Loading
12 اگست کو دنیا بھر میں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس کا موضوع ’’پائیدار ترقی کے اہداف اور دیگر مقاصد کیلئے مقامی سطح پر نوجوانوں کے اقدامات‘‘ ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی صورتحال اور ان کے مسائل کیا ہیں، حکومت ان کے حل کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے، نوجوان معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں ؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’نوجوانوں کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور نوجوانون کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ فیصل ایوب کھوکھر (صوبائی وزیر برائے کھیل و امور نوجوانان پنجاب) ایسے بچے جنہیں گھر سے سپورٹ ملتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف مالی سپورٹ نہیں ہے بلکہ اخلاقی اور جذباتی سپورٹ ہے، جنہیں والدین گھر سے ہیرو بنا کر بھیجتے ہیں وہ بچے ہیرو بنتے ہیں، ان کی سوشل سکلز اچھی ہوتی ہیں اور ان لہجہ پراعتماد ہوتا ہے۔ میرے نزدیک سب کو سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر نوجوان کو حوصلہ چاہیے۔ اسی لیے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نوجوانوں کو حوصلہ اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔نوجوان حکومت کی اولین ترجیح ہیں۔ سکولوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت 100 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا۔ اس بجٹ سے 100 دنوں میں پنجاب کے سرکاری سکولوں میں صاف پانی، ٹائلٹ، فرنیچر جیسی بنیادی سہولیات مکمل کی جا رہی ہیں اور سکولوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف سکول آف ایکسیلنس میں خود وزیر تعلیم نے اپنا بچہ داخل کرایا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سکولوں کی حالت کتنی بہتر ہو چکی ہے۔بچوں میں غذائیت کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری سکولوں میں بچوں کو دودھ کے ڈبے دیے جا رہے ہیں، اس کا آغاز جنوبی پنجاب سے کر دیا گیا ہے، ان بچوں کو کھانا دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب خود ہمارا احتساب کرتی ہیں۔ ہمیں انہوں نے ہدایت کی کہ اپنی کارکردگی عوام کو بتاؤ، جہاں خرابیاں ہوں گی خود سامنے آجائیں گی۔ حکومت پنجاب نے نوجوانوں کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں جن سے انہیں خاطر خواہ فائدہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے نوجوانوں کیلئے انٹرن شپ پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کا معاوضہ 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 50ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس سال 5 ہزار نوجوانوں کو 50 ہزار روپے ماہانہ پر انٹرن شپ فراہم کی جائے گی۔ یہ عمل مکمل میرٹ پر ہے، کوئی وزیر بھی اپنے لوگوں کو انٹرن شپ نہیں دلوا سکتا، یہ سسٹم مکمل آن لائن ہے۔ دنیا کی جدت کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دی جا رہی ہے بلکہ انہیں میرٹ پر لیپ ٹاپ بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے آئی ٹی سٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جو پاکستان خصوصاََ نوجوانوں کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ میں فخر سے دعویٰ کر سکتا ہوں کہ موجودہ حکومت کی نوجوان دوست پالیسیوں سے ہمارے نوجوانوں کا مستقبل روشن ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت ورکرز کے بچے سکول سے یونیورسٹی تک، مفت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں،اس ضمن میں لاہور کی ایک بہترین نجی یونیورسٹی کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے 5 ہزارکنال پر محیط میڈیکل سٹی بنایا جا رہا ہے جس میں صحت کی بہترین اور جدید سہولیات میسر ہونگی۔ ہم بھی وہاں اپنے محکمے کے ہسپتال بنا رہے ہیں۔ دنیا میں نرسوں کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے، ہم نہ صرف اپنے ملک کیلئے بلکہ دنیا کیلئے نرسز تیار کر رہے ہیں۔ ہم 500 ٹرینڈ نرسز فرانس بھیج رہے ہیں۔ ہم سکلڈ پروگرامز کے ذریعے مختلف شعبوں میں بہترین ورکرز پید ا کر رہے ہیں۔ پلمبر سے لے کر ڈاکٹر، انجینئر تک، سب کو بیرون ملک بھیج کر زر مبادلہ کی صورت میں فائدہ اٹھایا جائے گا، اس سے نہ صرف ان کی اور ان کے خاندان کی بلکہ پاکستان کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔ ہم ہر وقت تنقید کرتے رہتے ہیں اور مایوسی پھیلاتے ہیں، حالانکہ حالات اتنے خراب نہیں ہیں۔ حکومت کے جو اچھے کام ہیں، انہیں سپورٹ کرنا چاہیے۔ہم ہنرمند ہیومن ریسورس پیدا کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ ملک سب کا ہے اور اس کی ترقی میں سب نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ میرے نزدیک ملک کی آبادی 25کروڑ نہیں بلکہ یہ 50 کروڑ ہاتھ ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ عیشا شاہد (سائیکالوجسٹ) دماغی صحت معاشرے خصوصاََ نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دنیامیں ہر سات میں سے ایک شخص کو دماغی صحت کا مسئلہ ہے، سوال یہ ہے ان کی مدد کرنے کیلئے کتنے افراد موجود ہیں؟اس حوالے سے اکیڈیمیا کا کردار انتہائی اہم ہے، اساتذہ کو طلبہ کی کونسلنگ کرنی چاہیے۔ حکومت کو کونسلرز بھرتی کرنا ہوں گے، سکول کی سطح سے اس کا آغاز کرنا ہوگا۔ دماغی الجھنوں کی وجہ سے لوگ خود کشی کی طرف بھی راغب ہوتے ہیں، ہمیں نوجوانوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکنا ہوگا۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جس کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں، ہمارے نوجوانوں میں دوسروں کے ساتھ خود کا موازنہ اور مقابلہ کرنے، خود کو معاشرے میں ناکارہ سمجھنے اور سوشل میڈیا پر لوگوں کا مقابلہ نہ کر پانے جیسے رویے پنپ رہے ہیں جو ان کی دماغی صحت متاثر کر رہے ہیں، ہمیں ان کی کونسلنگ کرنا ہوگی اور انہیں بتانا ہوگا کہ زندگی میں خوشی ان کے علاوہ بھی بہت ساری چیزوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ زندگی میں بہت کچھ ہے، اپنا ملک ہے، والدین ہیں، خاندان ہے، رشتہ دار ہیں، دوست ہیں، ایک بہترین ’آف لائن‘ زندگی ہے جس میں مقصد اور خوشی تلاش کرنا ہوگی۔ بدقسمتی سے جدید دور میں والدین اور بچوں کے درمیان ’کمیونیکیشن گیپ‘ بڑھتا جا رہا ہے جس سے ان کے چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے، والدین کو یہ خلاء دور کرکے بچوں کے سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے چیزیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اب انفارمیشن کے ذرائع بدل گئے ہیں لہٰذا اس میں بچوں کو آئسولیٹ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے سوالات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ وہ وجودی بحران سے گزر رہے ہیں۔ ان کے زندگی کے اہداف حقیقت پسندانہ نہیں ہیں اور ان کا علم ناکافی ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ بچوں کو کتنی سپورٹ دی گئی ہے؟ سرکاری اور نجی سطح پر ان کیلئے کیا کام کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک بچوں کی کونسلنگ کا آغاز گھر سے ہونا چاہیے اور سسٹم کو بھی انہیں سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ جدید دور میں بچوں کی الجھنوں میں کمی لائی جاسکے اور انہیں زندگی گزارنا سکھایا جاسکے۔ آمنہ افضل (نمائندہ سول سوسائٹی) 12 اگست کو دنیا بھر میں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد نوجوانوں کی صورتحال اور ان کے مطالبات کا جائزہ لے کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ دیکھنا یہ ہے ہمارے نوجوانوں کے مسائل اور مطالبات کیا ہیں خصوصاََ لڑکیاں جو پدر شاہی سوچ اور معاشرتی مسائل کے باعث بہت پیچھے ہیں۔ یہ باصلاحیت خواتین کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ یہ ان کی صلاحیت کو کم اور کہیں بالکل ختم کر دیتی ہے لہٰذا یہ طے کرنا ہے کہ انہیں کس طرح آگے بڑھنے کے برابر مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اس وقت سوا دو کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، جو جاتے ہیں، ان میں سے 70 فیصد بچے میٹرک تک ڈراپ ہو جاتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو بغیر کونسلنگ اور سکلز کے معاشر ے میں موجود ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بچے چند برسوں میں نوجوانوں میں شامل ہو جائیں گے اور مسائل کا انبار کھڑا کر دیں گے۔ اگر یہی حالات رہے تو معاشرے میں جرائم میں اضافہ ہوگا اور مسائل پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ افسوس ہے کہ ہمارے سکول جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہاں بچوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ ہمارے ادارے نے 50 سکولوں کا دورہ کیا جن میں سے 25 فیصد میں صاف پانی، 44 فیصد میں ٹائلٹ اور 28 فیصد میں کلاس رومز ناکافی تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم کتنا بہتر اور موثر ہے۔ جہاں سکولز بہتر ہیں وہاں بھی صرف کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں بچوں کو ہنر نہیں سکھایا جا رہا ہے، پریکٹیکل تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ جدید دور تقاضہ کرتا ہے کہ بچوں کو ہنرمند بنایا جائے، اس کا مقصد صرف فیکٹری کا کام سکھانا نہیں بلکہ جدید علوم کی تربیت بھی اس میں شامل ہیں جس میں آئی ٹی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس و دیگر شامل ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کی سطح پر ایک بڑا مسئلہ زیادہ فیس کا ہے، طلبہ لاکھوں روپے ادا نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے اب یونیورسٹیز میں تعداد کم ہو رہی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق ہر شہری کو 16 برس تک مفت اور لازمی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس پر موثر کام نہیں ہو رہا۔سکولوں میں کسی بھی سطح پر بچوں کی کونسلنگ کا میکنزم موجود نہیں ہے۔ بچوں کی کیریئر کونسلنگ اور انہیں سٹریس مینجمنٹ سکھانے کیلئے کونسلنگ سنٹرز قائم کرنا ہوں گے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں پر توجہ دیں، ان کی کونسلنگ کریں۔ میرے نزدیک بچوں کی اچھی تربیت کیلئے والدین کو ’پازیٹیو پیرنٹنگ‘ سکھانا ہوگی۔ بچوں کے حوالے سے پالیسی سازی یا منصوبہ بندی میں بچوں سے رائے لازمی لینی چاہیے، اس کیلئے بچوں کو فیصلہ سازی میں بھی شامل کرنا ہوگا۔ بچوں میں خوارک اور غذائیت کا مسئلہ ہے، اسے دور کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دور جدید میں نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی طرف لانا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ انہیں سائبر ہراسمنٹ اور انٹرنیٹ سے جڑے مسائل کے بارے میں بھی آگاہ کرنا ہوگا۔ رواں برس نوجوانوں کے عالمی دن کا موضوع اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف اور مقامی سطح پر نوجوانوں کے اقدامات ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف انتہائی اہم ہیں، ہم نے 2030ء تک انہیں حاصل کرنا اور اس کی رپورٹ جمع کرانی ہے۔ ان اہداف میں تمام مرد، خواتین، ٹرانس جینڈر، اقلیتیں، خصوصی افراد سمیت معاشرے کے تمام طبقات کیلئے برابر حقوق اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ہیں۔ حکومت کو ان پر کام کو مزید تیز کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر ہمارے چند مطالبات ہیں کہ نوجوانوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، انہیں انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جائے، طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے، ان کی بلاتفریق سیاسی شمولیت یقینی اور موثر بنائی جائے۔ نوجوانوں کے کیلئے ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز بنائے جائیں اور ان کی کیریئر کونسلنگ کی جائے۔ نوجوانوں کو ایک بڑا مسئلہ سفری سہولیات کا ہے، ان کی یہ مشکل دور کی جائے۔ اساتذہ کی تربیت بھی کی جائے جس میں سائیکالوجی کو لازمی شامل کیا جائے۔ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ونیزہ اکبر (رکن یوتھ پارلیمنٹ پاکستان) ہمارا ادارہ گزشتہ 22 برسوں سے نوجوانوں کیلئے کام کر رہا ہے۔ ہم نوجوانوں کو ان کے مسائل اور حل کے بارے میں آگاہی بھی دیتے ہیں اور انہیں تیار بھی کرتے ہیں۔ ملک بھر سے 300 ممبرز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں صوبائی تقسیم ہے۔ ایک صوبے کے نوجوانوںکو نہیں معلوم کہ دوسرے صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔ آگاہی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے یوتھ پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم بہترین ہے۔ ہم نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر نہ صرف قومی وحدت پیدا کر رہے ہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کے کلچر، معاشرہ اور سیاسی نظام کو سمجھنے میں بھی مدد کر رہے ہیں۔ہم ہمیشہ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ معاشرے میں بہت کچھ مثبت ہے جسے ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا جو ماضی سے 11 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں اضافے کی وجہ نوجوان ہیں جو جمہوری نظام اور ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ ہماری آبادی کا 65 فیصد سے زائد نوجوان ہیں جنہیں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت نوجوان ایک اصطلاح کے طور پر ہی استعمال ہو رہے ہیں کہ وہ موجود تو ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی ، انہیں وہ مواقع نہیں مل رہے جو ملنے چاہئیں۔ پازیٹیو پیرنٹنگ بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں بہت کچھ ہے، ہمیں مایوسی کی سوچ کو ختم کرنا ہے، نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اس ملک کا مستقبل ہیں لہٰذا انہوں نے خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، یہ دور آئی ٹی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرپرینیور شپ کا ہے، نوجوانوں کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہم نے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ یہ ایک بہترین منصوبہ ہے۔ میرے نزدیک سب سے اہم پائیداری ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کو تربیت دی جاتی ہے لیکن بعد میں ٹریک نہیں کیا جاتا کہ وہ کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمیں ایسے پروگرام ڈیزائن کرنے ہیں کہ جنہیں تربیت دی جائے وہ نہ صرف خود کام کریں بلکہ مزید لوگوں کو بھی تربیت دیں، یہ چین رکنی نہیں چاہیے، اسی طرح ہی ترقی ہوگی اور سب کو آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔ یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان نے اب تک جن نوجوانوں کو تربیت دی ہے، وہ بہترین پرفارم کر رہے ہیں۔ ہمارا المنائی کا وسیع نیٹ ورک ہے۔ ہمارے المنائی سول سروسز سمیت مختلف اداروں اور سیکٹرز میں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں ارباب اختیار کے ساتھ خصوصی نشست رکھوائی جاتی ہے تاکہ براہ راست مسائل پر گفتگو ہوسکے اور حل نکالا جائے۔ ہم نے طلبہ یونینز کی بحالی کا بل ڈرافٹ کیا جسے سندھ حکومت نے اسمبلی میں پیش کیا، حکومت تبدیل ہوگئی اور معاملات رک گئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کام کرتے رہنا چاہیے، فائدہ ضرور ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل