Monday, August 18, 2025
 

قومی اعزازات پر سیاست

 



    14 اگست آتا ہے تو ساتھ ایک بحث بھی لاتا ہے، اس بحث کا موضوع ہے، ریاست کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کے لیے اعزازات۔ اس برس بھی یہ روایت برقرار ہے بلکہ ماضی کی نسبت اس میں شدت کچھ زیادہ ہے۔ اس بحث کی نوعیت کیا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ایک مثال مناسب ہو گی۔     جناب نصیر احمد ناصر نئی نظم کے نمایندہ شاعر ہیں۔ اپنی نظم میں انھوں نے انسانی جذبوں کے اظہار کے لیے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس نے انھیں ہم عصر شعرا میں ممتاز کر دیا ہے۔ ریاست پاکستان نے ان کے لیے اعزاز کا اعلان کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اسے قبول کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ ان کے ایک قدر دان جناب ابرار عمر کو خوش نہیں آیا۔ اس ضمن میں وہ جو طویل ردعمل ضبط تحریر میں لائے ہیں، اسے ایک مصرعے میں بیان کیا جائے تو یہ ہو گا کہ عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا۔ابرار عمر کی باتیں پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اعزاز وصول کرنا شاعر کے منصب کے منافی ہے۔ یہ انداز فکر کیا ہے؟ اسے ایک سینئر صحافی جناب انصار عباسی کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔     سول اعزازات کی فہرست مرتب کرتے وقت کیبنٹ ڈویژن نے انصار عباسی صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے یہ کہہ کر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا کہ انھوں نے جو کچھ کیا، اپنے ملک کے لیے کیا، انھیں اس کے عوض کسی اعزاز کی ضرورت نہیں۔ انصار عباسی دین دار اور اجلا کردار رکھنے والے صحافی ہیں۔ ان کا طرز عمل بے غرضی پر مبنی ہے۔ نام و نمود سے دور بھاگنے والے صوفیا کا چلن بھی یہی ہے لیکن ریاست کی طرف سے اپنے کسی شہری کی خدمات کا اعتراف اس کے جذبے اور بے لوثی کی قیمت لگانا نہیں ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے اپنے بچے کے کسی کارنامے پر ماں اس کے ماتھے پر بوسا دے لیکن اگر یہ بچہ عین اس وقت پیچھے ہٹ جائے جب ماں اسے سینے سے لگانے کے لیے بے قرار ہو تو سوچیے کہ ماں پر کیا بیتے گی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی لائق اولاد ماں کے مرتبے سے بے خبر ہے۔ ریاست کے اعزاز کو قبول نہ کرنا اور اسے قبول کرنے کو معیوب سمجھنے کا مطلب بھی یہی ہے۔     اس مرحلے پر ممکن ہے کہ یہ خیال ذہن میں سرسرائے کہ ادب و فن ریاست سے بلند ہوتے ہیں وغیرہ اور دیکھیے فلاں فلاں ادیب اور دانش ور نے بھی اعزاز قبول نہیں کیا تھا۔ یہ انداز فکر مغالطے پر مبنی ہے۔ اگر کسی قوم کا حق خود اختیاری دبانے والی کوئی استعماری طاقت کسی کو اعزاز دیتی ہے تو اسے ٹھکرانا یقینا بہادری اور دانش مندی ہے یعنی بھارت اگر کسی کشمیری کو اور اسرائیل کسی فلسطینی کو ایسا اعزاز دے اور وہ اسے قبول کر لے تو یقینا یہ غیرت کے منافی ہے لیکن اپنی ریاست یعنی پاکستان کی طرف سے ملنے والے اعزاز کو قبول نہ کرنے کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں ریاست کا تصور واضح نہیں یا آپ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ اعزاز ریاست دیتی ہے حکومت نہیں۔     2025 کے اعزازات پر ایک دل چسپ اعتراض بھی سامنے آیا ہے۔ سینئر صحافی اور ذاتی حیثیت میں میرے بڑے بھائی جناب مظہر عباس نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی حکومت خود اپنے ارکان کو اعزاز سے نہیں نواز سکتی؟ یہ درست ہے اور نہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظہر بھائی کا اعتراض یہ ہے کہ اس برس جناب اسحاق ڈار، جناب عطا اللہ تارڑ، محسن نقوی، دیگر وفاقی وزرا جناب بلاول بھٹو زرداری اور پاکستانی مؤقف کو دنیا تک پہنچانے والے پارلیمانی وفد کو اعزاز کا حق دار کیوں سمجھا گیا؟ اولاً یہ اعتراض بھی ریاست اور حکومت جیسے اداروں کو باہم خلط ملط کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ دوم، چند وزرا اور سیاستدانوں کو ملنے والے اس اعزاز کو سیاسی وابستگی سے منسلک کیا گیا ہے۔ یہ غور نہیں کیا گیا کہ یہ ایوارڈ کیوں دیا گیا۔      ہمارے یہاں قومی اعزازات کا اعلان 14 اگست کو کیا جاتا ہے اور اعزاز یافتگان کو یہ اعزاز 23 مارچ کو عطا کیے جاتے ہیں لیکن اس برس یہ تقریب 14 اگست ہی کو ہو گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کہ اس برس کچھ ہوا تھا یعنی پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ میں جیسے ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی ناک زمین پر رگڑی بالکل اسی طرح ہمارے وفاقی وزرا نے پاکستان کا بیانیہ پوری جرات مندی اور حکمت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس نازک مرحلے پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے دن رات ایک کر کے پاکستانی مؤقف کو عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچایا۔ جنگ کے دنوں میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار نے جس انداز میں اہم اورمؤثر دارالحکومتوں کو انگیج کیے رکھا، وہ بھی متاثر کن تھا۔ ان دونوں وزرا سمیت دیگر وزرا نے بھی اپنا محاذ بالکل کسی سپاہی کی طرح سنبھالا۔ کیا وطن کے سپاہی جان ہتھیلی پر رکھ وطن کی حفاظت کریں تو اسے نظر انداز کر دیا جائے اور صرف اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ انھوں نے وردی نہیں پہن رکھی؟ وطن کی حفاظت کرنے والا وردی میں ملبوس ہو یا سادہ کپڑوں میں اس کی خدمات کا اعتراف بری بات نہیں خوبی کی بات ہے۔ کسی کی خدمات کا اعتراف صرف اس لیے نہ کیا جائے کہ اس کی خدمات کا دائرہ سیاست میں آتا ہے، یہ انداز فکر بھی مناسب نہیں۔ قومی دفاع کا معاملہ سیاست سے بلند ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے خدمات انجام دینے والوں کے اعزازات کو آج ہدف تنقید بنایا گیا تو کل وطن کے شہیدوں پر انگلی اٹھانے والے بھی پیدا ہو جائیں گے۔     حالیہ پاک بھارت جنگ کے ضمن میں جن لوگوں کو اعزازات سے نوازا گیا ہے، ان میں ایک ارشد ملک بھی ہیں۔ ارشد ملک کی حالیہ ذمے داری وزیر اعظم پاکستان کے تقریر نویس کی ہے۔ بعض دانش مندوں نے سوال اٹھایا ہے کہ انھیں کس خوشی میں اعزاز سے نوازا گیا ہے؟ ان لوگوں کا دکھ سمجھ میں آتا ہے لیکن ارشد ملک کیا ہیں اور ان کی خدمات کیا ہیں، حقیقت یہ ہے، اعتراض کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی خدمات کیا ہیں۔      ارشد ملک ایک محنت کش صحافی ہیں جو بہت سے لوگوں کی طرح نہ سونے کا چمچ منھ میں لے کر پیدا ہوئے، نہ انھوں نے سرمایہ داروں کی دریوزہ گری کر کے دولت کمائی اور نہ کسی کے در پر لوٹنیاں لگا کر صحافی بنے۔ ان کے طویل صحافتی کیرئیر کا ایک ایک مرحلہ ہمارے سامنے ہے جس پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے۔      ارشد کی شخصیت کا خمیر دو خوبیوں کے امتزاج سے اٹھا ہے۔ اول محنت اور صرف محنت اور دوم خیر، بھلائی اور بے لوث محبت۔ کوئی اپنا ہو یا غیر، وہ حتی الامکان ہر کسی کے کام آتے ہیں۔ ارشد نے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنا نام اور جگہ بنائی ہے۔ وہ جس جگہ چلا جاتاہے، انگوٹھی میں نگینہ بن جاتا ہے۔ اس کی دوسری خوبی محبت ہے۔ وہ کسی غرض کے بغیر صرف دوستوں ہی کے نہیں ہر کسی کے کام آتا ہے۔ آپ کسی مشکل میں ہیں اور اسے خبر ہوگئی ہے تو وہ آپ کے علم میں لائے بغیر آپ کی مشکل آسان کرنے میں تن من دھن سے مصروف ہو جائے گا۔ ارشد کے مزاج کی یہ ایسی خوبی ہے جس سے اس کی طرف زبان طعن دراز کرنے والے بھی آگاہ ہیں بلکہ زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں فیض یاب بھی ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ ارشد کی اس خوبی سے بھی واقف ہیں کہ وہ ون مین آرمی اور چلتا پھرتا تھنک ٹینک ہے۔ صرف اس ایک آدمی کو سیاسی بیانیہ سازی میں جو مہارت حاصل ہے، اس کا کوئی مقابل نہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگ کے موقع پر اس کی یہی ہنر مندی بروئے کار آئی، ریاست پاکستان نے جس کا اعتراف کر کے اچھی روایت قائم کی ہے۔      بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اعزاز دیا جائے تو اعزاز کو اعتبار ملتا ہے جیسے قبلہ گاہی عطا الحق قاسمی۔ انھیں ادب کے شعبے میں خدمات پر سب سے بڑے اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا ہے بالکل اسی طرح اگر پس پردہ رہ کر کام کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے تو اس سے بھی اعزاز کی وقعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ارشد ملک کی عزت افزائی ایسی ہی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل