Wednesday, August 06, 2025
 

رنگ، دھاگے اور خوابوں کے سہارے

 



پاکستان کی دو تہائی آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے، جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کی کمی ایک عام حقیقت ہے۔ ان علاقوں میں خواتین کا کردار نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں اہم ہے بلکہ وہ گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ زراعت، سلائی کڑھائی اور ماہی گیری جیسے سخت شعبوں میں بھی پیش پیش ہیں۔ خاص طور پر سندھ کے دیہی اور ساحلی علاقوں میں خواتین کی محنت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔  بدین، ٹھٹھہ اور کراچی کی ساحلی پٹی پر خواتین نہ صرف مچھلی کے جالے تیار کرتی ہیں بلکہ اکثر کھانوں کے ’’ ڈھابے‘‘ بھی چلاتی ہیں، جہاں ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے مقامی افراد کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ زراعت کے میدان میں بچیاں اور عورتیں دن بھر دھوپ، مٹی اور مشقت میں گزارتی ہیں۔ ان کی محنت کئی بار گنی بھی نہیں جاتی، کیونکہ دیہی معیشت میں خواتین کی شرکت کو رسمی طور پر تسلیم کرنا ہماری پدر سری سماجی ساخت میں شامل نہیں۔ اس مزدوری کا معاوضہ اکثر مرد لیتے ہیں، جب کہ عورت محض ’’ مدد گار‘‘ کہلا کر نظر انداز کی جاتی ہے۔ شہری اور دیہی تفریق اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کراچی سے اندرون سندھ کی طرف سفر کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ٹائم مشین میں سوار ہو کر صدیوں پیچھے چلے گئے ہوں، اگرچہ شہروں کی حالت بھی مثالی نہیں، مگر دیہاتوں میں تو انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پینے کا صاف پانی … سب کچھ خواب لگتا ہے۔ غربت کا چہرہ اگر دیکھا جائے تو وہ عورت جیسا ہے، سہما ہوا، بے آواز اور مسلسل جدوجہد کرتا ہوا۔ پسماندہ علاقوں میں غربت کا سب سے گہرا اثر عورتوں پر ہی پڑتا ہے، کیونکہ نہ صرف انھیں کام کے مساوی مواقع میسر نہیں بلکہ وہ جسمانی اور ذہنی تشدد کا بھی سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ پدر سری نظام میں مرد کو کچھ آزادی حاصل ہوتی ہے، چاہے وہ غریب ہی کیوں نہ ہو، مگر عورت کو صرف قربانی، برداشت اور خاموشی سکھائی جاتی ہے۔ معاشرے میں متشدد رویے کوئی اچانک پیدا ہونے والا رجحان نہیں بلکہ ایک مسلسل معاشی استحصال کا نتیجہ ہیں۔ جب لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہوتے، جب بنیادی ضروریات زندگی ایک خواب بن جائیں، تو ایسی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جو بالآخر تشدد کی صورت میں کمزور طبقے پر نکلتی ہے اور عورت چونکہ سب سے کمزور سمجھی جاتی ہے، اس لیے سب سے زیادہ متاثر بھی وہی ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیہی اور ساحلی عورتوں کی محنت کو تسلیم کیا جائے، ان کے لیے باعزت روزگار، تحفظ اور سہولیات کو یقینی بنایا جائے اور معاشی و سماجی پسماندگی کے خلاف موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ بصورتِ دیگر، ہم نہ صرف آدھی آبادی کو مسلسل استحصال کا شکار بنائے رکھیں گے بلکہ پورے معاشرے کو بھی ترقی سے دور رکھتے رہیں گے۔ کراچی سے 30 میل دور بحیرہ عرب کے کنارے ماہی گیروں کی قدیم بستی ’’ مبارک ولیج ‘‘ ہے۔ یہ بستی صدیوں سے آباد ہے، اس بستی کے 90 فیصد افراد کا تعلق ماہی گیری کے شعبے سے ہے۔ مبارک ولیج کی کل آبادی 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ شام کے اوقات میں جب سورج سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے تو یہاں کا منظر کسی فنکار کے کینوس پر بنی تصویر کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں بلوچ خواتین اور بچیاں اپنے بکریوں کے بچوں کو چراتے ہوئے ایک اور ہنر میں بھی مشغول ہوتی ہیں۔ وہ ہے ’’ بلوچی دوچ‘‘ یعنی ہاتھ کی بنی ہوئی روایتی بلوچی کڑھائی، جو ان کی ثقافت اور شناخت کی علامت ہے۔ یہ دوچ محض ایک دستکاری نہیں، بلکہ صدیوں پرانی ایک ثقافتی وراثت ہے۔ بلوچ قوم میں خواتین کے روایتی لباس پر ہونے والی یہ کڑھائی محض ایک ’’ سلوائی ہوئی قمیض‘‘ نہیں بلکہ ایک مکمل فن پارہ ہوتا ہے۔ ایک بلوچی لباس کی قیمت پانچ ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک جا سکتی ہے اور اس کے پیچھے ان بچیوں اور خواتین کی مہینوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ مبارک ولیج کی بچیاں اور خواتین دن بھر جانور چرانے، پانی بھرنے اور لکڑیاں لانے جیسے کاموں میں مصروف رہنے کے باوجود وقت نکال کر یہ نفیس کپڑے تیار کرتی ہیں۔ یہ ان کی معاشی خود مختاری کی ایک خاموش جدوجہد ہے۔ ان کی سلوائی ہوئی قمیضیں اور دوپٹے، نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں پسند کیے جاتے ہیں۔ اس ہنر سے ان کی گھریلو آمدنی میں بہتری آتی ہے، مگر افسوس کہ یہ سارا عمل مکمل طور پر انفرادی سطح پر ہوتا ہے۔سرکاری سرپرستی سے محروم مبارک ولیج میں کوئی دست کاری سینٹر موجود نہیں، جہاں یہ خواتین اپنی مہارت کو جدید تقاضوں کے مطابق نکھار سکیں یا نئی نسل کو اس ہنر کی تربیت دے سکیں، اگر حکومت یہاں ایک جامع تربیتی مرکز قائم کرے تو یہ نہ صرف مقامی خواتین کے لیے باعزت روزگار کا ذریعہ بنے گا بلکہ مقامی معیشت میں بھی ایک مثبت انقلاب آ سکتا ہے۔ مبارک ولیج میں ایک سیکنڈری اسکول ہے، جس میں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے لیکن اس بستی یا اس کے اطراف میں تاحال کوئی کالج قائم نہیں ہوا ہے۔ یہاں کے جو والدین اچھی آمدنی والے ہیں، وہ اپنے لڑکوں کو کالج میں پڑھانے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں بھیج دیتے ہیں۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے لڑکیوں کی تعلیم دور دراز علاقوں میں جاکر ممکن نہیں رہتی ہے، تاہم موجودہ حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ گیس کی عدم دستیابی نے ان خواتین کی زندگی کو مزید دشوار بنا دیا ہے۔ پہاڑوں سے لکڑیاں کاٹ کر لانا، پھر انھیں جلا کر کھانا پکانا۔ یہ ایک روزمرہ کی جدوجہد ہے، جو نہ صرف وقت ضایع کرتی ہے بلکہ ان کی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میلوں دور کنوں سے پانی لانا آج بھی ان کی زندگی کا لازمی جزو ہے، جیسے یہ کسی پرانی صدی کا کوئی گاؤں ہو، نہ کہ کراچی کے ساتھ لگا ایک ساحلی علاقہ۔ صحت کی سہولیات کا حال یہ ہے کہ معمولی بیماری کے علاج کے لیے بھی خواتین کو شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اکثر زچگی کے دوران یا بچوں کی بیماری میں وقت پر مدد نہ ملنے کے باعث جانیں ضایع ہو جاتی ہیں، اگر حکومت مبارک ولیج میں صرف تین بنیادی سہولتیں گیس، پینے کا پانی اور طبی مرکز فراہم کر دے تو یہاں کی خواتین نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ ’’ بلوچی دوچ‘‘ جیسے قیمتی فن کو عالمی سطح پر متعارف بھی کرا سکتی ہیں۔  بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع مبارک ولیج سے لے کر ٹھٹھہ سے متصل ریڑی کے علاقے تک ایک ہزار کے قریب گوٹھ ہیں، ان گوٹھوں میں اکثریت ماہی گیروں کی ہے ، مگر یہ سارے گوٹھ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، یہاں سے1970 سے لے کر 2024 تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں، ان میں ایک دفعہ کے علاوہ ہر بار پیپلزپارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس ساحلی پٹی سے منتخب ہونے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین وزارتوں کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور اب بھی ہیں لیکن ان منتخب اراکین نے کبھی اس ساحلی پٹی کی ترقی کے لیے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔  پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت مبارک ولیج سے لے کر پوری ساحلی پٹی کی ترقی کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ غربت کی لے کر کے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔ تاریخ گواہ ہے اگر حکومت نے کسی علاقے کو مسلسل نظر انداز کیا تو پھر نئے سماجی محرکات پیدا ہوجاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے سندھ حکومت اس جانب سنجیدگی سے متوجہ نہیں ہے۔ نتیجے میں مبارک ولیج ایک خوبصورت مگر محرومیوں سے بھرا ’’ مسائلستان‘‘ بن چکا ہے، لیکن ان پہاڑوں کے دامن میں بیٹھی ہوئی خواتین اب بھی اپنے ہاتھوں سے مستقبل بن رہی ہیں، رنگ، دھاگے اور خوابوں کے سہارے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل