لیکن آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی سفارتی پالیسی مکمل ناکام ہو گئی ہے۔ حال ہی میں ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے بعد بھی امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مارکو روبیو کی اسحاق ڈٖار سے بات ہوئی ہے۔ اس لیے امریکا اور پاکستان کے درمیان مسلسل رابطے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سب سے اچھی خبر چاہ بہار اور گوادر کے درمیان تعاون پر اتفاق ہے۔ اس سے پہلے کئی سال سے ایران نے چاہ بہار کا کنٹرول بھارت کو دیا ہوا تھا۔ اب چاہ بہار اور گوادر کو سسٹر پو رٹس بنانے پر اتفاق ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس سے گوادر کو بھی ترقی ملے گی۔ چین کا سی پیک بھی اس سے مضبوط ہوگا۔ اس لیے یہ بھی پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بارڈر پر تجارت کے فروغ سے بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارتی رابطے مضبوط ہوںگے۔ جو بھی اچھی خبر ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان بڑھتے روابط پر سب کا خیال تھا کہ چین سے تعلقات متاثر ہوںگے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکا کے دورے کے بعد چین گئے۔ چینی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ بعد ازاں اسحاق ڈار کی بھی چینی ہم منصب سے ملاقات ہوئی۔ اس لیے چین کو ہم ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ چین سے کوئی مسائل نہیں۔ اس سارے تناظر میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی بہتری کو عالمی سطح پر مانا جا رہا ہے۔ بہتر معاشی مستقبل کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ پہلے جنگ جیتی ہے اب سفارتی جنگ میں بھی واضع برتری نظرآرہی ہے۔ بھارت میں مودی کے لیے مشکلات بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ کے مون سون سیزن میں مودی شدید مشکلات میں نظر آئے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے سیز فائر کا کریڈٹ لینے کے بیانات مودی کے لیے سیاسی مشکل بن گئے ہیں۔ راہول گاندھی مودی پر شدید حملے کر رہے ہیں۔ لیکن مودی کی مشکلات پاکستان کے لیے جیت ہیں۔ بھارت میں پاکستان مخالف بیانیہ کو شکست ہو رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ دہشت گردی میں تعاون بڑھا ہے۔ تجارتی ڈیڈ لاک ختم ہوا ہے۔ اور ایسے مثبت اشارے ملے ہیں جن سے یہ امید پیدا ہوئی ہے افغانستان اب بھارت کی پراکسی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ افغانستان اور بھارت کے درمیان فاصلے نظر آرہے ہیں اور پاکستان سے قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ بھارت کے لیے افغانستان سے پراکسی جنگ مزید جاری رکھنا مشکل ہوتا نظر آرہا ہے۔ آپ آج کی اس صورت حال کا تحریک انصاف کے اس دور سے موازنہ کریں جب پاکستان فیٹف میں پھنسا ہوا تھا۔اس وقت کی حکومت نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے فیٹف کے چنگل سے نجات مل جائے مگر حکومت کی سفارت کاری کامیاب نہیں ہو سکی۔ سفارتی تنہائی نظر آرہی تھی۔ سفارتی سمت ختم ہو گئی تھی۔ دوست ناراض ہو گئے تھے۔ سب ممالک سے مسائل ہی مسائل نظر آرہے تھے۔مغرب ناراض تھا۔ عرب ناراض تھے۔ امریکا ناراض تھا۔ بائیڈن کی ایک فون کال کے لیے سب کچھ داؤ پر تھا۔ اور فون کال نہیںہوئی تھی۔ لیکن اب اچھی خبریں نظر آئیں گے۔ اچھا ماحول نظر آئے گا۔برے دن ختم ہوتے نظر آئیں گے۔ یہی فرق اصل فرق ہے۔ باقی سب باتیں ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل